2023 ء کا نوبل انعام برائے ادب/پروفیسر عامرزریں

ادب کا نوبل انعام برائے 2023 ء ناروے کے مصنف جون فوس کو اس کی اختراعی و عصری تخلیقات کے لیے دیا جائے گا۔سویڈش اکیڈمی نے رواں ماہ اس عالمی اعزاز کا اعلان کیا کہ 2023ء کا ادب کا نوبل انعام ناروے کے جان فوس کو دیا جائے گا۔فوس کے ڈراموں کو عصری عالمی سطح پر کافی مقبولیت حاصل ہے۔ سویڈش اکیڈمی کے مطابق، ‘‘ فوس اپنے جدید ڈراموں اور نثر کے لیے شہرت کے حامل ادیب ہیں ۔ ’’

Advertisements
julia rana solicitors

نوبل انعامات ، پانچ الگ الگ انعامات ہیں جو الفریڈ نوبل کی 1895 ء کی وصیت کے مطابق ”ان لوگوں کو دیے جاتے ہیں جنہوں نے پچھلے سال کے دوران، انسانیت کی بہبود اور بہتری کے لئے امتیازی کارہائے نمایاں سر انجام دیا ہو۔” الفریڈ نوبل ایک سویڈش کیمیا دان، انجینئر اور صنعت کار تھا جو ڈائنامائٹ کی ایجاد کے لیے عالمی شہرت کا حامل تھا۔
گذشتہ برس 2022 ء نوبل انعام برائے ادب ، ایک فرانسیسی مصنفہ ایرناکس بلینکے نے حاصل کیا ، جنہیں ادب کا نوبل انعام ”اُن کی جرأت اور طبی تگ ودو کے لیے دیا گیا جس میں وہ ذاتی یادداشت، حقائق سے دوری اور اجتماعی پابندیوں سے پردہ اٹھاتی ہیں”۔ اس کا ادبی کام، زیادہ تر سوانحی، سماجیات کے ساتھ قریبی روابط پر مشتمل ہے۔
نوبل ایوارڈ کمیٹی کے چیئرمین اینڈرس اولسن نے نوٹ کیا کہ فوس اپنی سمت کے کھو جانے کے احساس کو جنم دینے کی اپنی صلاحیت کے ذریعے ایک اختراع کار بن گیا تھا، جو کہ متضاد طور پر فوس کی تحریروں میں الوہیت کے مترادف ایک گہرے تجربے کا باعث بنتا ہے۔ فوس کی تحریر اس کی شکل سے نمایاں ہوتی ہے، اکثر صفحے پر موجود الفاظ کے مقابلے میں جو کچھ کہا نہیں جاسکتا، اس کا اظہار اور زیادہ ہوتا ہے۔
سیموئل بارکلے بیکٹ ایک آئرش ناول نگار، ڈرامہ نگار، مختصر کہانی مصنف، تھیٹر ڈائریکٹر، شاعر، اور ادبی مترجم تھے۔ اس کے ادبی اور تھیٹر کے کام میں زندگی کے تاریک، غیر ذاتی اور المناک تجربات دیکھے جاسکتے ہیں۔سیموئیل بیکٹ سے جان فوس کے تخلیقی کام کے موازنہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ فوس کے ہاں اس کے مرصع انداز کی وجہ سے ہی عام ہے، وہ اپنے پیغامات اپنے قارئین تک پہنچانے کے لیے سادہ زبان، تال، راگ اور خاموشی پر انحصار کرتے ہیں۔ ان کے کچھ بڑے کاموں میں ”بوتھ ہاؤس” (1989) اور‘‘ میلانکولی -II & I’’ (1995-1996) شامل ہیں۔
64 سالہ جون فوس حالیہ عالمی اعزاز حاصل کرنے سے قبل کئی سالوں تک نوبل اعزاز حاصل کرنے کے بارے قیاس آرائیوں کا موضوع بنے رہے۔ اس کے وسیع کام میں ڈرامے، ناول، شاعری کے مجموعے، مضامین، بچوں کی کتابیں، اور ترجمے شامل ہیں، جو بنیادی طور پر نارویجن نینورسک میں لکھے گئے ہیں، جو کہ ناروے کی زبانوں کی تحریری شکلوں میں سے ایک ہے۔ اگرچہ فوس کو عالمی سطح پر سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر پیش کئے جانے والے ڈرامہ نگاروں میں سے ایک کے طور پر مانا جاتا ہے، اس کے نثر پاروں نے بھی بہت شہرت پائی ہے۔
فوس کی پرورش سخت لوتھرانزم سے ہوئی، لیکن بعد میں اس نے 2013 ء میں کیتھولک مذہب اپنا لیا۔ ابتدائی طور پر ادب کا مطالعہ کرنے کے بعد، اس نے 1983ء میں ناول ”ریڈ، بلیک” سے اپنا ادبی آغاز کیا، جو اس کی داستانی پیچیدگی کے لیے جانا جاتا ہے۔ ان کا تازہ ترین کام، ”سیپٹولوجی”، ایک نیم سوانح عمری پر مشتمل عظیم نظم ہے جو تین جلدوں میں سات حصوں پر محیط ہے، یہ نظم بغیر کسی فل اسٹاپ کے 1,250 صفحات پر مشتمل ہے، اور تیسری جلد کو 2022 ء کے بین الاقوامی بکر پرائز(International Booker Prize)کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔
1990ء کی دہائی کے اوائل میں ایک مصنف کی حیثیت سے مالی مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود، فوس نے ڈرامہ لکھنے کا اپنا شوق پورا کیا، جس کے نتیجے میں ”کوئی آنے والا ہے” تخلیق ہوا۔ اس کے بعد، انہوں نے 1994 ء میں اپنے ڈرامے ”And We’ll Never be Parted” کے لیے بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل کی۔
فوس کے کام کا تقریباً 50 زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں، اس کے ڈرامے دنیا بھر میں ایک ہزار سے زیادہ بار پیش کیے جا چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریر کو روایتی کردار پر مبنی کہانی کے پلاٹ کی بجائے انسانیت پر توجہ مرکوز کرنے پر زور دیا ہے۔
اگرادب کے نوبل انعام کی مالیت کا اندازہ لگانا ہو تو اس بات سے یہ اسے سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک تمغہ اور 11 ملین سویڈش کرونر (تقریباً 1 ملین ڈالر) کی انعامی رقم پر مشتمل ہے۔ جون فوس رواں سال 10 دسمبر کو سٹاک ہوم میں ایک رسمی تقریب میں کنگ کارل XVI گسٹاف سے نوبل انعام وصول کریں گے، جو 1896 ء میں سائنسدان الفریڈ نوبل کی موت کی برسی ہے۔سب سے پہلا نوبل انعام 1901ء میں دیا گیا یعنی آج سے اندازاً 122سال پہلے۔
جون فوس کی ادبی خدمات کے اعتراف میں یہ اعزاز 2018 ء میں ‘‘MeToo اسکینڈل’’ کے بعد سویڈش اکیڈمی کے عالمی اور صنفی برابری کے ادب کے انعام کے عزم کو واضح کرتا ہے۔(یاد رہے کہ MeToo تحریک، ایک سماجی تحریک اور جنسی استحصال، جنسی ہراسانی، اور عصمت دری کے کلچر کے خلاف ایک آگاہی مہم ہے، جس میں لوگ اپنے جنسی استحصال یا جنسی ہراسانی کے تجربات کو عام کرتے ہیں۔) اس عالمی اعزاز کے اعلان کے بعد، فوس نے اس پذیر ائی پر اظہار تشکر کیا اور کہا، ”میں اس اعزاز کے لئے مشکور و ممنون ہوں۔ میں اسے ادب کی ان اصناف کے لیے ایک بڑے اور معتبر اعزاز کے طور پر دیکھتا ہوں جس کا اولین اور اہم مقصد عالمی ادب کا معیاری اور رسمی طرزِتحریر سے ہٹ کر تخلیقات ہیں۔’’

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply