شاباش عبدالرزاق/ثاقب لقمان قریشی

ہماری زمین نظام شمسی کا واحد پلینٹ ہے جہاں زندگی موجود ہے۔ کائنات میں کتنی کہکشائیں ہیں؟ کیا اور کہیں زندگی ہے یہ ہم اب تک نہیں جان پائے۔ زمین پر پائے جانے والے جاندار، زمین کا ماحول اور اسکے وسائل کی حفاظت ہر انسان کی اخلاقی ذمی داری ہونی چاہیئے۔ خدا کو ماننے اور نہ ماننے والا جو کوئی بھی اس بات کو تسلیم نہیں کرتا، زمین پر بسنے والے انسان اور دیگر جانداروں کیلئے مسائل پیدا کرتا ہے۔ ایسے انسان کو زمین کا مجرم قرار دینا چاہیئے۔ اب اگر خدا کو ماننے اور نہ ماننے والے اپنے گروہوں میں اس پیغام کو عام کر دیتے ہیں تب تو وہ زمین کیلئے فائدہ مند ہیں۔ نہیں کرتے تو انکے مذہبی یا ملحد ہونے کا فائدہ نہیں۔
پاکستان کے سابق مشہور آل راؤنڈر عبدالرزاق نے چند روز قبل ایشوریا رائے سے متعلق متنازع بیان دیا۔ پھر سوشل میڈیا کے دباؤ کی وجہ سے رزاق کو معافی مانگنا پڑی۔ رزاق نے کیوں اس طرح سوچے سمجھے بغیر بات کی؟ یہ بات قابل غور ہے۔ شاہد آفریدی کہتا ہے کہ رزاق نجی محفلوں میں مثالیں دے کر مذاق کرتا رہتا ہے۔ اس سے غلطی ہوگئی اسے معاف کر دینا چاہیئے۔
جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ رزاق سے غلطی نہیں ہوئی بلکہ اسے یہ سکھایا ہی نہیں گیا کہ کہاں کیا بولنا ہے۔ اداکار اور کھلاڑی اپنے فن کے ساتھ ملک کی سفارتکای کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔ انکا اٹھنا، بیٹھنا، ہر بات کے مثبت جواب سے قوم کا روشن خیال چہرہ دنیا کے سامنے لانے میں مدد مل سکتی ہے۔
کرکٹ سے متعلق میری معلومات ناقص ہیں۔ لیکن میں نے سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں کو ہمیشہ مسکراتے ہوئے دیکھا۔ میں نے کوہلی، گنگولی، سریسانت، سدھو، ٹنڈولکر وغیرہ کو کھیل کے دوران غصہ کرتے دیکھا ہے اسلیئے میں انڈین ٹیم کے رویئے کو منفی تصور کرتا ہوں۔
معمر رانا کا پریانکا چوپڑا کی رنگت پر نامناسب بات کہنا، نعمان اعجاز کا باوضو ہوکر اداکاری کرنا، نادر علی خان کا سنیتا مارشل کے بچوں کے مذہب سے متعلق سوال کرنا، انضمام الحق کا ہربھجن سنگھ سے متعلق بیان، اداکار شان کا سچن کو جنم دن کی مبارکباد دینے پر کرکٹ کے کھلاڑیوں کو تنقید کا نشانہ بنانا، فیشن ڈیزائنر ماریہ بی کا دین کا سہارا لے کر خواجہ سراء کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانا، سینیٹر مشتاق کے خواجہ سراء کمیونٹی کے حقوق کے بل کو ہم جنس پرستی سے جوڑنا وغیرہ
لنکڈان پر سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز کی نسبت قدر بہتر لوگ پائے جاتے ہیں۔ میں نے بہت سے انفلوئنزر فالو کیئے ہیں۔ چار پانچ سال قبل مجھے سدرہ بھٹی نامی خاتون کی فرینڈ ریکوسٹ آئی۔ اس وقت سدرہ کو ستر ہزار سے زائد لوگ فالو کرتے تھے۔ میں نے پاکستانی انفلوئنزرس کے سوا کسی کو مذہب اور سیاست پر پوسٹ لگاتے نہیں دیکھا۔ سدرہ کے کونٹینٹ میں جان نہیں ہوتی تھی اس لیئے مذہب اور سیاسی پوسٹس کے ذریعے وقت گزارتی تھیں۔
ایک روز بیگم صاحبہ نے اعجاز انصاری نامی یوٹیوبر کی ویڈیو دکھائی۔ ویڈیو شروع ہوئی تو اعجاز نے ﷽ پڑھی اور کھانا بنانا شروع کیا۔ اس ویڈیو کے دوران اعجاز نے متعدد بار ﷽ پڑھی۔ پھر میں نے کچھ اور پاکستانیوں کے یوٹیوب چینل دیکھے تو سب ہی کلمے پڑھ پڑھ کر کھانا بنانا سکھا رہے تھے۔
حال ہی میں ایک پروگرام کے دوران جگت باز ویون رچرڈ کی رنگت پر جملے کس رہے تھے۔ جس پر کرکٹ کے “راجہ” رمیز راجہ صاحب ٹھاٹھیں مار مار کر ہنس رہے تھے۔ جس پر ویون کی بیٹی نے رمیز راجہ کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کہیں بھی کچھ بھی بول دینا۔ ہر کام میں محض اپنے مقصد کے حصول کیلیئے مذہب کو گھسیٹنے کا رواج عرصہ دراز سے چل رہا تھا۔ لیکن اسکی شدت میں اضافہ اس وقت ہوا جب عمران خان نے سیاست میں قدم رکھا۔ چند روز قبل خان صاحب کی بہن ان سے ملنے جیل گئیں۔ جیل سے باہر نکلنے پر جب صحافی نے خان صاحب کے بارے میں سوال کیا تو جواب میں علیمہ خان کہتی ہیں کہ خان صاحب جیل میں چار بار قرآن پاک ختم کرچکے ہیں۔
اقتدار کی کرسی سنبھالنے کے کچھ عرصہ بعد خان صاحب نے ہاتھوں میں تسبیح لینا شروع کر دی۔ خان صاحب کے دور میں ہمیں مولانا طارق جمیل خان صاحب کی سچائی کی گواہی دیتے نظر آئے۔ اوریا مقبول جان سمیت بہت سی مذہبی شخصیات کو پیغمبروں کی زیارتیں ہونے لگیں۔ جو جرنل باجودہ اور خان صاحب کی جوڑی کو پاکستان اور امت مسلمہ کیلئے قدرت کا عظیم ترین تحفہ قرار دینے لگے۔
خان صاحب نے سیاسی مخالفین کو چت کرنے کیلئے دین کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ خان صاحب سوچے سمجھے بغیر کچھ بھی کہنے کے عادی ہیں۔ خان صاحب کا یہی رویہ انکے ورکرز سمیت پوری قوم میں سرائیت کر چکا ہے۔
کھلاڑیوں سے اداکار، صحافیوں سے سیاسی کارکن، سوشل میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا ہر طرف مذہب کا بے دریغ استعمال، بے بنیاد الزامات اور بھونڈے مذاق نظر آئیں گے۔ جہالت کے سامنے علم والے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔
ایک طرف عمران خان، دوسری طرف انجینئر مرزا، تیسری طرف دیسی لبرل، چوتھی طرف مولوی دیکھ کر میں بہت عرصے سے خوفزدہ تھا کہ آگے کیا ہوگا۔ عبدالرزاق کے بیان سے ہماری قومی جہالت کھل کر دنیا کے سامنے آچکی ہے۔
ریاست کے پاس جہالت کو کنٹرول کرنے کے سو طریقے ہیں۔ ملک نے کیسے آگے بڑھنا ہے اس کا فیصلہ ریاست نے خود کرنا ہے۔جس کا ہم انتظار کر رہے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply