اوسیاہ!کل اور آج ۔۔حسان عالمگیر عباسی

یہ اس وقت کی بات ہے جب مکان کچے اور لوگ سچے ہوا کرتے تھے۔ زمانے بیت گئے جب مسجدیں کچی پر نمازی پکے ہوا کرتے تھے۔ یہ ان لمحات کا ذکر ہے جب ہمارا گاؤں قدرت کا شاہکار ہوا کرتا تھا ، جب زمیندار زمینوں کی  بیوپاری کرتے شرماتے تھے۔ جب کھیتوں میں ہریالی تھی ، کسانوں کے ہاں خوشحالی تھی۔ گندم سے بھرے کھیت ، درختوں پہ سرخ رنگی سیب! آلوبخارے ، آلوچے ، خوبانی ، اخروٹوں سے بھرے اشجار اور شجر سایہ دار۔ جب پرندے درختوں پر گھونسلے بناتے تھے۔

اب کی بات کروں تو ہماری منور قبروں میں مدفون بزرگوں کی روحیں کانپ اٹھیں۔ کل کو کیسے ان کا سامنا کریں گے جب کہیں اور سے انہیں معلوم پڑے؟۔ ہم ہی بتاتے چلیں ، ہو سکتا ہے جان بخشی ہو جائے۔ اب کچے مکانات کی جگہ پکی منزلیں تعمیر ہو چکیں ، سچائی کا دامن چھوٹ چکا۔ نفاق کی علامات ظاہر ہونے لگیں۔ مساجد اتنی کہ اگر سب ایک جگہ نماز کی ادائیگی شروع کردیں تو کئی مساجد خالی نظر آنے لگیں۔ ڈیڑھ انچ کی مساجد تعمیر ہو چکیں۔۔۔اور پوچھیں تو “مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے” ، رہے نمازی تو “من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا”۔ جو نمازی بن گئے بھول گئے

میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی

میں اسی لیے مسلماں ‘ میں اسی لیے نمازی۔۔

آپ آسمانوں میں اڑتے تھے ، رہے ہم تو “بھلا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی / ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا”۔ آپ کے وقت قدرت کے حسین و جمیل مراکز کی نگرانی و نگہداشت کا بندوست تھا ، رہے ہم تو قدرت سے جھگڑنے لگے ، درختوں کی کٹائی ہونے لگی ، بندوقوں کے دستے بننے لگے۔۔۔آپ کو شجر سایہ دار بناتے وقت لگا ہوگا ، ہمیں کاٹتے وقت نہیں لگا ، بڑی بے رحمی سے درختوں کو کاٹ ڈالا۔ جب سے چھتری ملی ، چھاؤں تک چھین لیا ہم نے۔ بھول گئے ،درختوں پہ پرندے بھی بستے ہیں ، ان کے گھونسلے تباہ کیے تو ہمارے گھر بھی اُجڑ گئے۔برکت رہی نہ رحمتوں کا نزول۔ آپ کے وقتوں میں سالن میں پانی ملا کر پڑوس کے حقوق کی ادائیگی کا سوچا جاتا تھا ، اب پڑوس بھوکا سوتا ہے ، ہم بطن کی آگ بجھاتے ہیں اور جنت میں حوروں سے رنگ رلیاں منانے کے خواب دیکھتے ہیں۔ ہم سوجاتے ہیں ، خوابوں میں رہتے ہیں۔۔آپ جاگتے خواب دیکھتے تھے اور وہ خواب سونے نہیں دیتا تھا۔

آپ شہروں کی زندگی سے تنگ ہوکر قدرت کے حسین مناظر دیکھنے کی غرض سے گاؤں آئے ، رہے ہم زمین کے بیوپاری کرنے لگ گئے۔ آپ زمینوں پر فصلیں کاشت کرتے ، رہے ہم “زمیں بیچ ڈالی ، زمیں  بیچ ڈالی”۔ آپ کا دور تھا ، گرمی ہو یا جاڑا ، کبھی نہ لگا گھروں کو تالا۔ اب قفل ہے گھروں گھروں ، بھولے سے چلا جائے کوئی حال احوال دریافت کے واسطے ، معلوم پڑے پنڈی کی سڑکیں ہیں ناپتے۔۔

بھول گئے جب سب ایک ساتھ جاتے۔ سرکاری سرپرستی والے  سکول میں پڑھتے۔ سکول سے فراغت کے بعد قرآن سیکھتے سکھاتے۔ جب استاد کی عزت تھی۔ جب استاد کی شفقت تھی۔ اب نہ عزت رہی ، نہ شفقت۔۔ جب اخلاص ہی نہ رہا،اساتذہ زر کے چکر میں طلباء کی تربیت بھول سے گئے۔۔ طلباء زن کا طواف کرتے اسلاف کی میراث بھلا بیٹھے۔

اب نہ کھیتوں میں ہریالی ہے ، نہ فصلیں اگتی ہیں۔۔ نہ آلو رہا ، نہ آلو بخارا۔۔ نہ آلوچا رہا نہ سیبوں کی مہکتی خوشبو۔ کھیتوں میں کام کرتے بوڑھے نہ ان کی آؤ بھگت کرتی بزرگ خواتین۔۔ ہاں ان کی روحیں کانپ سی جاتی ہیں جب بھیڑ بکریاں ان کے لگائے پودے اکھاڑتی جاتی ہیں۔

آپ تھے تو اوسیاہ میں دیسی ماحول پنپتا دیکھتے تھے۔۔۔ انڈے دیسی ، مکھن ، دہی ، دودھ کی کثرت۔۔بیماری تھی نہ کمزوری، سبزیاں اُگائی جاتی تھیں۔ کدو شریف بھی تھا , ککڑی ککمبر کی بیلیں تھیں۔۔۔ رہے ہم تو سبزیاں بھی خرید لاتے ہیں ، پھلوں کی بھی تجارت ہونے لگی ہے۔ کھیتوں کو سیراب کرنے کی بجائے کھیل کود کا مرکز بنا دیا ہے۔ پہلے زمین تھی تو سبزیوں اور پھلوں کی ضمانت تھی ، اب زمین جب سے بیچ ڈالی ہے تو زر ہے ، قوت خرید ہے۔

آپ آزاد تھے ، آزاد فضاؤں میں سانس لیتے تھے۔ آپ مذہبی اقدار کا فروغ کرتے تھے۔ ہم نے مذہب کو پیچھے دھکیلا ، استعمال کرتے ہوئے کہنے لگے کہ مذہب میں جبر نہیں ہے۔ رفتہ رفتہ غیرت بیچ کر آزادی حاصل کی۔ فرق ہے۔۔ آزاد آپ بھی تھے لیکن حدود میں محدود رہ کر ، ہم جس کو آزادی بولتے ہیں غیرت بیچ کر حاصل کی ہے۔

آپ خوشی غمی میں شریک ہوتے تھے ، ہم بھی ہوتے ہیں۔ لیکن فرق ہے۔۔ آپ اخلاص کی دولت سے مالامال تھے ، ہم سیاست چمکانے جاتے ہیں۔ آپ غمی میں حوصلے بڑھاتے ، آنسو پونچھتے۔ ہم بھی پونچھ لیتے ہیں لیکن مفادات کی خاطر۔ آپ دل کھول کر تعریف کرتے ، ہم بھی کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں تعریفوں کے پل تلے مفادات کی ندیاں بہتی ہیں۔

شادی بیاہ ہوتے ، باراتیوں کا شور و غل سنائی دیتا۔ غل غپاڑہ کرتے۔ برتن ٹوٹتے ، رشتے داروں کی بھرپور شرکت ہوتی۔ ایسا ہوتا کیونکہ بزرگوں کا سایہ سلامت تھا۔ کرسیاں ، ٹیبل جیپوں پر آتے ، جوانوں کی جوانیاں کام آتیں۔ کرسیاں اٹھاتے ، راتوں  میں جاگتے ، کام کرتے۔ تاش پارٹیاں سگرٹ سلگاتے بوقت پہنچ جاتے۔ کیرم کی محفل ہوتی۔ بچے شور کرتے ، آنکھ مچولی ، پکڑن پکڑائی ، چھپن چھپائی کھیلتے۔ اب بھی کہیں کہیں ہوتا ہو گا ایسا ویسا لیکن وہ محفلیں سجاتے بزرگ کہاں سے لائیں ؟ اب تو شادی کے لیے پنڈی جانا پڑتا ہے اوسیاہ والوں کو۔ ہوٹلوں میں زیب تن ہو کر جاتے ہیں۔ چہروں کے قدرتی مناظر کو مصنوعی طور طریقوں سے خوبصورت بناتے ہیں۔ مصنوعی چادر سے قدرت کی بناوٹ کو ڈھک کر “لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم” کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ بزرگ آ جائیں تو ان چہروں کی رونق نہ دیکھ کر غصیلے ہو جائیں۔ اب تو گاؤں میں بھی بنے بنائے کھانوں کے مراکز ہیں۔ اب محنت نہیں بناوٹ اثر رکھتی ہے۔ پہلے محنت سے بزرگوں کو متاثر کیا جاتا ، اب بناوٹ سے بناوٹیوں کو تاثر دیا جانے لگا۔

پہلے تو دیسی خوراکیں تھیں اور اپنی محنت تھی ، اب برگرز آرڈر پر منگوائے جانے لگے۔ پہلے پیش کرنے کو احترام جبکہ اب پیش نظر یہ مقصد ہے کہ کمائی کے کیا کیا بہتر ذرائع ممکن ہو سکتے ہیں۔۔

رمضان کی برکتیں تھیں۔ روزے دار روزے رکھتے ، محنت کرتے ، بھوک اور پیاس کی شکایات تک منہ پہ نہ لاتے۔ اب راتیں جاگ کر گزاری جانے لگیں ، بازار میں انٹرٹینمنٹ کے لیے کرکٹ ٹورنامنٹس منعقد ہونے لگے۔ سحری کرتے ہی جوان سوگئے ، ظہر تک سوتے ، جاگتے ہی گپ شپ ، بعد از عصر پیاس اور بھوک کی شکایات کے انبار لگا دیے۔ آذان گونجی اور پکے پکائے کھانوں پر ٹوٹ پڑے۔ نوجوان روزہ کھلتے ہی “وکان من الغائبین” کی تصویر بننے لگے۔ نماز تراویح میں چند بزرگ ہی مسجد کو آباد کرنے لگے۔ جوانوں کی جوانیاں رنگین دنیا میں رنگنے لگیں۔ وہ بھولنے لگے “در جوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری”۔

“زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہو گا / سکُوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہوگا”۔۔۔! بزرگ تھے تو ان کا رعب و جلال تھا۔۔ دبدبہ تھا۔ ان کی غیر موجودگی ، آزادی و حریت کا زعم لیے نوجوانوں کے مقاصد بدلنے لگے۔ جب بزرگ تھے ، نوجوان بھی بزرگی کا مان رکھتے تھے۔ اب جوان یکثر بدل گئے۔

“گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں”۔۔۔۔! وقت نہیں تھم سکتا۔ وقت کی رفتار بھی بڑھ رہی ہے۔ یہ بھی ماننے والی بات ہے کہ آنے والا وقت گزرے اوقات سے بہتر نہیں ہو سکتا۔ یہ بھی درست کہ موجودہ وقت آنے والے وقت سے کہیں بہتر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نسل نو کو بتائیں ہماری ثقافت کے بارے میں ، اوسیاہ کی عزت و توقیر کے بارے میں۔ ہم سب کا گاؤں ہے ، اس کو آباد کرنا ہے۔ ہمارے بزرگوں کو گاؤں کی چابی نسل نو کو تھماتے عہد لینا چاہیے کہ اس پیغام کو عام کریں کہ “ہم سب ایک ہیں” ، ان کو بتانا چاہیے کہ گاؤں اوسیاہ محبت و امن کا گہوارہ اور چاہت و پیار کا مسکن ہے۔ ان سے عہد لینا ہوگا کہ اوسیاہ میں فرقہ واریت کی ٹانگیں توڑنا فرض ہے۔ ڈیڑھ اینٹ کی مساجد کی تعمیر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جو علاقے کے امن کو ٹھیس پہنچائے وہ فساد فی الارض کا مرتکب قرار پایا جائے گا اور ایسے عناصر کی شدید الفاظ میں مذمت کی ضرورت ہے۔ اوسیاہ پڑھے لکھے لوگوں کا گاؤں ہے ، اس کا بھرم بزرگوں نے قائم و دائم رکھا ، اب نوجوانوں کا فرض ہے کہ شرح خواندگی کو برقرار کھیں۔ انھیں معلوم پڑے کہ “تہذیب سکھاتی ہے جینے کا سلیقہ / تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی”۔

شاعر کی انشاپردازی۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

شہر کی اس بھیڑ میں چل تو رہا ہوں
ذہن میں پر گاؤں کا نقشہ رکھا ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply