نفسیاتی تبصرہ/ندا اسحاق

اگر ہندو فلسفہ، ہندو دیو مالائی کہانیاں یا مہابھارت سے متعلق کبھی کوئی مواد آپ کی نظر سے نہیں گزرا، اور ہندی زبان سے آپ کا کبھی کوئی واسطہ نہیں پڑا تو بہت ممکن ہے کہ یہ ویب سیریز آپ کے لیے صرف سنسنی خیز مواد ہوں جس میں ایک سائیکوپاتھ لوگوں کا قتل کررہا ہے۔
یہ کہانی قتل سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس میں موجود کردار شبھ جوشی ایک “روحانی فلسفی سائیکوپاتھ” ہے، یہ سیریز میں نے اس سائیکوپاتھ کے کردار کو سمجھنے کے لیے دیکھیں۔
سائیکوپاتھ عموماً وہ لوگ ہوتے ہیں جنکا دماغ عام انسان سے مختلف ہوتا ہے، ان کے دماغ میں “خوف” اور “ہمدردی” کا جذبہ درج نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ جرم کی دنیا میں انہیں پکڑنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ ان پرکسی کا شک نہیں جاتا یہ اتنا پرسکون رہتے ہیں اور ذہین بھی ہوتے ہیں۔ سوچیں کہ کسی کا گلا کاٹتے ہوئے آپ پرسکون رہ سکیں گے؟ بلکل بھی نہیں آپ کا دماغ فوراً سے “خوف” کے جذبہ کو درج کرے گا اور آپ کی پوری باڈی میں ہارمون خارج ہونگے اور آپ کو دیکھ کر صاف پتہ لگ جائے گا کہ کوئی گڑبڑ ہے۔
فلم میں آپ الجھن میں رہتے ہیں کہ آخر شبھ جوشی کا کردار سائیکوپاتھ ہے یا پھر اسے حالات ایسا بننے پر مجبور کرتے ہیں؟ جبکہ میں نے مندرجہ بالا پیراگراف میں ذکر کیا سائیکوپاتھ ایک مخصوص ذہن ہوتا ہے، یہ پیدائشی ایسے ہوتے ہیں تو پھر حالات کیسے اثر انداز ہوسکتے ہیں؟؟ جہاں انسانوں کی بات ہو وہاں پیچیدگیاں لازم ہوتی ہیں، ہر انسان کی طرح شبھ کے کردار میں بھی پیچیدگیاں ہیں۔
ماحول کا اثر:
نیوروسائنسدان جیمز فیلن سائیکو پیتھی پر ریسرچ کررہے تھے اس ریسرچ کے دوران اتفاق سے جب ان کے دماغ کا اسکین ہوا تو معلوم ہوا کہ انکا اسکین سائیکوپاتھ کے دماغ سے میل کھاتا ہے۔ ڈاکٹر جیمز اپنے انٹرویو میں مزاحیہ انداز میں کہتے ہیں کہ “میں اگر تعلیم یافتہ، سمجھدار اور امیر والدین کی اولاد نہ ہوتا تو شاید کوئی سیریل کلر ہوتا”۔
میں نے “حقیقت” والی پوسٹ میں کہا تھا کہ آپ کہاں پیدا ہوتے ہیں اس کا آپ کے مستقبل اور شخصیت پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ جیمز فیلن کی طرح فلم کا کردار شبھ کسی ایسے گھر میں پیدا ہوتا جہاں سمجھدار، تعلیم یافتہ اور مالی اعتبار سے خوشحال والدین ہوتے تو شاید اس کو “کلی” (شیطان) بننے کی ضرورت کبھی نہیں پڑتی، وہ ڈاکٹر جیمز کی طرح ایک کامیاب سائیکوپاتھ بھی بن سکتا تھا!! سائیکوپاتھ بہترین سرجن، وکیل اور سائنسدان بھی ہوتے ہیں۔
لگاؤ کا ٹروما (Attachment Trauma):
فلم میں موجود شبھ جوشی ایک پنڈت کا بیٹا ہے، پنڈت صاحب بہت توہم پرست انسان ہیں اور چاہتے تھے کہ انکا بیٹا ایک مخصوص تاریخ کو جنم لے اور ایک مہان انسان بنے لیکن حادثہ کی وجہ سے بچہ ایسی تاریخ کو جنم لیتا ہے جس میں ہندو علم نجوم کے مطابق شیطان صفت خوبیاں انسان پر حاوی رہتی ہیں اور بچے کو جنم دیتے وقت ماں زندہ نہیں رہ پاتی، پنڈت صاحب اپنے بیٹے کو منحوس ہونے کے طعنے دیتے ہیں کہ یہ منحوس ہے اور پیدا ہوتے ہی ماں نگل گیا۔
ماں کا نہ ہونا شبھ کے لیے “لگاؤ والا ٹروما” (Attachment Trauma) کا باعث بنتا ہے کیونکہ انسانوں کے بچے لگاؤ (attachment) کے بغیر نہیں رہ سکتے اور اسکا ٹروما آپ کو دنیا یا باقی انسانوں سے رشتے بنانے کی صلاحیت چھین لیتا ہے، لگاؤ کا اسٹائل (attachment style) ہمیں والدین سے ملتا ہے جو نہ صرف مستقبل میں بننے والے رشتوں بلکہ ہماری سوچ، زندگی اور شخصیت کے ہر پہلو پر اثر انداز ہوتا ہے۔
زبانی، جذباتی اور جسمانی تشدد (Physical, Verbal, Emotional Abuse):
اپنی توہم پرستی کی وجہ سے پنڈت صاحب صبح شام اپنے بیٹے کو منحوس اور شیطان صفت ہونے کے طعنے دیتے ہیں۔ والدین بچوں کے خدا ہوتے ہیں، بچہ انکی کہی ہر بات کو پتھر پر لکیر مانتا ہے، انسانی دماغ بنا ہی اس طرح سے ہے کہ یہ والدین کو کبھی غلط سمجھ ہی نہیں سکتا، وہ والدین کی غلطیوں کو اپنی غلطیاں سمجھ کر اپنی شخصیت کا حصہ بنا لیتا ہے کیونکہ ایسا نہ کرنے سے بچہ کی بقاء (survival) کو خطرہ ہوتا ہے (اگر والدین برے ہوگئے تو بچے کا خیال کون رکھے گا) اس لیے فطرت نے یہ نظام ہمارے دماغوں میں رکھا ہے۔
شبھ بہت ذہن ہوتا ہے اس کو چھوٹی سی عمر میں بھگود گیتا یاد ہوجاتی ہے ترجمہ اور تشریح کے ساتھ، اسے والد سے ذہانت اور منحوس ہونے کے طعنے اور مار بھی پڑتی ہے۔ چونکہ شبھ ذہین ہے اور پنڈت کا بیٹا بھی تبھی ہندو دیومالائی کہانیاں اس پر بہت مختلف طریقے سے اثر انداز ہوتی ہیں اور وہ ان کہانیوں میں اپنی زندگی کا مقصد تلاش کرنا شروع کردیتا ہے اور یہ انسان کی فطرت ہے کہ اسے زندہ رہنے کے لیے کوئی مقصد چاہیے۔ آپ کا ماحول آپ کو جو مواد فراہم کرتا ہے آپ اس میں اپنا مقصد تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں۔
شرمندگی اور تکبر (Shame & Pride):
کوئی بھی بچہ جب ٹروما سے گزرتا ہے تو اس کے اندر گہرا احساسِ شرمندگی جنم لیتا ہے، کیونکہ بچہ یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ غیر اہم، ناکارہ یا محبت کے قابل نہیں ہے تبھی والدین اسے پسند نہیں کرتے، یہ احساسات آپ کے لاشعور کی گہرائی میں ہوتے ہیں اور آپ کے عمل کے ذریعے آپ کی زندگی میں ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ اس شرمندگی کا ازالہ ادا کرنے کے لیے اس کے مترادف جذبہ “تکبر” کا جنم ہوتا ہے کچھ بچوں میں تاکہ وہ شرمندگی کے احساس کو کم کرسکیں، شبھ میں بھی تکبر جنم لیتا ہے، چونکہ شبھ بہت ذہین ہے اور اس نے فلسفہ ، انسانی نفسیات و فطرت اور مذہب کا گہرائی میں جائزہ لیا ہوتا ہے تبھی وہ خود کو کلیوگ (kalyug) (ہندو مذہب میں جدید دور کو کلیوگ کہا جاتا ہے) کا “خدا” ماننے لگتا ہے۔
اپنے تجربات اور نفسیات کو دوسروں پر ڈالنا (Projection):
دیومالائی کہانیوں میں وہ جس کردار کی جانب کشش محسوس کرتا ہے وہ “کلی” ہے جو کہ شیطان ہے، اور پھر وہ کلی کی طرح برائی، بربریت، لالچ، وغیرہ جیسی منفی خصوصیات کو شدید اونچائیوں تک لے جانے کی کوشش کرتا ہے اور وہ بھی ٹیکنالوجی کے ذریعے کیونکہ ماڈرن دنیا میں برائی، بربریت صرف ٹیکنالوجی سے ہی پھیلانا ممکن ہے۔ شبھ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ انسان اتنے اچھے ہوتے نہیں جتنا بننے کی کوشش کرتے ہیں، انسانوں کی اصلیت خود-غرضی، لالچ اور بربریت ہے۔ اگر دیکھا جائے تو شبھ اپنے بچپن کے تجربات کو پوری انسانیت پر پھینک (project) رہا ہوتا ہے، اپنے تجربات اور سوچ کو دوسروں پر پھینکنے کو سائیکالوجی میں پروجیکشن (projection) کہتے ہیں۔ ہم سب انسان لاشعوری طور پر ایک دوسرے کے ساتھ ایسا کرتے ہیں۔ لیکن ٹروما سے گزرنے والے بچوں میں اس کی شدت پائی جاتی ہے۔
حالانکہ شبھ خود بھی کہتا ہے کہ “عام آدمی کا محدود علم اسے اپنے سے آگے دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا”۔ لیکن شبھ خود بھی اپنے شیڈو (shadow) نہیں دیکھ پارہا ہوتا، شاید اس کے ٹروما کی وجہ سے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ کوئی مغرب کی طرح میکیاویلی (Machiavelli) والا فلسفہ نہیں ہے جس میں سب سیاہ اور سفید ہے، اس میں شبھ کے دلائل آپ کو سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ اس کے دلائل میں جو لطافت ہے وہ بہت گہرا اثر چھوڑ جاتی ہے۔ کچھ دلائل اور فلسفہ قابلِ تعریف اور بہت گہرا ہے۔ آپ مکمل طور پر انکار نہیں کرپاتے اس کے نظریے سے۔البتہ شبھ کی شدت اور دوسروں کو برا بننے پر مجبور کرنا اور پھر ان سے یہ کہنا کہ “تم سب ہی میری طرح شیطان صفت ہو لیکن بس قبول نہیں کرنا چاہتے”، یہ رویہ اسکے ماضی کے تجربات کی پروجیکشن ہے۔
کوئی نوجوان جو ایسی جگہ رہ رہا ہے (خواہ وہ اسکا گھر ہو یا ملک) جہاں غربت، اذیت، لاقانونیت، لالچ اور کرپشن کا راج ہے تو شبھ کا منفی فلسفہ اور اس کے کردار کا چارم اس پر بہت گہرا اثر چھوڑ سکتا ہے۔
میرا ذاتی تجزیہ:
ہم سب کے اندر منفی رجحانات پائے جاتے ہیں، کوئی بھی ان سے عاری نہیں، لالچ، بربریت، ہوس یہ سب ہر انسان کا سچ ہیں البتہ ان منفی رجحانات کو تسلیم کرنا اور اسے اپنی شخصیت میں ضم کرنا بہتر عمل ہوسکتا ہے نہ کہ اس میں ملوث ہونا، مثبت ہو یا منفی اگر شدت سے کسی ایک جانب رخ کریں گے تو یہ بات طے ہے کہ نقصان آپ کا مقدر ہوگا۔ یہی کارل یونگ (Carl Jung) کی بھی تھیوری ہے، اگر آپ کو خود-آگاہی (self-awareness) نہیں ہے تو آپ کے منفی رجحانات کب آپ پر مکمل قابو پاکر آپ کو تباہی کی جانب لے جائیں آپ کو معلوم بھی نہیں پڑے گا۔
ہمارا دماغ منفی باتوں کی جانب کشش محسوس کرتا ہے کیونکہ خطروں سے بنی اس دنیا میں اپنے بقاء کے لیے دماغ کو منفی عنصر کی جانب زیادہ توجہ دینی پڑی۔ لیکن یاد رکھیے کہ “اپنے ذہن کی فطرت کو مات دینا ہی اصل بہادری ہے”۔ آپ کا ذہن اگر نشہ کی لت کو پسند کرتا ہے کیونکہ اسے ڈوپامین (dopamine) پسند ہے، تو پھر کیا بہادری کا کام ہوگا؟ اس لت کو جاری رکھنا یا اسے ختم کرنا؟ اپنے ذہن کی سننا یا اس کے خلاف جانا؟؟
اس فلم سے میرا پسندیدہ جملہ جس سے مجھے بہت موٹیویشن ملی:
“آنسو، خون، درد، مایوسی— اس راہ پر چل کر عام آدمی بھی ناقابلِ شکست انسان بن سکتا ہے۔”
یہ جملہ سننے میں منفی ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو اس سے زیادہ مثبت اور موٹیویشنل جملہ کوئی نہیں!

Facebook Comments

ندا اسحاق
سائیکو تھیراپسٹ ،مصنفہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply