کینسر (89) ۔ ٹارگٹڈ مالیکیولر تھراپی/وہاراامباکر

سلامون کی پہلے فیز میں کامیابی کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہرسپٹین اب خبروں میں تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ جس کینسر کو نشانہ بناتی تھی، یہ مہلک اور تیزی سے پھیلنے والا تھا۔ اور اس کے مریض کچھ بھی کرنے کو تیار تھے۔ “اصل کامیابی اس وقت ہوتی ہے جب نئی ادویات جسم میں داخل ہوتی ہیں”۔ ایک ایکٹوسٹ نے لکھا۔
جینن ٹیک کے لئے “اصل کامیابی” کا معیار یہ نہیں تھا۔ ہرسپٹین کو منظوری نہیں ملی تھی۔ یہ ابھی ابتدائی شکل میں تھا۔ جینن ٹیک کو احتیاط سے ٹرائل کرنا تھے، ادویات جسم میں داخل نہیں کرنی تھیں۔
اگلے ٹرائلز میں ستائیس اور پھر سولہ اور پھر انتالیس خواتین نے شرکت کی۔ “ادویات ہمدردی کے تحت نہیں دی جاتیں۔ اگر احتیاط سے ٹرائل نہ کئے جائیں اور پروٹوکول کی پاسداری نہ کی جائے تو پھر ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہو سکے گا کہ دوا موثر بھی ہے یا نہیں”۔ یہ ٹرائلز کے لیڈر ڈبو ٹراپاتھی کے الفاظ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس نے تنازعہ کھڑا کر دیا۔ کینسر ایکٹوسٹ کو یہ احتیاط پسند نہیں آئی تھی۔ “کیا مریضوں کی زندگی کو تجربات کے انتظار کی بھینٹ چڑھا دیا جائے؟”۔
ایک اور مضمون میں، “سائنس کو اگر اعتماد نہیں تو یہ کچھ نہ کرنے کا اچھا بہانہ نہیں۔ ہم “ثبوت” کا انتظار نہیں کر سکتے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسی ایک مریضہ مارٹی نیلسن تھیں۔ ان کا کینسر 1993 میں واپس آیا تھا اور وہ یہ دوا استعمال کرنا چاہتی تھیں، لیکن اس تک رسائی نہیں تھی۔ انہوں نے بریسٹ کینسر ایکشن سے رابطہ کیا کہ انہیں اس دوا تک رسائی دلائی جائے۔ اکتوبر 1994 میں ان کے ٹیومر کا ٹیسٹ ہوا۔ اور اس تجربے کی اجازت مل گئی لیکن ان کے لئے یہ بہت دیر سے ہوا تھا۔ اس کی منظوری مل جانے کے نو دن کے بعد وہ کوما میں جا چکی تھیں جہاں سے واپس نہیں آئیں۔ اکتالیس سالہ مارٹی اس موذی کا شکار ہو گئی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مارٹین نيلسن کی موت نے احتجاجوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ سیاسی گفت و شنید کے بعد ایک بڑا فیز تھری ٹرائل 1995 میں شروع کیا گیا۔ اس میں 469 خواتین شامل تھیں اور جینن ٹیک کے لئے اس کی قیمت ڈیڑھ کروڑ ڈالر تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مئی 1998 میں اس کے نتائج پیش کئے گئے۔ یہ حوصلہ افزا تھے۔ اوسط عمر میں اضافہ چار سے پانچ ماہ کا تھا۔ یہ سننے میں کم لگے لیکن ان ٹرائل میں انہیں خواتین کو شامل کیا گیا تھا جن کے بچنے کی امید نہیں تھی۔ اس کا اصل اثر دیکھنے کے لئے ابتدائی سٹیج پر ٹیسٹ کئے جانا تھا۔
دو بڑی سٹڈیز 2003 میں شروع ہوئیں جو کثیرالاقوامی تھیں۔ ہرسپٹین نے دکھایا کہ سروائیول میں اضافہ تینتیس فیصد سے زیادہ تھا۔ کیموتھراپی میں یہ بے نظیر تھا۔ ایک اونکولوجسٹ نے لکھا، “یہ انقلابی نتائج ہیں۔ مالیکول کو ٹارگٹ بنانے والی تھراپی کے لئے یہ بہت اچھی خبر ہے۔ دوسرے اہداف اور ایجنٹ ملنے کی امید کی جا سکتی ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسی ایک دوا گلیوک ہے۔ سی ایم ایل ایک نایاب لیوکیمیا ہے۔ ہر سال صرف چند ہزار مریضوں میں اس کی تشخیص ہوتی ہے۔ گلیوک کائنیس کو روکنے والا ایجنٹ ہے۔ گلیوک کی آمد سے پہلے سی ایم ایل کے مریضوں کی تھراپی کا طریقہ کار ہڈی کے گودے کا ٹرانسپلانٹ تھا اور اس کے نتائج بھی اچھے نہیں تھے۔
چونکہ یہ بہت کم لوگوں کو ہوتا ہے تو اس پر تحقیق کرنے والی کمپنی (نوراٹس) اس کی تحقیق پر دس سے بیس کروڑ ڈالر خرچ کرنے کے لئے رضامند نہیں ہو رہی تھی۔ لیکن 1999 میں آخرکار حامی بھر لی۔ چند گرام کیمیکل کی پیداوار کر لی گئی جس سے پہلا ٹرائل کیا جا سکتا تھا۔ انٹرنیٹ کی آمد کے اس دور میں ٹرائل کے لئے مریض ملنا دشوار نہیں تھا۔ 54 مریض مل گئے۔ ایک کے سوا باقی تمام مریضوں پر اس دوا نے فوری فائدہ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سی ایم ایل کے مریضوں کی مزید زندگی تین سے چھ سال ہوتی تھی۔ اب دوا کے باقاعدہ استعمال کے ساتھ یہ طویل عرصہ زندہ رہ سکتے ہیں۔ اور دوا کے مضر اثرات معمولی ہیں۔
گلیوک کی کامیابی مستقبل کے لئے ٹارگٹڈ مالیکولر تھراپی کے لئے حوصلہ افزا خبر تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سی ایم ایل کا مریض گلیوک کے استعمال کے ساتھ تشخیص کے بعد تیس سال تک زندہ رہنے کی توقع کر سکتا ہے۔
اگرچہ یہ مرض عام نہیں لیکن زندہ رہنے کی صلاحیت دے دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کینسر کے ساتھ اب ڈھائی لاکھ لوگ زندگی بسر کر رہے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply