سائنٹفک کرپشن – مارکیٹنگ (2)-احمر نعمان

ریسرچ کی فنڈنگ فارماسیوٹیکل انڈسٹری کو ملنے سے فیصلہ سازی انہی کے ہاتھ چلی گئی اوریونیورسٹی ریسرچر ان کے آلہ کار بن گئے، اب ریسرچ صرف وہ ہوتی ہے جس کی ‘فنڈنگ’ میسر ہو۔ اب ڈیرک بوک کو یاد کیجیے کہ یونیورسٹیوں کو انڈسٹری کی فنڈنگ برباد کر دے گی، اسی وجہ سے امریکا میں ۹۶ فیصد میڈیکل ریسرچ کا پیسہ ادویات پر جا رہا ہےکہ نفع زیادہ ہے۔
فائزر کو جب گزشتہ ایک مقدمہ میں کاغذات پبلش کرنا پڑے تو ایک دلچسپ فقرہ سامنے آیا۔
Purpose of this data is to support the marketing of data.
موڈرنا جو دوسری بڑی ویکسین تھی اورکمپنی کا نام موڈرنا ہی mRNA سے نام لیا ہے بنی ہی ۲۰۱۰ میں تھی ، اس نے اور بائیو این ٹیک دونوں کمپنیوں نے کبھی کوئی پروڈکٹ لانچ ہی نہیں کیا تھا ۔ موڈرنا کو ۲۰۱۲ میں DARPA Defense Advance ResearcH project Agencyنے گود لیا، تب تک یہ کینسر کے علاج کی بات کرتی تھی، ۲۰۲۰ میں مگر یک دم ویکسینیشن کی دوڑ میں سب سے آگے، کہ نئی چیز کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی تجربہ چاہیے ہی نہیں، نہ کوئی ڈیٹامارکیٹ میں موجود ہے، صرف مارکیٹنگ سے کام چل سکتا ہے۔
انالیٹکس پر بات پیچیدہ ہو جائے گی مگر آسان فہم کہا جائے تو مارکیٹنگ میں صرف فلٹرڈ ڈیٹا filtered data سامنےلایا جاتا ہے، جو ڈیٹا مفاد سے ٹکرائے نظر نہیں آتا۔ کارپوریٹ سیکٹر کےسیلز اور مارکیٹنگ بنیادی لوازمات ہیں ، سائینٹفک میتھاڈولوجی اور ریسرچ نہیں۔
ان مقدمات کے کاغذات میں جگہ جگہ دلچسپ باتیں ملتی ہیں، ایک جگہ ملتا ہے کہ سپانسر ہی تمام پبلیکیشن کے نتائج لکھے گا اور انویسٹیگیٹر صرف ریویو کر سکتے ہیں۔ (یاد رہے یہاں انویسٹیگیٹر کوئی تیسرے چوتھے درجے کے یا تھرڈ پارٹی احباب نہیں بلکہ وہ ریسرچر ہیں جنہوں نے اصل ریسرچ کی ہے) آسان الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ فارماسیوٹیکل/ ڈرگ کمپنی ریسرچ پیپر لکھے گی جسے گھوسٹ رائٹنگ کہہ سکتے ہیں ، اصل ریسرچر اس آرٹیکل کو بدلنے کے مجاز بھی نہیں بلکہ اپنی ہی ریسرچ پر لکھے اس گھوسٹ رائٹنگ میٹریل پرترلا کر کے زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ بھائی صاحب ریسرچ تو میری ہے مگر کہانی آپ دوبارہ لکھ لیں، یہ بجائے خود سائنسی منہج scientific method نہیں۔
فائزر کے سی ای او البرٹ برلا، گھوڑوں کے ڈاکٹر ہیں، ان کا ایک انٹرویو ٹائمز کے ساتھ ہوا، ان سے پوچھا گیا کہ ویکسین کی قیمت کیا ہو گی، فرماتے ہیں یہ مفت ملے گی۔ سوال کرنے والا بھی ستم ظرف تھا، اس نے پوچھا وہ کیسے تم فری دو گے؟ نہیں نہیں جناب! جواب ملتا ہے، ہم حکومت کو چارج کریں گے مگر سستے داموں۔ اس سال کا ریونیو دیکھیں تو سو بلین ڈالر ریونیو،اور ۳۲ بلین ڈالر منافع یے اس سستے داموں دوا کا یعنی اس سے قبل تاریخ میں سب سے زیادہ نفع ہمیرا نامی دوا کا رہا ہے جو ۲۰ بلین ڈالر تھا شاید۔
فائزر کے حالیہ مقدمہ میں FDA نے اعلی عدلیہ سے فرمائش کی کہ ۷۵ سال بعد یہ کاغذات پبلک کیے جائیں، آگے ٹیکسس کا جج نو کنٹری فار اولڈ مین دیکھ کرشاید تپا بیٹھا تھا، اس نے کہا نہیں یہ ابھی ریلیز ہوں گے اور بجائے ۵۰۰ صفحات ماہانہ کے ہر ماہ ۵۵۰۰۰ صفحات پبلش کیے جائیں گے، ان میں اب ایسا کیا ہے جو یہ فی الحال خفیہ رکھنا چاہتے تھے؟ اگر کوئی مسئلہ نہیں اور سب سازشی تھیوریاں ہی ہیں تو؟ ان کے ہر دوسرے سال جرمانے کیوں ہوتے ہیں ان میں کیا لکھا ہے؟ سوچنے والی باتیں تو یہی ہیں؟ سازشی تھیوری کا الزام لگانا تو ٹھیک ہے،مگر دال میں کالا تو ہے کہیں نہ کہیں۔
فائزر کے ان ریلیزڈ کاغذات کے مطابق ویکسین کا سب سے بڑا سائیڈ ایفیکٹ معلوم ہے کیا درج ہے؟
کووڈ۔ جی ہاں، ویکسین کا ایک سائیڈ افیکٹ یہ ہے کہ اگر آپ کو کووڈ نہیں ہوا تواس محفوظ ترین ویکسین سے آپ کو کووڈ ہونا ممکن ہے۔ ہمیں حکومت، ٹونی فائوچی اور محترم ڈاکٹرصاحبان سائیڈ افیکٹ بتاتے تھے کہ آپ کو chills ہوں گی (جو مجھے ایک ماہ رہیں)، سوجن swelling ہو گی اور fatigue ہو گی، مگر فائزر کے ڈاکومنٹ سائیڈ افیکٹ بتاتے ہیں سٹروک، برین ہمبرج، بلڈ کلوٹنگ، پھیپھڑوں کی کلوٹنگ، نیورولوجیکل ڈس آرڈر بشمول فالج، ڈیمنشیا، آٹو امیون Guillain-Barré سنڈروم، جوڑوں کا درد، مسل کا درد وغیرہ,، کاغذات میں یہ بھی درج ہے کہ ویکسین کے پہلے ماہ اس قدر انتہائی سنگین نتائج رپورٹ ہوئے کہ ڈھائی ہزار نئے لوگ چاہییں جو صرف انتہائی سنگین سائیڈ افیکٹس کی رپورٹنگ والا پیپر ورک کر سکیں۔
مئی ۲۰۲۱ میں فائزر کو رپورٹ ملی ،کہ پہلے ہفتے میں ہی ۳۵ بچوں کو دل کا مسئلہ لاحق ہو گیا ہےیعنی FDA اور فائزر ، دونوں کے علم میں آ چکا تھآ، مگر چار ماہ تک سرکار نے ہم ماں باپ کو یہ خبردار کرنے کی زحمت نہیں کی۔
اوورڈوزڈ امریکا نامی معروف کتاب کے مصنف، ڈاکٹر جان ابرامسن جو فائزر کے ایک پرانے مقدمہ میں اہم گواہ تھے، ان کے مطابق ۲۰۰۸ میں ایک نئی دوائی کی قیمت دو ہزار( ۲۰۰۰) ڈالر ہوا کرتی تھی، ۲۰۲۱ میں یہ قیمت ایک لاکھ اسی ہزار ۱۸۰،۰۰۰ ، یعنی پونے دو لاکھ ڈالر جا پہنچی، گزشتہ برس یعنی ۲۰۲۲ میں یہ دولاکھ ستاون ہزار ڈالر ہو چکی ہے۔ اور ڈاکٹر ابرامسن ہارورڈ گریجویٹ ، ڈارٹ متھ میڈیکل یونورسٹی سے ڈاکٹریٹ، کیس ویسٹرن سے میڈیکل ایم ایس ۔ اور براون یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹورل۔ بیس سال بطور فیملی فزیشن پریکٹس کی اور ایک کلینک کے چئرمین ہیلتھ رہے۔
انہی کا ڈیٹا ہے کہ اس وقت چھیاسی، ۸۶ فیصد کلینکل ٹرا ئل اور ۹۷ فیصد سائٹڈ آرٹیکلcited articles کمرشلی فنڈڈ ہیں۔ رہے نام اللہ کا۔
احمرنعمان
۱۸ نومبر۲۰۲۳

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply