• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مہرگڑھ تہذیب و تمدن کے آثار اور ہنرمند سرمستانی قبیلہ۔۔عبید ابدال

مہرگڑھ تہذیب و تمدن کے آثار اور ہنرمند سرمستانی قبیلہ۔۔عبید ابدال

تہذ یب و تمدن کی مروجہ تعریف “شکاری دور سے نکل کر زراعت کی ابتدا کرنا، زرعی آلات بنانا، جنگلی جانوروں کو سدھانا، زندگی کو سہل کرنے کے لیے مختلف اوزار بنانا اور شہروں کا بسانا” ہے۔ بلوچستان کے علاقے مہرگڑھ کی ہزاروں سال پرانی تہذیب وتمدن میں حجری دور، تانبے کا زمانہ، کانسی کا زمانہ اور لوہے کا زمانہ بھی موجود ہیں۔

جدید مؤرخین ہسٹری کی بجائے ہسٹیریوگرافی (تاریخ کی تاریخ) اور آر کیا لوجی اور اینتھروپولوجی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے تاریخ کی کڑیوں کو ایک دوسرے سے جوڑتے ہیں۔ یہ بات کافی حوصلہ افزا ہے کہ وہ روایتی طور پر لکھی جانے والی تاریخ کو رد کرتے ہیں اور سائنسی علوم کی مدد سے لکھی جانے والی تاریخ پر مصر نظر آتے ہیں۔

اب جدید دنیا کاربن ڈیٹنگ اور دیگر سائنسی علوم کے ذریعے ہی تہذیبوں کی قدامت کو جانچتی ہے اور تہذیبوں کے آپس میں تعلقات اور تہذیبوں کی وسعت کو پرکھتی ہے۔ ہسٹیریو گرافی میں تاریخ کے سارے پہلوؤں کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ پیداواری طبقوں کا ذکر کیا جاتا ہے، اس وقت کے مروجہ حالات کو دیکھا جاتا ہے، طبقاتی نظام کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ تاریخ تلاشنے کے لیے صرف کھدائی کر کے آثارِ قدیمہ کی تلاش کی جائے بلکہ رسم و رواج کے مطالعے سے بھی ہسٹریوگرافی کافی سارے بھید کھول سکتی ہے۔ تاریخ میں اب صرف بادشاہوں کے سچے جھوٹے کارناموں کا ذکر نہیں ہوتا، عوامی علوم و فنون کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔

کچھ مؤرخین بلوچ قوم (جو اُس وقت کسی اور نام سے موسوم ہو سکتی ہے) کو مہرگڑھ کی تہذیب کا امین بتاتے ہیں۔ بلوچ مؤرخین مہرگڑھ کی تاریخ میں پتھروں سے بنائے جانے والے برتنوں، موم کے سانچوں میں دھاتوں کی ڈھلائی کر کے بنائے جانے والے زیورات اور مینول طور پر دانتوں کی ڈرلنگ اور جراحی کے اوزاروں پر ناز کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر آج کے دور میں بلوچ سماج میں پتھر کے اوزار جیسا کہ پتھر کی چکی بنانے والے، لوہے سے زرعی آلات بنانے والے، جنگی ہتھیار بنانے والے، اناج ذخیرہ کرنے کے لیے اسٹور ہاؤسز بنانے والے، زیورات بنانے والے، دھاتوں کے استعمال میں مہارت رکھنے والے، سرکش گھوڑوں کو سدھانے والے، مجسمہ سازی اور بنیادی جراحی کے ماہر سرمستانی قبیلہ کے افراد کی ہنرمندی سے ان کی تحریریں اکثر خالی نظر آتی ہیں۔ جو کہ دراصل مہرگڑھ کی تہذیب کی باقیات ہیں۔ اکثر ایسی نامکمل تواریخ لکھی گئی ہیں جس میں پیداوار پر فخر تو کیا جاتا ہے مگر پیداواری قوتوں کو کوئی پذیرائی نہیں ملی ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ مہرگڑ ھ میں تو یہ سب تہذیب کی علامت سمجھا جاتا تھا مگر جاگیردارانہ بلوچ سماج میں یہ ہنرمندی اب بھی معیوب کیوں سمجھی جاتی ہے۔

یہ بات ہرگز قابلِ فخر نہیں ہے کہ بلوچ سماج کے سرمستانی قبیلے کے ہنرمند اکیسویں صدی میں بھی پتھر کے دور کے اوزار بناتے ہیں۔ مگر اس کا فائدہ محض یہ ہے کہ ان آثار کے ذریعے بہت بڑی تاریخ کھلتی ہے۔ وگرنہ ترقی یافتہ معاشروں میں اب یہ چیزیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں اور آپ کو یہ صرف میوزیمز میں نظر آتی ہیں۔ اگر ان علوم و فنون کی سرپرستی ہوتی تو شاید آج ہم بھی جدید زندگی گزار رہے ہوتے۔

جدید سائنس، علمِ فلسفہ سے ترقی کر کے سائنس بنی ہے اور پھر جدید شعبہ ہائے سائنس میں تقسیم ہو کر سامنے آئی ہے۔ ہم اگر تاریخ کے مطالعے میں سائنس کے مضامین کو بھی شامل کریں تو ہمیں یہ سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ سائنس دان، انجینئر، موجد، ٹیکنیشن، مستری وغیرہ جیسی اصطلاحات بعد میں مخصوص ہوگئی ہیں۔ بنیادی سائنس اتفاقات، اتفاقی دریافتوں کے مشاہدے اور مسلسل تجربات کے بعد متشکل ہوئی ہے۔ جب تہذیب میں لفظ سائنس جدید مخصوص تعریف کا حامِل نہ تھا تو اس سے مراد صرف جاننا تھا۔ اور جب جدید سائنسی رویے موجود نہ تھے، ایجادات و دریافتیں تب بھی ہوتی تھیں۔

آج جب جدید سائنسی ترقی نے اسباب و وسائل سازی میں حسابی معاونت سے آسانیاں پیدا کی ہیں لیکن اس حسابی معاونت کا انداز زمانہ قدیم کے اُن موجدوں کے عصر میں بہ طرزِ دیگر موجود تھا۔ جِس کے اطلاق کے لیے انجینئر جیسے مخصوص ماہرین الگ نہ تھے بلکہ یہ سب بیک وقت ایک ہنرمند میں ہی جمع ہوتے تھے۔ لہٰذا یہ ایک حقیقت ہے کہ زمانہ قدیم کے اسباب ساز اپنے زمانے کے بنیادی سائنس دان ہی تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب دیکھنا یہ ہے کہ جدیدعلوم کی روشنی میں لکھی جانی والی بلوچ مؤرخین کی تواریخ (جس کے امکانات بہت کم ہیں) کس حد تک بلوچ تاریخ کی خالی جگہوں کو پُر کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں اور اپنے ہنرمندوں اور پیداواری قوتوں کی تاریخ پر کتنا ناز کرتی ہیں۔ جب ایسا ہوگا تو اس وقت “بلوچی موسیقی” پر سر دُھننے والے، “بلوچی پرچ” کو اپنی ثقافت کا حصہ بتانے والے اور “بلوچی تلوار” کو اپنا زیور کہنے والے ان تمام چیزوں کے موجدوں کی قدردانی بھی کریں گے۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply