• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گھر کی ملکہ یا زر خرید غلام-پشتون معاشرے میں عورت کا مقام/ہارون وزیر

گھر کی ملکہ یا زر خرید غلام-پشتون معاشرے میں عورت کا مقام/ہارون وزیر

پشتونوں کی مجموعی نفسیات کے مطابق دنیا کے باقی تمام مرد کسی نا  کسی کیٹیگری میں بے غیرت ہیں، کچھ زیادہ اور کچھ کم، لیکن ہیں سب بے غیرت۔ مردانہ غیرت سے ہم پشتونوں کی مراد یہ ہے کہ باقی دنیا کے مردوں کی عورتیں اکیلے بازاروں میں جاتی ہیں۔ دکانوں اور یوٹیلیٹی سٹورز سے سودا سلف لینے کیلئے لائنوں میں کھڑی ہوتی ہیں۔ سکول کالجز یونیورسٹیوں میں جاتی ہیں۔ بسوں میں دھکے کھاتی ہیں۔ پارکوں میں جاتی ہیں  اور حد تو یہ ہے کہ ہم پشتون کسی ورکنگ وومن پر ترس بھی کھاتے ہیں کہ دیکھو بیچاری کو روزی روٹی کیلئے جاب کرنی پڑ رہی ہے۔ جاب چاہے آفس کی ہو یا کسی مارکیٹ کے کیش کاؤنٹر کی،  بیچاری عورت کو ہوس بھری نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ آہ کتنے بے حس اور ظالم ہیں (ہم پشتونوں کی نظر میں) وہ لوگ جو اپنی عورتوں کو گھر کی چہاردیواری کے اندر نہیں پال سکتے اور انہیں یوں مزدوری کرنی پڑتی ہے۔

جبکہ ہم جو خود کو (بے جا طور پر) حقوق نسواں کے عالمی چیمپئن تصور کرتے ہیں، دلیل یہ دیتے ہیں کہ ہم خواتین کو ضرورت کی تمام اشیاء گھر پر ہی مہیا کرتے ہیں اس لئے بازار جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ کچھ عرصہ پہلے اسی مائنڈ سیٹ کے تحت پختونخوا کے ایک بازار کے مرد دکانداروں کی  یونین نے عورتوں کے بازار میں گھومنے یا سودا سلف خریدنے پر اعلانیہ پابندی بھی لگا رکھی تھی۔۔ ۔ اور یہ کہ جب کفالت اور تمام اشیاء ضرور یہ کی ذمہ داری پشتون مرد پوری کر رہا ہے تو عورت کو جاب کی کیا ضرورت۔ ؟اور جب جاب کی ضرورت ہی نہیں تو تعلیم دلوانے کیلئے سکول کالجز اور یونیورسٹیز کے حیاء سوز ماحول میں کیوں بہنوں بیٹیوں کو بھیجیں؟ ہم خواتین کی عزت کی حفاظت جان پر کھیل کر کرتے ہیں اور یہ کہ پشتون معاشرے میں پردے کی مثالیں دیگر اقوام کے لوگ بھی بڑے جوش و خروش سے دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ

بظاہر تو مندرجہ بالا باتیں بڑی ٹھیک لگتی ہیں۔ میرے خود کے خیالات بھی کچھ عرصہ پہلے تک ایسے ہی تھے لیکن پھر میں نے دیکھا کہ دنیا کے غیرت مند ترین پٹھان کی غیرت اس وقت گھاس چرنے چلی گئی جب بے نظیر اِنکم سپورٹ کے دو ہزار اور پھر عمران خان کے احساس پروگرام کے بارہ ہزار روپوں کیلئے اپنی با پردہ خواتین کو پرائے مردوں کے پاس بھیجنے لگا، وہ مرد جو ان کی نظر میں جنسی بھیڑیا ہے۔ وہ پرایا مرد ان کی خواتین کے ہاتھ پکڑ کر انگوٹھے بھی لگاتا ہے اور وہی پرایا مرد ان خواتین پر کسی معمولی غلطی کے باعث چیختا چلاتا بھی ہے جس کی عزت کی حفاظت کی خاطر پشتون مرد جان پر کھیلنے کا دعویدار ہے۔ پشتون مرد اتنا غیرت مند ہے کہ پہلے اپنی خواتین کا  با تصویر شناختی کارڈ تک نہیں بنواتا تھا لیکن آج دو ہزار روپے کیلئے باقاعدہ طور پر نادرا سنٹر میں کسی جاننے والے   کا منت ترلہ   کرکے اپنی خواتین کیلئےشناختی کارڈ بنوانے کا انتظام کرتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ میں ہر گز ہر گز بے نظیر اِنکم سپورٹ یا احساس فنڈ کے پیسے لینے کی مخالفت نہیں کر رہا۔ یہ تمام خواتین علاقائی مزاج اور روایات کے مطابق یعنی جہاں پردے کا عمومی رواج ہے اس کے مطابق باقاعدہ پردے میں جاتی ہیں اس لئے اس میں کوئی قباحت نہیں۔ مجھے اس سلیکٹیو غیرت پر اعتراض ہےجو بنوں فیملی پارک پر تو جاگتا ہے لیکن اِنکم سپورٹ کے دو ہزار روپوں پر سو جاتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے بنوں میں ایک فیملی پارک بنا تھا اس پر تقریباً ایک مہینہ تک سوشل میڈیا سے لے کر مساجد تک ایک کھپ پڑی رہی  کہ خواتین کے فیملی پارک میں جانے سے بے حیائی اور فحاشی پھیلے گی۔ فحاشی کیسے پھیلے گی ؟۔۔وہ ایسے کہ پارک کے گیٹ کے سامنے بد قماش نوجوان کھڑے ہوتے ہیں جو پارک میں آتی جاتی خواتین کو تاڑتے ہیں اور چنگ چی والے خواتین کو ڈراپ کرتے وقت گیٹ کے قریب تک جاتے ہیں جہاں اندیشہ ہے کہ اس کی نظر پارک کے اندر خواتین پر پڑ سکتی ہے۔ بات یہ ہے کہ اِنکم سپورٹ فنڈ کے دو ہزار روپے لینے کیلئے خواتین عینک والا جن ڈرامہ کے اڑنے والی قالین پر بیٹھ کر تو نہیں آتیں۔ انہی چنگ چی میں بیٹھ کر آتی ہیں تو وہاں کیوں یہ مسئلہ نہیں؟ ٹاؤن شپ میں گرلز کالج ہے جہاں سینکڑوں یا شاید ہزاروں لڑکیاں پڑھنے جاتی ہیں وہاں بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ نہایت بہترین ماحول ہے۔ بچیاں گاڑیوں میں، چنگ چی میں آتی ہیں اور خاموشی سے کالج کے اندر چلی جاتی ہیں۔ کوئی وہاں پر گیٹ کے سامنے کھڑے ہو کر کسی کو نہیں تاڑتا۔ روڈ پر جہاں یہ کالج ہے وہاں سے روزانہ دسیوں ہزار لوگوں کا گاڑیوں میں گزر ہوتا ہے لیکن آج تک تاڑنے والا کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔ تو پھر فیملی پارک سے پرابلم کیوں؟

اگر کوئی مسئلہ تھا پارک میں یعنی کہ پک اینڈ ڈراپ کے مقام کا یا گیٹ کے سامنے غیر ضروری طور پر لوگوں کےکھڑے ہونے کا یا پارک کی  انتظامیہ میں مردوں کی موجودگی ، تو اسے حل کرتے ،نا  کہ پارک کو ہی فحاشی کا اڈہ قرار دیتے۔

اور یہ جو ایک متھ بنی ہوئی ہے کہ مسٹر پٹھانڑ عورت کی عزت کی خاطر مر بھی سکتا ہے اور مار بھی سکتا ہے۔ یہ ایسا جھوٹ ہے جس کا مسٹر پٹھانڑ خود بھی شکار ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہ مرنا اور مارنا شاید وہ عورت کی عزت کی خاطر کرتا ہے۔ نہیں جناب۔۔ ۔ یہ مرنا مارنا وہ عورت کی عزت کی خاطر نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی عزت کی خاطر کرتا ہے ۔ کیونکہ اس طرح کے واقعے سے  معاشرے میں مرد کی عزت پر حرف آتا ہےاس لئے اپنی عزت کی خاطر مرنے مارنے پر اتر آتا ہے۔ اسکی مثال یوں ہے کہ آپ نے سنا ہوگا کہ افغانستان میں ایک کتے کے قتل پر چونتیس افراد قتل ہو گئے ۔کیا کتا اتنا قیمتی جانور ہے کہ اس کی خاطر چونتیس افراد قتل ہو گئے۔ نہیں بالکل نہیں، بلکہ دراصل اس کتے کا قتل اس کے مالک کی انا پر وار تھا۔ جو مالک کیلئے ناقابل برداشت تھا لہذا مالک نے اپنی انا کی توہین کا بدلہ لینے کیلئے کتے کے بدلے میں مخالف کے بندے کو مار دیا۔ پھر یہ دشمنی چلتی رہی اور چونتیس بندے لقمہ اجل بن گئے۔

پشتون عورت جب دشمنی میں قتل ہوتی ہے تو رائج جرگہ قوانین کی رو سے آپ اس کے بدلے میں مرد کو قتل نہیں کر سکتے۔ عورت کی جان کی قیمت مرد کے مقابلے میں آدھی ہے۔ عورت کے قتل کے سلسلے میں عموماً صلح ہو جاتی ہے اور بدلے سے گریز کیا جاتا ہے لیکن اگر کسی نے عورت کے قتل کے بدلے میں مرد کو قتل کر دیا تو اس نے حق سے تجاوز کیا۔ عورت کے قتل پر دیت کی  رقم مرد کے قتل کے مقابلے میں آدھی ہوتی ہے۔

یہ ہے پشتون معاشرے میں عورت کا وہ مقام جو مسٹر پٹھان پوری دنیا کو باور کراتا ہے کہ ہم عورتوں کو گھر کی ملکہ بنا کر رکھتے ہیں۔
چار دیواری کے اندر۔۔
پشتون مرد کہتا ہے کہ ہم اپنی خواتین کو گھر کی ملکہ بنا کر رکھتے ہیں اور چار دیواری کے اندر تمام حقوق فراہم کرتے ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ ؟

نہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ گھر کے اندر پشتون عورت کو کھونٹے سے بندھی دودھ دینے والی بکری اور گائے جتنے حقوق شاید ہی حاصل ہوتے ہیں۔ جب گائے حمل کے ساتویں مہینے پر پہنچتی ہے تو اس کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے بنسبت اسی دورانیے کی حاملہ عورت کے۔ گائے کو ڈیلیوری میں آسانی پہنچانے کیلئے پہلے سے دوائیوں اور ٹوٹکوں کا انتظام کیا جاتا ہے لیکن عورت کو یہ سہولت دستیاب نہیں۔ حاملہ عورت کو اس وقت ہسپتال لے جایا جاتا ہے جب انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ ڈیلیوری آسان نہیں ہوگی۔ اور آج کل تو زچگی کے مسائل اور بھی پیچیدہ ہو چکے ہیں اس لئے مجبوری میں آخری وقت پر لیجانا پڑ جاتا ہے۔ مجبوراً اس لئے کہ اگر عورت مر جائے تو کون دوبارہ لاکھوں روپے خرچ کرکے ایک اور بیوی کا انتظام کرے۔ ورنہ تو اگر ان کے بس میں ہوتا تو یہ تین ، چار ہزار روپے بھی بچانے کی کوشش کرتے۔

پشتون بیوی بیاہ کر نہیں لاتے بلکہ شادی کے نام پہ فری آف کاسٹ کام کاج کیلئے غلام گھر لے کر آتے ہیں۔ جس طرح زر خرید غلام کی کوئی مرضی نہیں ہوتی، کوئی حقوق نہیں ہوتے اسی طرح پشتون بیوی کی کوئی مرضی اور کوئی حقوق نہیں ہوتے۔ گھریلو عورتیں ساری دنیا میں گھر کے کام کرتی ہیں لیکن ان کی خوراک، پوشاک اور اوڑھنے بچھونے میں تو فرق نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں ہوتا ہے۔ گھر میں پکے کھانے کا بہترین حصہ افضل مرد کے لئے مختص ہوتا ہے۔ حتی کہ چائے بھی افضل حضرات کیلئے اعلیٰ  قسم کی اور ناقص العقل مخلوق کیلئے بیکار قسم کی۔ ہمارے مشٹنڈے حضرات کا جب کبھی اچھا کھانے کا دل کرے تو دوست مل کر کافی سارا گوشت لے کر آتے ہیں اور گھر سے دور کہیں چشمے کے کنارے یا دوسرے کسی پُر فضا مقام پر جا کر پکاتے ہیں اور اپنے پیٹ کا جہنم بجھا دیتے ہیں۔ یا پھر کسی ریسٹورنٹ جا کر من مرضی کا کھانا تناول فرما لیتے۔ جبکہ ناقص مخلوق کے نصیب میں ساری عمر گھر کی روکھی سوکھی لکھی ہوتی ہے۔ افضل حضرات میں اتنا انصاف نہیں ہوتا کہ جو خرچہ تم گھر سے دور جا کر کرتے ہو یا کسی ریسٹورنٹ میں جا کر کرتے ہو وہی خرچہ گھر میں کیوں نہیں کرتے سب کھا لیں گے ضمیر بھی مطمئن ہوگا اور انصاف کے تقاضے بھی پورے ہو جائیں گے۔ گھر کے اندر ہفتہ دس دن میں اگر کبھی اچھا کھانا بنتا ہے تو عورت (ماں) کو اس میں بھی جتنا کچھ حصہ ملتا ہے اس میں سے آدھا اپنی اولاد کو دے دیتی ہیں اور خود محروم رہ جاتی ہے۔

افضل حضرات تین، چار یا پانچ ہزار کے جوتے پہنتا ہے جبکہ عورت کیلئے دو تین سو کی پلاسٹک کی چپل لے کر آتا ہے سردیوں میں بھی ترجیحاً پلاسٹک کے بوٹ جو چار پانچ سو میں ملتے ہیں وہ لے کر آتے ہیں کہ انہوں نے تو ویسے بھی گھر کے اندر رہنا ہے پھر کیا کرنا ہے اچھے جوتے یا اچھے بوٹ لے کر۔

جوتوں سے ایک بات یاد آئی۔ ایک بندہ مجھے بتا رہا تھا (اپنی طرف سے مزاحیہ بات کر رہا تھا لیکن حقیقت میں افسوسناک بات تھی)۔ کہہ رہا تھا کہ ایک بار میں اپنی بیوی کیلئے نئی رضائی لے کر آ گیا جب صبح ہوئی تو رضائی کی آدھی روئی بیوی کی کھردری ایڑیوں کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی۔ بیویوں کی جانب اس طرح کی عدم توجہی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شادی کے ایک سال بعد شین خالئی گلالئی بیوی شوہر کو پھپھی موافق نظر آنے لگتی ہے۔ پھر یہ غیرت مند پٹھانڑ شوہر انہی بے پردہ خواتین کی طرف دیکھ کر آہیں بھرنے لگتے ہیں جو ان کی نظر میں عیب دار ہیں۔ یا پھر لونڈے بازی شروع کر دیتا ہے۔ بھئی تھوڑی سی توجہ اپنی منکوحہ پر دو تو وہ پری شان رہے ساری عمر۔ لیکن نہیں وہ تو تمہارے نزدیک چوپائے  جیسی ہے۔

ایک آدمی کے گھر میں تیس چالیس لاکھ کی کرولا گاڑی کھڑی ہوگی لیکن اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ گھر کے کچن میں پانی کا کنکشن لگا دے، سینک لگا دے یا گیس سلنڈر بھر کے لا دیں۔ ان سہولیات پر اسے پیسے خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے اسے تو غنیمت میں ایک باندی ملی ہے جس کے کوئی حقوق نہیں۔ وہ جبراً کرے گی یہ سارے کام اور اُف بھی نہیں کرے گی۔ گھر کے اندر مرد حضرات اپنا سارا بوجھ عورتوں پر ڈال دیتے ہیں۔ سامنے پانی کا کولر پڑا ہوگا لیکن خود اٹھ کر گلاس بھر کر پانی نہیں پیے  گا بلکہ گھر کے دوسرے کونے میں استری کرتے، جھاڑو لگاتی یا کھانا پکاتی ہوئی عورت کو آواز دے گا کہ ایک گلاس پانی دے دو۔ گرمیوں کے دنوں میں دوپہر کو افضل حضرات بازار میں آوارہ گردی کرکے واپس گھر آئے تو میٹھی نیند سوئی ہوئی بیوی، بہن کو جگائے گا کہ کھانا لا کر دو۔ بھئی تمہارے ہاتھ تو نہیں ٹوٹے خود کچن جاؤ اور کھانا کھا آؤ۔

ٹھیک ہے کہ خاندان میں شوہر باہر مزدوری کرکے روزی روٹی کما کر گھر لاتا ہے اور بیوی گھر کے کام کرتی ہے گاڑی کے دو پہیوں کی مانند خاندان اسی طرح چلتا ہے لیکن ایک بھائی یا دیور جو ٹکے کا کام نہیں کرتا وہ بھی گھر میں بہن اور بھابھی سے اپنی خدمت گزاری کرواتا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اسے کسی نامعلوم قانون کے مطابق بہن، بھابھی پر فضیلت حاصل ہے۔ گھر کے اندر پہنچ کر چنگے بھلے مرد کے ہاتھ پاؤں کچھ اس طرح سے شل ہو جاتے ہیں کہ جائے نماز تک خود سے نہیں بچھاتے بلکہ افضل حضرات کیلئے جائے نماز بچھانا اور سمیٹنا بھی عورت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ کیا مرد کوئی آسمان سے اتری مخلوق ہے یا عورت کوئی زر خرید غلام/باندی؟

پشتون عورت دوسرے، تیسرے یا پھر شاید سب سے   نچلے درجے کی انسان ہوتی ہے۔ یہ جو تیس مار خان کہتے ہیں کہ ہم عورتوں کو برابر کے حقوق دیتے ہیں ان سے پوچھیں کہ باقی نا انصافیاں تو ایک طرف کیا کوئی پشتون بیوی چارپائی پر شوہر کے برابر بیٹھ سکتی ہے؟ ہمارے تو بس اڈوں تک میں عورتوں کیلئے کرسیاں نہیں ہوتیں بلکہ انہیں ننگے فرش پر بٹھایا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

پشتون عورت پیدائش سے لے کر موت تک محرومی، نا انصافی اور عدم توجہی کا شکار رہتی ہیں جبکہ دعوے ہمارے اتنے بڑے ہیں کہ پنجاب، کراچی، اسلام آباد یا نیویارک کی کسی ورکنگ وومن پر ہمیں ترس آتا ہے کہ دیکھو بیچاریوں کو خود کما کر کھانا پڑ رہا ہے۔ تیس مار خانوں! تمہیں پتہ ہی نہیں کہ اسلام آباد کراچی یا نیویارک کی پالتو بلیوں کو بھی تمہاری عورتوں سے زیادہ حقوق اور زیادہ سہولیات حاصل ہوتی ہیں۔ کیا بات کرتے ہو مڑا۔ ذرا اس کنویں سے نکل کر دیکھو تو تمہیں پتہ چلے۔
نوٹ: یہ جو میں نے پشتون عورت کی مفلوک الحالی کا نقشہ کھینچا ہے یہ بطور خاص ہمارے جنوبی اضلاع یعنی بنوں، تقریباً تمام قبائلی علاقہ جات، لکی مروت تا بلوچستان کے پشتون بیلٹ کا نقشہ ہے۔ ہمارے وسطی اور شمالی اضلاع کی پشتون عورت کی حالت نسبتاً بہتر ہے لیکن مثالی وہ بھی نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply