تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔۔عامر عثمان عادل

دو صحافیوں کی کہانی
ایک اپنے فرض پہ قربان ہوا
دوسرا مشکوک کرداروں کے ہاتھوں غازی
وسیم بیگ 92 نیوز چینل کا سرائے عالمگیر سے نمائندہ
جس کا جرم کیا تھا ؟
بھتہ خوروں اور قبضہ مافیا کے خلاف آواز بلند کرنا
سزا کیا ملی؟
اس کا جرم انتہائی  سنگین تھا، اسے جرات کیسے ہوئی زمینی خداؤں کو بے نقاب کرنے کی۔۔؟
بیلے میں عدالت لگی اور اسے سزائے موت کا پروانہ جاری کر دیا گیا۔اس کے گھر کی دہلیز پر سرِ  شام گولیوں سے بھون دیا گیا۔
ننگے پاؤں اس کی بیوی آس پاس کے گھروں کے دروازے کھٹکھٹاتی پھری دہائیاں دیتی رہی کسی نے دروازہ نہ کھولا ،کم سن بیٹے نے گاڑی نکالی ،ماں کی مدد سے جاں بلب باپ کو گاڑی میں ڈالا اور سرائے عالمگیر کا رخ کیا۔زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے یہ صحافت پہ قربان ہو گیا۔

اب آئیے دوسرے کردار کی جانب
ایک یو ٹیوبر اسد طور جس کا نام ہی اکثر پاکستانیوں نے پہلی بار سنا۔۔جس کی شہرت پاک فوج اور اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی ، دشنام طرازی اور بازاری زبان کا استعمال تھا،کسی نے اس کو تشدد کا نشانہ بنایا۔بنِا کسی تصدیق یا تحقیق کے اس نے آئی  ایس آئی  پہ الزام دھر دیا۔پھر اس قبیل کے صحافی کپڑے پھاڑ کر سروں کو خاک آلود کئے بال نوچتے احتجاج کو نکل آئے۔
پوری دنیا میں یہ سوال اٹھنے لگے کہ پاکستان میں صحافیوں کی جان کو خطرہ ہے۔اور پھر چشم فلک نے ایک اور منظر دیکھا
جی  ہاں تمام اپوزیشن جماعتوں کے بھاری بھرکم رہنما اظہار یک جہتی کی خاطر اس نام نہاد صحافی کے گھر جا پہنچے۔اور تو اور قاضی وقت بھی اپنی اہلیہ کے ہمراہ اس کے زخموں پہ مرہم رکھنے چلے آئے

آؤ میرے ہم وطنو !
ایک لمحے کو تمام سیاسی وابستگیاں ، پارٹی ہمدردیاں مصلحتیں بالائے طاق رکھتے ہوئے ان رہنماؤں سے سوال کریں
اے انسانی حقوق کے ٹھیکیدارو
کیا سرائے عالمگیر کے وسیم بیگ کا خون ،خونِ ناحق نہیں تھا؟
کیا وہ صحافی نہیں تھا ؟
کیا اس نے اپنے علاقے کے فرعونوں کو نہیں للکارا تھا
کیا اس کے بچے یتیم نہیں ہوئے؟ اس کی بیوی کے سر سے آنچل نہیں  چِھن گیا ؟

آپ کا دل ایک یو ٹیوبر کے مشکوک زخموں پہ تو پسیج پسیج گیا
مگر آپ کو وسیم بیگ کا گولیوں سے چھلنی لاشہ، لاشے پہ ماتم کرتی اس کی بیوی بہنیں اپنے بابا سے لپٹ کر بین کرتے بچے دکھائی  نہ دیے۔۔

ایک وسیم بیگ ہی نہیں نجانے کتنے ورکنگ جرنلسٹ ایسے ہیں جو اپنے اپنے علاقوں میں طاقتوروں کے ہاتھوں جان کی بازی  ہار گئے لیکن کبھی آپ کو توفیق ہوئی  کہ باجماعت یوں پرسہ دینے ان کے گھر بھی گئے ہوں؟

چلیں ہم اپنے وسیم بیگ اور دیگر صحافیوں کی بات ہی نہیں کرتے،آپ کے حلقوں میں ایسی کئی کہانیاں ہوں گی۔۔لیکن فرق ہم جان چکے ہیں
وسیم بیگ جیسے صحافی قلم کی آبرو پہ جان دیتے ہیں اپنے فرض پہ قربان ہو جاتے ہیں ان کے گھر چل کر آنے سے آپ کو سیاسی مفاد حاصل نہیں ہوتا
جبکہ اسد طور ہو یا ابصار عالم ان کو کانٹا بھی چبھے تو آپ ننگے پاؤں دوڑے چلے آتے ہیں
کیوں ؟
اس لئے کہ وہ ایک ایجنڈے کے تحت ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف بات کرتے  ہیں تو آپ کو بھی ان پر پیار آتا ہے اور ان کے گھر چل کر آنے سے آپ اپنی دانست میں اداروں کو نیچا دکھانے چلے آتے ہیں۔

چلیں ہم گجرات والے آپ کو چیلنج کرتے ہیں۔۔قرار واقعی اگر آپ کو آزادی صحافت سے پیار ہے آپ کے دل میں اپنے فرائض کی انجام دہی کی خاطر ظلم کا نشانہ بننے والے صحافیوں سے ہمدردی ہے تو آئیے اسی طرح وفد کی صورت ہمارے وسیم بیگ کے گھر بھی تشریف لے آئیں اس کے یتیم بچوں کے سر پہ دست شفقت رکھیں ،بیوہ کو دلاسہ دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

صحافیان گجرات
یہ تو خیر مرکزی رہنما ہیں
شاید میں بھول رہا ہوں
یاد دلانا وسیم بیگ کی شہادت پر گجرات کا کون کون سا عوامی نمائندہ یا سیاستدان آپ کے ساتھ کھڑا ہوا ؟

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply