انعام رانا کی ادارت میں ایک ہمہ وقت سرگرم ٹیم کے ساتھ مکالمہ نے تین سال مکمل کر لیے ہیں اور یہ تین سال خود اس بات کی شہادت ہیں کہ مکالمہ جس ڈھب کی صحافت اردو قارئین کے سامنے لانا چاہتا تھا اس میں کامیاب ہے۔میرے چند ایک مضامین مکالمہ میں شائع ہوئے ہیں اور میں گاہے بہ گاہے مکالمہ میں شائع ہونے والے مضامین پڑھتا رہتا ہوں۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ سیاست، ادب، مذہب، برصغیر، یورپ، کشمیر اور دوسرے موضوعات پر مکالمہ میں کافی سنجیدہ مضامین شائع ہوتے ہیں۔ان برسوں میں مکالمہ کے قارئین اور لکھنے والوں کا حلقہ بھی وسیع ہو ا ہے اور موضوعات میں تنوع پید ا ہوا ہے۔ مکالمہ کا منشور تھا کہ عہد ِالزام تراشی،بازارِ بغض و نفرت اور مسلکی و فرقہ بندی کے پیدا کردہ فاصلوں کے ماحول میں ایک دوسرے کو سننے اور سمجھنے پرزور دیا جائے۔باہمی فاصلوں اور عداوتوں کو کم کرنے کے لیے اختلاف ِرائے کا پاس رکھتے ہوئے علمی اور سنجیدہ مکالمہ قائم کیا جائے۔گزشتہ تین برسوں کی متواتر کاوشوں میں یہ صاف دکھائی دینے لگا ہے کہ مکالمہ نے مذکورہ اہداف ایک طرح سے حاصل کرلیے ہیں اور یہی جدوجہد اس کی کامیابی کی کلید ہے۔
مکالمہ میں جہاں سابق پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف، پاکستانی فوج سربراہان، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی پالیسی پر تنقیدی مضامین شائع ہوئے ہیں، یا مضامین میں اظہار خیال ہوا ہے تو دوسری طرف بظاہر مولانا سمیع الحق کو خراج عقیدت پیش کرنے والا تبصرہ یا عافیہ صدیقی کی گرفتاری اور قید پر مدلل مضمون بھی دستیاب ہے۔ یہ اظہار رائے کی آزادی اور اختلاف رائے کا خوب صور ت منظرہے اور ایسے بے شمار مناظر مکالمہ کی بساط پر بکھرے ہوئے ہیں۔ مکالمہ اپنا سفر جاری رکھے،رفتہ رفتہ اس کا دامن علمی مضامین سے بھر جائے گا۔ نیک خواہشات۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں