آکا باکا کاکا /کبیر خان

سفرکی دو قِسمیں ہیں ، پہلی وہ جس میں قدم قدم مقام بدلتا ہے، دوسرا جس میں قدم اُٹھتا توہے ، فاصلہ طے نہیں ہوتا ۔ عسکری اصطلاح میں اسے ’’مارک ٹائم‘‘ اور مارک ٹائم کو ریاضت کہتے ہیں ۔ سِول میں اسی اقدام کوسیاست کہتے ہیں۔ ادب میں اسے’’ سفر در سفر‘‘ گردانا اور مانا جاتا ہے۔ جس میں اشفاق احمد کہتے ہیں :
پتھّر اُتّے تیڑوں ننگا آکا باکا کاکا
بکریاں دا راکھا
بے خبر انجان
اینی گل نہ سمجھے
ایناں وی نہ جانے
رات نوں سوون لگّی
توُں جدوں دوپٹّہ لاہویں
کیہڑے پاسے رکھیّں
کیہڑے پاسے سونویں ۔۔۔۔‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

کٹّھے ، پندیاں ، اوکھی دندیاں کچھنے والے بابے کی طرح ایک تیڑوں ننگا کاکا میں نے بھی پالا تھا ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ بکریوں کا راکھا نہیں رہا۔ تھُن متّھنا نیلا پیلا مُنّا ہی تھا کہ میرے کاندھوں اور اعصاب کی سواری کرنے لگا تھا ۔ نِکّی بے جی لو والے تارے سے پہلے بیدار ہوتیں اور آدھی رات تلک گھر بار ، ڈھنڈی ڈوگی ، مال ڈنگر سانبھتیں ۔ سانبھتے سانبھتے آپ سانبھی گئیں۔ بے جی کے مارشل لا کے تحت ہفتہ میں دو بار بستہ چھوڑ،مُنّے کو کاندھے پر اُٹھا ، کم و بیش ایک میل دُور ’’مُلوانی بھابی‘‘ سے دم درود کروانےلے جانا میری ذمہ داری تھی۔ وہ سوار ، میں سواری۔ ہانک ڈانٹ کے علاوہ سوار کہیں بھی لگام دے کرقدرت کے کارخانے سے’’کُھتّیں نکالنے ڈالنے‘‘ کا حق فائق بھی رکھتا تھا۔۔۔۔۔:
’’اِس جھاڑ پرجمّاڑ کی جگہ آخریاڑ کیوں نہیں لگے۔۔۔۔؟ یہ ٹھِیکری رتّی ،وہ ڈالا ڈِنگا وِنگا کیوں ہے۔۔۔۔؟ یہ بٹّا گھڑا گھڑایا اُترا ہے یا شکروُ چاچا نے رندا ہے۔۔۔۔؟ دینہہ ککّو کی نکّی سے چڑھتا ہے، جھڑتا کیوں نہیں۔۔۔؟دھکّے جوگا گھراٹ دھکّے سے چلتا ہے یا ڈکّے سے۔۔۔؟ نَکّر پَدّر پر کھڑی ہے یا ادّھے اَشمان سے جھڑی ہے۔۔۔۔؟ ‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔ یہ تجسّس تب تک ہی بھلا لگتا ہے جب تک متجسّس آپ کے کاندھے پر سوار نہ ہو۔
بہن بھائیوں میں میں سب سے بڑا اور وہ سب سے چھوٹا تھا، اب وہ سب سے بڑا ، میں سب سے چھوٹا ہوں ۔ اور چھوٹا چھوٹا ہی ہوتا ہے۔۔۔۔ ، بڑوں کی ماننا پڑتی ہے۔ لیکن وہ کبھی ’’ لمبی اوربے ثبوتی‘‘ نہیں چھوڑتا۔ دیکھ بھال ، جانچ پڑتال کے بعد ہی بو لتا ہے۔۔
’’ اگرساہنہ (ہماراپڑوس) کسی زمانہ میں قلعہ، آوا،یا رصد گاہ نہیں تھا تو ایک ایسا مقام جہاں کاگا اُڑانے کے لئے کنکر گیٹا دستیاب نہیں وہاں ۵ مربع میٹر کی تراشیدہ سِلّیں کہاں سے آ گئیں؟ ٹھیکریوں کے انبار کیسے لگے؟۔ ۔۔۔ ‘‘ وہ تشخیص کرتا ہے یا تفتیش ؟ ابھی اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔
کارخانہ قدرت میں ’’کھُتّیں‘‘ نکالنے والا جب ’’اندرے ناں پینڈا ‘‘ طے کرتا ہے تو نیلم کی طرف اُٹھنے والے اُس کے قدم تاریخ کے اوراق پر پڑتے ہیں ۔ وہ کے َ ایچ خورشید کو یاد کرتا ہے :
’’ کے ایچ خورشید وی کہہ چیز سی؟ ہیک جِنئیس، باشعور سیاستدان ، جہیڑا مُلخے ناں صدر وی رہیا تے بہوں واری ممبر(اسمبلی) وی، فہ جد مریا ، اُس نے گوجے وِچا دو سو تھی وی کہٹ روپیے لختے۔ کے ایچ خورشید اوسا جس کیا محمد علی جناح( بانی پاکستان ) آخیا سا کہ پاکستان مہاڑے سیکرٹری تہ ٹائپ رائٹر نے بنایا‘‘۔
نیلم کے تذکرے میں سفرنامہ نگار پیچھے مُڑ کر دیکھتا ہے تو اُس کی نگاہ ۲۰۰۵ کے قیامت خیززلزلہ کےاِس پارپڑتی ہے،اُس کےسامنے ایک خستہ حال کھڑاہے۔ وہ مسافرکی سوالیہ نگاہ کے جواب میں ڈبڈبائی آواز میں اقرار جرم کرتا ہے ۔۔۔۔۔ ’’جی میں ہی ہوں، وزیراعظم ہوں اس قبرستان کا۔‘‘ ِ سفرنامہ نگار وہاں سے آگے ، میری طرف سے خصوصی طور پرچکار میں افتخار مغل کا ’’ہا‘‘کر کے تراہا نکالنے جاتا ہے۔ وہ اُسے گھر پر نہیں ملتا، شاعر جو ٹھہرا۔ وہ میری طرف سے اُس کی چھت پرغائبانہ وٹّا مار کے کہوڑی سے ہوتا ہوا پٹہکا ، اور وہاں سے مکڑا (تیرہ ہزار چھ سو فٹ بلند پہاڑ ) پہنچتا ہے۔ اسے وہاں ڈاکٹر صابر آفاقی کی نظم دکھائی دیتی ہے۔ نظم کے تعاقب میں وہنی،اور نوسیری جا پہنچتا ہے۔ پُل عبور کرتا ہے تو نیلم جہلم پروجیکٹ کو دیکھ کر اس کی سِری پھر جاتی ہے۔ چھ سو پچاس ارب روپے کی لاگت کا منصوبہ اپنی جگہ لیکن سفرنامہ نگار کے بھیتر ایک دیش بھگت بھی سویا ہے ۔ جو انگڑائی لے کر جاگتا ہے اور سوچتا ہے کہ اُس کے پانی سے اُسی کی ’’واٹرلانڈرنگ‘‘ سے کس طرف کے داغ دُھل پائیں گے؟۔ نیلم جہلم منصوبہ دیکھ کراُسے سعادت حسین منٹو بے طرح یاد آتا ہے۔ یہ دیکھ کر ٹیٹوال کا کُتّا اُس پر بے طرح بھونکتا ہے۔
مسافر کُنڈل شاہی پہنچتا ہے ۔ گاڑی سے اُتر تھوڑی چہل قدمی کرتا ہے، ٹانگوں میں نیم منجمد خون گردش کرتا ہے تو اُسے یاد آتا ہے کہ اُس نے کہیں پڑھا تھا کہ اس علاقہ میں ایک زبان ایسی بھی بولی جاتی ہے، جس کا کوئی نام نہیں ۔اور یہ کہ بے نام زبان تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ نئے لوگ بولتے نہیں ، پرانے ختم ہوتے جا رہے ہیں ۔ کسی زبان یا بولی کا یہ المیہ کتنا المناک ہو گا؟ سوچ کر ہی اُس پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ وہ میرے لئے چِٹھّی لکھتا ہے۔۔۔۔۔’’مرتی بولی کے لئے دو بول بھی پارسل کریں‘‘وہ نیلم پہنچتا ہے۔ نیلم ، دلکش مقام جسے دیکھ کر مسافر کی ’’بھُک چُک‘‘ جاتی ہے۔ اس گاؤں میں اب کے بے شمار ریسٹ ہاوس، ہوٹل ،دُکانیں ، ریستوران اُگ آئے تھے۔ نیلم کی بے مہابا ترقّی دیکھ کر مسافرکی آنکھیں کھارے پانی سے بھر جاتی ہیں ۔ ’’نیلم کا وہ قدرتی حسن بنگلوں ، بلڈنگوں کے میک اپ تلے کہیں دب گیا ہے۔۔۔‘‘اُس نے سوچا۔ ( آزاد کشمیر بھر میں یہی میک اپ چالو ہے ۔ آسمان پردھرتی ٹیکے جڑے جا رہے ہیں۔ میں نے آزاد پتن کے مقام پر، سنتّھے کے جنگل میں ایک نئی درگاہ اور درگاہ کی خوبصورت تجاوزات دیکھیں تو دِل کافر ہو گیا۔ پیر صاحب مجھے خدمت کا موقع دیتے تو راولاکوٹ میں ذاتی وراثت اس کار خیر کے لئے پیش کردیتا۔ عوام الناس کو آسانی سے نسلیں بخشوانے اور ہمارے بچّوں کو ’’حق حلال کے‘‘چار پیسے کمانے کے مواقع مل جاتے۔۔۔۔۔ تو بگڑتا کیا زمانے کا)۔
مسافر شاردا پہنچتا ہے تواس پر مادرالعلوم یونیورسٹی کا جادو چڑھ جاتا ہے۔ وہ علمی باتیں کرنے لگتا ہے۔ اور علمی، پھرمزید علمی۔ علموں بس کریں او یار۔
خدا خدا کرکے وہ وہاں سے نکلتاہے تو تّتے پانی میں گھُس جاتا ہے۔ لیکن مجھے پکّا یقین ہے کہ تتّا پانی اس کے دوسرے جہاں کو چنگا کرنے کا باعث بنے گا۔ اس لئے کہ جب بھی ماں نے تتّا پانی میں دبّ (بھاپ) لینے کی خواہش کی،وہ اُنہیں ،لے گیا۔ پوچھنے پر ہر بار ماں نے اطمینان کا اظہار کیا ۔۔۔۔’’پہلے کولا جیادہ آرام دا‘‘( پہلے سے بہتر محسوس کر رہی ہوں)۔اور میرا ایمان ہے کہ جس کام پر ماں خوش ہو جائے،اُس پر ربّ ہرصورت راضی ہوتا ہے۔
میرے بچپن کے سوار نے میری باگیں جدھر موڑیں ، مُڑتا چلا گیا۔ مظفرآباد، کوٹلی، میرپور، باغ ، پوُنچھ ، پلندری ، بھمبر کے جنگل بیلے،رنگڑ دریا ، جہاں چاہا میں گیا۔ یہ سارے علاقے زیادہ تر میرے دیکھے بھالے ہیں ، لیکن بیٹے جیسے بھائی کی آنکھ سے دیکھ کر ذرّہ برابر تھکن نہیں ہوئی۔ وہ کرجائی کا قلعہ دیکھنے کے بعد خود کہتا ہے:
’’میں پرانے مندر قلعے کیا دیکھتا تھا، میرا سفر کسی اور سمت شروع ہو جاتا تھا۔۔۔۔۔ گئے زمانے کا سفر۔۔۔۔ ہونے جینے کا سفر یا پھر اپنے آپ کا، اپنی ذات کا سفر۔‘‘ (ترجمہ)
صاحبو! زندگی ایک سفر ہے جو خواہی نخواہی کاٹنا پڑتا ہے۔ نہ کا ٹو تو کاٹتا ہے۔ میں نے پُولیں اتار اک پاسے رکھیں ، رنگڑ کا رگڑا ہوا بٹّا سر ہانے کے طور پر رکھا، لوئی اوڑھی اور لمبی تان لی۔ لیٹے لیٹے یوں لگا جیسے میں مکّہ شریف میں ہوں ، مخلوق خدا احرام باندھے ایک ہی سمت کو رواں ہے۔ سسکیوں بھری ایک بھنبھناہٹ ہے ،جسے تروتازہ رکھنے کے لئے برقی پنکھے خوشبودار پھوار برسا رہے ہیں ۔ میری لبیک میری حاضری کی طرح ’’ٹک بکی‘‘سی ہے۔ ایک حاضری بے حضور سی ۔۔۔۔۔ ’’زم زم پانچ کین، مصلّے بارہ، تسبیحیں تین درجن، بصرہ والی کھجور دو کلو،عجویٰ گِن کے پورے سولہ دانے، عطرتیرہ شیشی ۔۔۔،‘‘ابھی میں تسبیح پر حساب کتاب کر ہی رہاہوں کہ خوشبو بھری تریل پڑتی ہے۔ میں بے ساختہ لمکارمارتا ہوں،شہد کاذائقہ تالو سے چپک جاتا ہے۔ ہوا کا جھونکا خوشبو کا چھاٹا مار،الہڑ چُنری سمان لہرا کر پتلی گلی سے نکل لیتا ہے۔ میں ہڑبڑا کر دیکھتا ہوں تو خفیف سا ہو جاتا ہوں ۔۔۔۔ میں مکّہ مدینہ میں نہیں ،کھُنّ کے جنگل میں ،چیڑ کے بوٹے تلے لیٹا ہوں ۔ شاخوں کی چھِدری زلفوں سے سورج آنکھیں مار رہا ہے۔ ’’اوئے پہالے۔۔۔۔!‘‘ رنگڑ کے کنارے سے آوازکی پھانٹ لپکتی ہے’’تیرا بکروٹا اوکھی پندی کی اور نکل گیا ہے۔۔۔۔ ، ڈکّ اس کو‘‘۔
میں لپکتا ہوں ، وہ ناڑے کے پاسے مُڈھ ، تر کے تِنکوں سے گھر بنا رہا ہے۔
پتھّر اُتّے تیڑوں ننگا آکا باکا کاکا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply