وہم کا علاج اور حکیم لقمان کی مجبوریاں۔۔۔۔سلطان محمود

“وہم کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا” یہ بات محض محاورے کی حد تک ہی سہی، مگر اس سے وہم اور اس کے علاج کی اہمیت پر روشنی ضرور پڑتی ہے۔ وہم دراصل بذاتِ خود کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ بہت سی دوسری نفسیاتی بیماریاں ایسی ہیں جن میں وہم ایک علامت کے طور پر سامنے آتا ہے۔

مثلاً ایک صاحب کو اپنی صحت کے بارے میں حد سے زیادہ تشویش ہے، ہر وقت الم غلم قسم کے ٹیسٹ کرواتے رہتے ہیں، کبھی سینے میں درد محسوس ہوتا ہے، کبھی معدے میں گیس کا گولا سا بن کر سینے کی طرف اٹھتا ہوا محسوس ہوتا ہے، لاکھ ڈاکٹروں نے سمجھایا کہ آپ کو کوئی بیماری نہیں ہے مگر پھر بھی ان کی فکرمندی ختم نہیں ہوتی۔ یہ صاحب دراصل ہائپو کونڈریاسس (Hypochondriasis) نامی نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہیں۔

ان سے ملئے: یہ محترمہ ہر وقت ہاتھ دھوتی رہتی ہیں، کہیں سے ان کو شک پڑ گیا ہے کہ ہاتھوں پر کوئی گندگی لگی ہے۔ ہاتھ دھونا اچھی بات ہے، مگر یہ کیسی گندگی ہے کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتی جبکہ صابن کی ٹکیہ جو ابھی دو دن پہلے منگوائی تھی، ان کے بار بار ہاتھ دھونے کے کارن ختم ہو گئی ہے۔ ان کی بیماری کو او سی ڈی (Obsessive Compulsive Disorder) کہا جاتا ہے۔ کسی کسی میں یہ علامت بار بار کنڈی چیک کرنے کی شکل میں بھی موجود ہو سکتی ہے۔

ایک نوجوان کو وہم ہے کہ اس پر کسی نے جادو کردیا ہے۔ کچھ رشته دار یا دوست جو اس سے جلتے ہیں، اسے مارنا چاہتے ہیں۔ موصوف اسی وجہ سے کسی کے ہاتھ کا کھانا نہیں کھاتے کہ کسی نے انہیں مارنے کے لیے زہر ہی نہ ملا دیا ہو۔ یہ ہیں پیرا نائیڈ شیزو فرینیا (Paranoid schizophrenia) کے مریض۔ غالب نے اسی کیفیت کی ترجمانی کچھ اس طرح سے کی ہے:

مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں

اکنامکس کی فیلڈ میں نوبیل انعام یافتہ پروفیسر جان نیش کی زندگی پر بنی ہوئی فلم “اے بیوٹی فل مائیند” دیکھنا نہ بھولئے گا، “شٹر آئی لینڈ” بھی اچھی تفريح ہے۔

ایک صاحب اچھی بھلی زندگی گزارتے تھے۔ کرکٹ کھیلتے تھے، ویک اینڈ پر سینما یا کبھی کبھی دوستوں کے ساتھ پکنک منانے بھی چلے جاتے تھے۔ اب اچانک انہیں احساس ہو گیا ہے کہ زندگی فضول میں گزر رہی ہے۔ یکدم سے مذہبی بن گئے ہیں۔ بات بات پر روتے ہیں، دعائیں مانگتے ہیں اور انہیں ڈر ہے کہ ان کی گزشتہ گناہوں کے باعث، جو اصل میں انہوں نے کی ہی نہیں ہیں، انہیں عذاب دیا جا رہا ہے۔ یہ حد سے بڑھا ہوا احساسِ گناہ اور عذاب کا وہم (Delusion of guilt) شدید ڈپریشن کی علامت ہے۔

ایک خاتون کو اپنے خاوند پر شک ہے کہ اس کا گھر سے باہر کسی سے افئیر چل رہا ہے “تبھی تو روزانہ دفتر سے لیٹ آتے ہیں، کام وام کچھ نہیں ہے، میں جانتی ہوں اس کلموئی سکریٹری کو۔ مجھے اس کے کپڑوں سے اس کی بو آتی ہے۔ جب دیکھو، اسی سے فون پر لگا رہتا ہے”۔ اوتھیلو سنڈروم (Othello syndrome ) کی علامات۔
اگر آپ انگریزی فلموں سے زیادہ بالی وڈ کی فلموں کو پسند کرتے ہیں تو سیف علی خان اور کرینہ کپور کی فلم “اومکارا” دیکھ کر اپنی آراء سے آگاہ کیجئے گا۔ وشال بھردواج کی شیکسپئر ٹرایالوجی سیریز کی بہترین فلم۔

ایک صاحب یا خاتون کو وہم ہے کہ وہ بڑی توپ چیز ہیں۔ انہیں کسی خاص مقصد کے لیے چن لیا گیا ہے اور اس کے لیے انہیں غیر معمولی جسمانی و روحانی قوتیں عطا کی گئی ہیں۔ ایسے لوگ بعض اوقات اپنی غیر معمولی قوتوں کا مظاہرہ کرنے کے لیے اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنے سے بھی نہیں چوکتے۔ ان کو زعم ہوتا ہے کہ وہ جب چاہیں دنیا کا نظام اتھل پتھل کردیں۔ جس کو چاہیں، ایک نظر ڈال کر بھسم کردیں۔ یہ سب مینیا (Mania) کی علامات ہیں۔ بائی پولر ڈپریشن میں بھی ایسا ہو جاتاہے۔

غرض یہ اور اس طرح کی بہت سی دوسری نفسیاتی بیماریاں ہیں جن میں مریض وہم کا شکار ہو جاتا ہے۔ ان بیماریوں کی درست تشخیص کے لیے امریکی ماہرین نفسیات کے سالہاسال کی محنت سے مرتب کردہ مینول ڈی ایس ایم (Diagnostic and Statistical Manual of Mental Disorders) سے استفادہ کیا جاتا ہے اور میڈیکل سائنس میں ان بیماریوں کا شافی علاج بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ دماغ کا ایکسرے، سی ٹی سکین، ایم آر آئی اور دیگر تشخیصی سہولیات جو آج ہمیں میسر ہیں، یقیناً حکیم لقمان نے ان کا نام بھی نہ سنا ہوگا۔ پھر ان کا کیا قصور اگر انکے پاس وہم کا علاج نہیں تھا۔ قصور تو ان لوگوں کا ہے جو آج بھی وہم کا علاج ڈھونڈ نے مزاروں پر اور حکیموں کے پاس چلے جاتے ہیں۔

اور آخر میں “اوتھیلو” کے نام سے ہی پروین شاکر کی ایک خوبصورت نظم:

Advertisements
julia rana solicitors london

اپنے فون پہ اپنا نمبر
بار بار ڈائل کرتی ہوں
سوچ رہی ہوں
کب تک اس کا ٹیلیفون انگیج رہے گا
دل کڑھتا ہے
اتنی اتنی دیر تلک
وہ کس سے باتیں کرتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply