احمد بشیر کے نام/سعید ابراہیم

دو روز پہلے  میری انسپائریشن، میرے استاد، میرے محبوب پیارے احمد بشیر کے سوویں جنم دن کا پروگرام تھا، جہاں میں نے ایک مختصر سی تحریر پڑھی۔ دوستوں کے ساتھ اس لیے شیئر کر رہا ہوں جو احباب ان کی شخصیت کو زیادہ نہیں جانتے وہ بھی ان کی ذات کے کچھ اہم پہلوؤں سے واقف ہوجائیں۔سعید
احمد بشیر اکیاسی برس کا تھا جب وہ بھرپور جوانی کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اگر آپ مرتے دم تک جوان بلکہ نوجوان رہنا چاہتے ہیں تو احمد بشیر کو ضرور پڑھیں جو اپنی اور مفتی کی تحریروں میں جگہ جگہ بکھرا پڑا ہے۔

میری یہ خوش نصیبی ہے کہ میں احمدبشیر کا کم و بیش عاشق ہوں، مگر اس بات کا پچھتاوہ بھی کبھی کبھی ڈنک مارتا ہے کہ ان سے تعارف بہت دیر سے ہوا۔
ان کی تحریروں تک رسائی سے پہلے بس اتنا معلوم تھا کہ وہ بشریٰ انصاری اور نیلم کے ابّا ہیں۔ میں ہر برس نومبر میں ایک ملنگ سے بندے کو کاندھے پر گرم چادر دھرے آل پاکستان میوزک کے پروگرام میں آتے دیکھتا۔ مجھے بالکل معلوم نہیں تھا کہ یہ بندہ  حقیقت میں کیا ہے۔

احمد بشیر کی تخلیقی ، علمی اور تیز نشتر جیسی شخصیت سے آگاہی ماہنامہ نیا زمانہ کے ذریعے ہوئی، جس کا وہ  وہ اٹوٹ انگ تھے۔ نیا زمانہ میں چھپنے والے احمد بشیر نے پہلے مجھے چونکایا، حیران کیا اور پھر جپھی ڈال لی۔ اپنے مضامین میں وہ تلوار جیسے کاٹ دار جملے لکھتا اور کشتوں کے پشتے لگاتا چلا جاتا۔

احمد بشیر سے پہلے ادیبوں میں میرے صرف دو محبوب تھے۔ ایک منٹو اور دوسری امرتا پریتم۔ بغاوت اور لٹھ مار سچائی دونوں کی تحریروں میں مشترک تھی جو مجھے بہت کشش کرتی تھی۔ احمد بشیر نے اسے ٹرائی اینگل میں بدل دیا۔

نیا زمانہ کے زمانے میں ہی ان کی کتاب ’جو ملے تھے راستے میں‘ پڑھی اور اس کے بعد ان کا ناول ’دل بھٹکے گا‘، جسے پڑھ کر واقعی دل بھٹکنے پر مائل ہوجاتا ہے۔اور یوں انکے ساتھ عشق کی دُھونی دہکتی ہوئی آگ میں بدلتی چلی گئی۔

ان سے پہلی ملاقات نیا زمانہ کے ایڈیٹر شعیب عادل کی وساطت سے ان کی کسی بیٹی کے گھر گلبرگ میں ہوئی۔ وہ مجھے غائبانہ طور پر جانتے تھے کہ میری تحریریں بھی ان کے ساتھ شائع ہوتی تھیں۔ دو اڑھائی گھنٹے کی اس ملاقات میں انھوں نے یادوں کی پٹاری سے ایسے ایسے پھنکارتے سانپ نکالے جنہیں دیکھنے کیلئےبڑے دل گُردے کی ضرورت تھی۔

عمر کے فرق کے باوجود علامہ مشرقی سے کافی بے تکلفی تھی۔ کہنے لگے کہ جب مجھے باہر جانےکیلئے سکالرشپ ملاتو میں یہ  خوشخبری سنانے مشرقی صاحب کے گھر گیا،وہاں  انہوں نے ایک حیران کُن نصیحت کی۔ کہنے لگے کہ بیرونِ ملک جاکر ایک بات یاد رکھنا کہ محمد ہیں مگر خدا نہیں ہے۔
اسی طرح ایک اور واقعہ یہ سنایا کہ بدنامِ زمانہ کتاب ’رنگیلا رسول‘ کا مسودہ امرتسر کے ایک معروف مولوی نے لکھ کر راجپال کو دیا تھا، جس کا اس نے ستائیس روپے معاوضہ وصول کیا تھا۔
ان کے ناول ’دل بھٹکے گا‘ کا ذکر ہوا تو ایک دلچسپ واقعہ یوں سنایا۔کہنے لگے کہ مجھے فیروز سنز والوں نے مسودے کی ایڈٹ شدہ ورژن دیکھنے کے لیے بلایا، مودی بھی میرے ساتھ تھی۔ متعلقہ شعبے کی خاتون افسر پوچھنے لگیں کہ کیا اس ناول میں بیان کردہ واقعات سچے ہیں۔ کہنے لگے میں نے کہا نہیں نہیں یہ سب گھڑے ہوئے قصے ہیں۔ مگر صاف لگا کہ اسے میری بات کا یقین نہیں آیا۔ کچھ دیر بعد اس سے کاریڈور میں سامنا ہوا تو میں نے کہا کہ اس ناول کے سبھی واقعات بالکل سچ ہیں۔ اس نے حیرت سے پوچھا، مگر آپ نے تو کچھ دیر پہلے کہا کہ یہ سب فکشن ہے۔ میں کہیا بی بی تینوں نئیں پتہ اوتھے میری بیگم وی سی۔

نیازمانہ میں مَیں نے 2001سے 2011تک لکھا اور لاشعوری طور پر میری تحریروں پر احمدبشیر کے اسلوب اور شدت کا رنگ چڑھتا چلا گیا۔ وہ نفرت کے اظہار میں اتنا  بلنٹ اور تیکھا تھا کہ اپنے مضامین میں ضیاالحق کا نام جب بھی لکھا، موذی ضیاالحق لکھا۔

احمد بشیر کی منافقت سے کھلی دشمنی تھی۔ وہ شہاب گروپ کا رکن ہونے کے باوجود اس سے ایسے ہی الگ رہا جیسے پانی کی سطح پر تیرتا ہوا تیل۔ شہاب گروپ کی مخمس کے تین اور اہم ارکان تھے۔ اشفاق احمد، بانو قدسیہ اور ممتاز مفتی۔یاری کی بات کریں تو وہ صرف مفتی سے تھی۔ باقی تینوں کرداروں سے قربت کے باجود وہ ہمیشہ ایک فاصلے پر رہا۔ ایک بار آواری میں مہا اوکھا مفتی پر ایک پروگرام تھا، جس کی صدارت اشفاق صاحب کر رہے تھے۔ احمد بشیر کی تقریر کی باری آئی تو اسکے ایک جملے نے اشفاق صاحب کی ساری دانشوری کو داؤ پر لگا دیا۔ جملہ کچھ یوں تھا کہ
پتہ نئیں ایہہ اشفاق صوفی تے مُلا دی صلاح کیویں کروا دیندا اے۔ اس کے بعد جب اشفاق صاحب صدارتی خطبہ دینے آئے تو بیس پچیس منٹ تک ایسی وضاحتیں کرتے رہے جن کا احمد بشیر کے سوال سے کوئی تعلق نہیں بن پایا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس روز قصہ گو کو پہلی بار انتہائی بے بس دیکھا اور مجھے ترس آنے کی بجائے ایک کمینی سی خوشی محسوس ہوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

احمد بشیر ایسا ہی تھا۔ وہ بات دل میں رکھنے کی بجائے منہ پر دے مارتا تھا، مگر بہت ہنر کے ساتھ۔ اس بنجر وقت میں ہمیں اس کی بہت ضرورت تھی، مگر وہ اکیاسی برس کی عمر میں بھرپور جوانی کے عالم میں چادر کاندھے پر ڈال کر نہیں معلوم کدھر چلا گیا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply