غزوۂ احد کے جانثاران رسولﷺ(2،آخری حصّہ)۔۔احمد خلیق

حضرت ابو طلحہ زید بن سہل انصاری رضی اللہ عنہ
حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ مشہور صحابی و خادم رسول صلی اللہ علیہ وسلم انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے سوتیلے والد گرامی تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا شمار ماہراور زبردست تیر اندازوں میں ہوتا تھا۔ غزوۂ احد کے دن جب دشمن نے ہادئ اکرم ﷺ پر ہجوم کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کو اپنی ڈھال سے ڈھانک لیاتاکہ اگر کوئی تیراس طرف آئے تو آپ ﷺ کو گزند نہ پہنچے بلکہ جو بھی نقصان ہو انھیں کا ہو، وہ دشمنانِ اسلام کے تیروں کو اپنے ہاتھوں پر روک رہے تھے۔ اسی حالت میں آپ رضی اللہ نےکفار مکہ کی طرف تاک تاک کر تیر برسانے شروع کر دیے۔ ساتھ ساتھ جذب و کیف میںیہ شعر پڑھتے جاتے:
نفسی لنفسک الفداء ووجھی لوجھک الوقاء
میری جان آپ کی جان پر قربان اور میرا چہرہ آپ کے چہرے کی سپر ہو
اس دن آپ رضی اللہ عنہ کی تیر اندازی کا یہ عالم تھا کہ دویاتین کمانیں یکے بعد دیگرے آپ ؓکے ہاتھ سے ٹوٹیں۔ ایک وقت آیا کہ ترکش تیروں سے خالی ہو گیا، اس کے بعد کوئی مسلمان ادھر سے تیر لیے گزرتا تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ اے فلاں ابن فلاں اپنے تیر ابو طلحہ کےترکش میں ڈال دو، اس طرح آپ رضی اللہ عنہ برابر تیر چلاتے رہے۔ آنحضرت ﷺیہ دیکھنے کے لیے ابو طلحہؓ کا تیرکہاں جا کر لگا ہے بار بار سرمبارک اٹھاتے تو آپ رضی اللہ عنہ فکر مندی اور بے قراری سے آپ ﷺ کے آگے آ جاتے اور عرض گدازہوتے ” اے اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان!سر مبارک اوپر نہ اٹھائیے، مبادا دشمن کا کوئی تیر آ لگے۔ میرا سینہ آپؐ کے سینے کے لیے سپر ہے۔” دوہری شجاعت و فداکارییعنی دفاعِ نبیﷺ میں تیروں کو ہاتھوں پر لینےاور مسلسل تیر اندازی کی جان توڑ جدوجہد کے باعث آپ رضی اللہ عنہ کا ایک ہاتھ دائمی شل ہو گیا مگر زبان سے اُف تک نہ نکلا۔ یہ جذبۂ فدویت اور جانثاری دیکھ کر رسول اللہﷺ نہایت مسرور ہوئے اور فرمایا: ” فوج میں ابو طلحہ کی آواز سو آدمیوں سے بہتر ہے۔”

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
احد کے روز حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ جن دوسرے صاحبِ نے اپنی ماہرانہ تیر اندازی کے جوہر دکھائے اور اس کے ذریعے وارفتگئ رسولﷺ کا مظاہرہ کیا وہ جلیل القدر صحابی، عشرۂ مبشرۃ میں سے ایک حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ رضی اللہ ایک حیثیت سے آنحضرتﷺ کے ماموں زاد بھائی تھے، مگر چونکہ آپ رضی اللہ عنہ کا تعلق حضورﷺ کے ننھیالی گھرانے بنی زہرہ سے تھا تو جناب نبی کریمﷺ آپؓ کو پیار سے ماموں بھی پکارتے تھے، حضرت سعد رضی اللہ عنہ اس نسبت اور خطاب پر ہمیشہ فخر محسوس کرتے تھے۔
سیر و مغازی کی روایات میں اختلاف ہے کہ جب کفارِ مکہ نے نبئ رحمت علیہ الصلاۃ و السلام پر پہلا ہلّہ بولا تو اس وقت آپ ﷺ کے گرداگرد کتنے جانثار صحابہ سر پر کفن باندھ کر لڑ رہے تھے۔ انصاری صحابہ کو ملا کر کہیںیہ تعداد سات بیان کی جاتی ہےتو کہیں نو، گیارہ اور چودہ کا ہندسہ بھی آتا ہے، مگر یہ سب روایات ایک امر پر متفق ہیں کہ مہاجرین میں سے دو صحابہ آغازِ حملہ کے وقت حضور ﷺ کے پہلو بہ پہلو سر دھڑ کی بازی لگا رہےتھے؛ یہ تھے جناب سیدنا سعد بن ابی وقاص اور سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنھما اجمعین۔
متعدد سیرت نگاروں نےروایت کیا ہےکہ اس روز حضرت سعدرضی اللہ عنہ کی کمان سے ایک ہزار تیر برسائے گئے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی مہارت اور قابلیت کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ترکش سے تیر نکال نکال کر آپ ؓ کو دیتے اور چلانے کا ارشاد فرماتے، جبکہ دوسری روایت میں آتا ہے کہ جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے ترکش میں تیر ختم ہو گئے تو حضورﷺ نے اپنے ترکش کے تمام تیر آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے بکھیر دیے اور انھیں چلانے کا حکم دیا۔ اس کے بعد دونوں روایتوں کے مطابق آپ رضی اللہ جب بھیتیر چلانے لگتےتو نبئ مہربان ﷺ کمال محبت سے فرماتے:
یَا سَعْدُ اِرْمِ فِدَاکَ اَبِیْ وَ اُمِّیْ
اے سعد! تیر چلا، میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں

اللہ اللہ! آغاز مضمون میں کاملیت ایمان کی شرط بیان کی جا رہی کہ کسی امتی کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک رسول خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس کے دل میں ماں باپ، اولاد، اعزہ و اقارب، دوست احباب غرض دنیا جہاں کی ہر شے سے بڑھ کر جاگزیں نہ ہو جائے، اور زبان حال یہ گواہی نہ دے رہی ہو کہ “یا رسول اللہﷺ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں۔”مگریہاں ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کےنبیﷺاپنے ایک امتی کو اس عظیم ترین شرف سے بہرہ مند فرما رہے ہیں۔ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ بیان کرتے ہیں کہ “میں نےرسول اللہﷺ کی زبان مبارک سے ما سوائے سعدؓکسی اور کے لیے فِدَاکَ اَبِیْ وَ اُمِّیکے الفاظ نہیں سنے”(دیگر دو روایات حدیث میں یہی الفاظ حضرت زبیر بن عوام اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنھما کے بارے میں بھی آئےہیں، سو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے کلام کی توجیہہ بنتی ہے کہ یا تو انھوں نے جناب رسول کریمﷺ سے کسی اور کے حق میںسماعت نہیں کیے،یا پھر غزوۂ احد کے موقع پر بجز حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے کسی اور کے بارے میں ارشاد نہیں فرمائے گئے۔ گویایہ ایسا بلند پایہ شرف ہے کہ (حواریان رسولﷺ کے علاوہ) دوسرا کوئی شخص اس میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ کا ہمسر نہیں ہے۔

مشرکین ِمکہ کے حملے اور نرغے کے دوران جن چند افراد کو سرورِ کائنات محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو زِک پہنچانے کا موقع ملا ان میں ایک بد بخت عتبہ بنی ابی وقاص بھی تھا جو حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا بھائی تھا۔ اس نے یکے بعد دیگرے کئی پتھر آنحضرتﷺ کی جانب پھینکے، جن کے لگنے سے آپﷺ کے دندان مبارک شہید (یا زخمی) ہوئےاور نیچے کا لب مبارک خون آلود ہو گیا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ “واللہ! (اس ناپاک جسارت پر) میں جس قدر اپنے بھائی عتبہ کے قتل کا درپے اور خواہشمند ہوا، کسی اور کے قتل کا حریص نہیں ہوا”، مگر قانو ن قدرت میں یہ سعادت حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے حصے میں لکھی تھی تو وہ اس سعادت سے شرف یاب نہ ہو سکے۔

حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ
جنگ کے نازک اور کٹھن لمحات میں بیشتر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے اپنی اپنی ہمت و طاقت سے کئی گنا بڑھ کرمحیر العقول سرفروشی کا مظاہرہ کیا(جن میں سے چند اصحاب کا عطر بیز تذکرہ گذشتہ سطور میں گزر چکا ہے)، مگر اللہ کے ایک بندے نے جانثاری اور فداکاری کا وہ نادرۂ روزگار نمونہ پیش کیا کہ بقول علامہ اقبالؒ:
؂عقل ہے محوِ تماشالبِ بام ابھی
وہ کوئی اور نہیں بلکہ سابقون الاولون اور عشرۂ مبشرۃ میں سے ایک حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ تھے۔ حضرت عمارۃ بن زیاد بن سکن (یا زیاد بن سکن) اور ان کے ساتھی انصاری صحابہ رضی اللہ عنہم کے ضمن میں ہم ذکر کر چکے ہیں مشرکین مکہ کی پہلی یورش کے دوران پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے جوانب میں صرف نو (یا باختلاف روایت گیارہ بارہ) صحابہ کرامؓ تھے۔ آنحضرت ﷺ نے ندا لگائی کہ کون ہے جو ان کو ہم سے دفع کرےاس کے لیے جنت ہے (یایہ کہ)اور وہ جنت میں میرا رفیق ہو گا؟ اس پر انصاری صحابہ ؓ کے ایک ایک کر کےلبیک کہنے اورجام ِشہادت نوش کرنے سے ماقبل ہر بار حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ رسالت مآبؐ میں عرض کناں ہوئے : یارسول اللہﷺ میں!، لیکن ہر بار حضورﷺ نےفرمایا:نہیں! تم نہیں! کوئی اور۔ جب حضرت عمارۃ بن زیاد بن سکن رضی اللہ عنہ بھی زخموں سے چُور ہو کر گر پڑے، تب حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے سات (یا گیارہ) انصاری صحابہ ؓ کے بقدر تنہا مقابلہ کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ جارحیت اور دفاع کا مرقع بن گئےتھے۔ جب کفار حملے کے لیے قریب آنے لگتےتو آپ رضی اللہ عنہ اکیلے آگے بڑھ کر لڑائی لڑتے اور انھیں تتر بتر کر دیتے۔ پھر واپس لوٹتے اور آقائے دو جہاں ﷺ کو اپنی پشت پر سہارا دےکر الٹے قدموں محفوظ مقام کی طرف چل پڑتے۔ یہ آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے کا عمل کئی دفعہ دہرایا گیا۔

حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی جانثاری دیوانگی کی حد کو پہنچی ہوئی تھی کہ تیروں اور تلواروں کو اپنے ہاتھوں پر لے رہے تھے جس کے باعث ایک ہاتھ مکمل ناکارہ ہو گیا اور کچھ انگلیاں بھی ہمیشہ کے لیے قربان ہو گئیں۔ امام بخاری ؒ قیس بن ابی حازمؒ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا : میں نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ دیکھا وہ بالکل شل تھا،انھوں نےجنگِ احد میں اسی ہاتھ سے حضور علیہ الصلاۃ و السلام کا دفاع کیا تھا۔ اعداء اللہ میں سے کسی نے تلوار سے وار کیا جو ہاتھ پر پڑا تو درد کی شدت سے آپ رضی اللہ عنہ کی زبان سے ٌحس حس (سی سی)ٗ کی آواز نکلی، آنحضرتﷺ نے فرمایا:”اگر تم حس حس کی بجائے بسم اللہ کہتے تو فرشتے تجھے اٹھا کر لے جاتےاور لوگ دیکھ رہے ہوتے ۔۔۔”دوسری روایت کے الفاظ میں ہے کہ “۔۔۔تو جنت میں بنا ہوا اپنا گھر یہاں دنیا میں رہتے ہوئے دیکھ لیتے۔”

جنگ کے اختتام پرجب زخموں کا شمار کیا گیا تو ایک روایت کے مطابق پینتیسیا انتالیس گہرے گھاؤ تھے۔مگر دوسری طرف حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے والد ماجد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے نقل کرتی ہیں کہ : “احد کے دن جب حضرت طلحہ رضی اللہ کے زخم شمار کیےگئے تو وہ ستر سے زائد تھے۔ افضل البشر بعد الانبیاء سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ میدان کارزار کا پورا نقشہ کھینچتے ہوئے بتاتے ہیں کہ “جب جنگ کا پانسہ پلٹا تو آنحضرت ﷺ کے پاس سب سے پہلے میں لوٹ کر آیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص آپﷺ کی مدافعت میں جی جان سے لڑ رہا ہے، میں نے کہا کہ ہو نہ ہو یہ طلحہؓ ہے۔ اتنی دیر میں ابو عبیدہؓ بھی آ گئے۔ ہم حضور علیہ الصلاۃ و السلام کے پاس پہنچے تو طلحہ ؓ کوبے ہوش پایا۔ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: اپنے بھائی کی خبر لو، اس نے جنت واجب کر لی۔ ہم نے دیکھا کہ اللہ کے رسولﷺ کا اپنا چہرہ خون آلود ہے، خود کی کڑیاں رخِ انور میں دھنسی ہوئی ہیں۔ میں نے انھیں نکالنا چاہا، لیکن ابوعبیدہؓ نے ربِ ذوالجلال کا واسطہ دے کر اس سعادت کو اپنے نام کر لیا اور ہاتھوں کے بجائے دانتوں کا سہارا لیا جس کی بنا پر ان کے دو دانت شہید ہو گئے۔ رسول اللہﷺ نے ہمیں پھر طلحہؓ کی جانب متوجہ کیا۔ ہم اُدھر گئے تو ان کے جسم پر ستر سے زائد زخم پائے۔ ان کی مرہم پٹی کی گئی اور منہ پر پانی چھڑکا گیا تو ہوش میں آتے ہی پہلا سوال کیا “حضورؐ کا کیا حال ہے؟” ہم نے بتایا حضورؐ بخیریت و عافیت ہیں تو جواباً کہا “الحمد للہ! حضورؐ کے ہوتے ہوئے ہر مصیبت بے حقیقت ہے۔” اسی لیےیار غار و مزار ابوبکر رضی اللہ عنہ جب بھی غزوۂ احد کا ذکر کرتے تو فرماتے:
کان ذلک الیوم کلہ لطلحۃ
یہ دن (جنگ) کُل کاکُل طلحہ کے لیے تھا
مطلب غزوۂ احد میں نبئ اخر الزمانﷺ کی حفاظت کا اصل بیڑا تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے اٹھایا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ انھیں “صاحب احد” کے لقب سے پکارتے تھے۔
اسی پر بس نہیں ہوئی، بلکہ احد پہاڑ کی طرف عقب نشینی کرتے ہوئے جب سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ابو عامر فاسق یہودی کے بنائے گئے گڑھوں میں سے ایک گڑھے میں گر گئے ، جو اس بدباطن نے مسلمانوں کو زِک پہنچانے کے لیے ہی کھدوائے تھے، تو دوہری آہنی زرہوں کے بوجھ اور زخمی حالت کے بسبب آپﷺ کو اٹھنے اور نکلنے میں دشواری ہوئی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے آنحضرت ﷺ کا ہاتھ تھاما اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نےکمر کے گرد بازو حمائل کر کے اوپر اٹھایا، تب آپﷺبرابر کھڑے ہوسکے ۔ افضل البشر و افضل الخلائق علیہ الصلاۃ و السلام نے دوسری بار حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو جنت کے وجوب کا پروانہ دیا۔ اسی طرح جب احد پہاڑ کے قریب پہنچ کر بلند عمودی چٹان پر چڑھنے کا مرحلہ درپیش آیا تو بھاری زرہیں اور زخموں کی وجہ سے ضعف و نقاہت چڑھائی چڑھنےمیںمانع ثابت ہوئیں۔ چنانچہ جانثارِ بارگاہ رسالت ؐ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ بجاآورئ خدمت کے لیے ایک بار پھر پیش پیش ہوئے اور آپﷺ کے سامنے جھک کر بیٹھ گئے، حضورﷺ نے ان کی پشت پر قدم مبارک رکھا اور چٹان چڑھ گئے۔ بعد ازاں تیسری دفعہ فرمایا (ابن اسحقؒ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں):
اَوْجَبَ طَلْحَۃُ
طلحہ نے (اپنے لیے) جنت واجب کر لی
معلوم ہوتا ہے حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ جملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اس حیثیت سے یکتاہیں کہ انھیں ایک ہی موقع پر سہ بارگی جنت کی بشارت سے نوازا گیا۔ نیز اس جذبۂ عشق و مستی پر خاتم الانبیاء و الرسل صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد اقوال منقول ہیں۔
آپﷺ نے فرمایا: “جو شخص زمین پر چلتے پھرتے زندہ شہید کو دیکھنا چاہے، وہ طلحہ بن عبیداللہ کو دیکھ لے۔”
یہ بھی فرمایا: “جس نے دنیا میں چلتے پھرتے جنتی کو دیکھنا ہو، وہ طلحہ کو دیکھ لے۔”
فرمان نبویﷺ ہے: “طلحہ ان لوگوں میں سے ہیں جو قربانی کا حق ادا کر چکے ہیں۔”
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی فیاضی اور سخاوت مشہور و معروف تھی۔ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں وافر حصہ رہتا تھا۔ خاص غزوۂ احد کے موقع پربیش بہا انفاق فی سبیل اللہ کرنے پر پر دربار رسالتؐ سے “طَلْحَۃُ الْخَیْر” کا خطاب عنایت ہوا۔

آخری بات ۔ ۔ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرما چکے، سو جسد اطہر کی حفاظت اور مدافعت کی اس طور ضرورت نہیں رہی جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے احد، حنین اور دوسری غزوات کے موقع پر پیش کی۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ فی زمانہ مغرب سے گاہے بگاہے عصمت و ناموس رسالت ﷺ پر رقیق اور اوچھے حملے ہوتے رہتے ہیں۔ ان کا کامل اور مکمل سدِّ باب ضروری ہے۔ اس کےلیے ہمیں صحابہ کرامؓ کی سی محبت، حمیت، غیرت، ہوشمندی اور دانشمندی درکار ہے۔ اللہ تبار ک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو اوصاف و خصائص صحابہ ؓسے مزین و منور فرمائے تاکہ رہتی دنیا تک کوئی ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ سکے۔۔۔ آمین یا رب العالمین!

صلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعا احسان الییوم الدین۔

Advertisements
julia rana solicitors

حوالہ جات
1) سیرت المصطفی جلد دوم از مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ
2) ضیاء النبی جلد سوم از پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمہ اللہ
3) سیر الصحابہ ؓ جلد دوم، سوم و ششم
4) خیر البشر ﷺ کے چالیس جانثار رضی اللہ تعالی عنہم از طالب الہاشمیؒ
5) سرور کائناتﷺ کے پچاس صحابہ رضوان اللہ تعالی اجمعین از طالب الہاشمیؒ
6) تیس پروانے شمع ِ رسالت کے ﷺ از طالب الہاشمی
7) تذکار صحابیات رضی اللہ تعالی عنہن از طالب الہاشمی
8) سیرت حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ از طالب الہاشمی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply