• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(پچیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(پچیسواں دن)۔۔گوتم حیات

شہر میں لاک ڈاؤن کی شروعات ہو چکی تھی۔
وہ صاحب مختلف پلیٹ فارمز پر یہ کہتے پھر رہے تھے کہ حکومت نے ہمارے فلاحی ادارے پر بھاری ٹیکسس عائد کر دیے ہیں، ہماری ایمبولینس گاڑیاں اور کرونا سے بچاؤ کی حفاظتی کِٹس حکومت کے اجازت نامے کی منتظر ہیں لیکن موجودہ حکومت کو اس بات کی کوئی پرواہ ہی نہیں کہ لاکھوں کروڑوں کا سامان جو غریب عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہے وہ ان کے ایک دستخط کا منتظر ہے۔۔۔ پھر کچھ دنوں تک خاموشی رہتی ہے اس دوران ان کے فلاحی ادارے کی طرف سے غریب لوگوں کو راشن تقسیم کرنے کی خبریں گردش کرتی ہیں، کراچی سمیت صوبہ سندھ کے دوسرے شہروں میں بھی اس ادارے کی طرف سے راشن کی تقسیم کے مناظر ہم اپنے موبائل فون کی  سکرین پر دیکھتے ہیں۔ اس بات پر مجھے ذاتی طور پر خوشی ہوتی ہے کہ لوگوں کی بروقت مدد کی جا رہی ہے، حکومت تو شاید ریلیف کے کاموں میں اتنی فعال نہیں، لیکن یہ فلاحی ادارہ اپنے کاموں کی وجہ سے اس بار بھی سب پر اپنی دھاک بٹھا لے گا اور پھر گزشتہ روز ہم سب نے اپنی  اپنی  موبائل سکرینز پر وہ منظر بھی دیکھا جب وہ صاحب ایک کروڑ کا چیک ملک کے حاکم کو پیش کر رہے تھے۔ یہ ایک کروڑ کا چیک حکومت کے کرونا ریلیف فنڈ میں بڑے فخریہ انداز میں جمع کروایا گیا، خوب زور و شور سے اس کی تشہیر بھی کی گئی۔

میرے لیے یہ منظر ناقابلِ برداشت تھا۔۔ ایک ایسا عوامی فلاحی ادارہ جو عوام کے ہی پیسوں اور چندوں سے مستحق افراد کی مالی مدد کرتا ہو ،کیا اس کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ عوام کی دی ہوئی خطیر رقم کو حکومت کے ریلیف فنڈ میں جمع کروائے؟؟؟

فلاح کے نام پر جمع کی ہوئی رقم کسی اور فلاح کے نام پر بنائے گئے ادارے کو دینا کہاں کی دانشمندی ہے۔۔۔۔؟ جبکہ آپ کو اس بات کا بھی گہرائی  میں علم ہے کہ حکومت عوامی فلاح کے کاموں میں محض زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کرتی۔ اگر حکومت میں بیٹھے ہوئے اراکینِ اسمبلی اور جی ایچ کیو میں بیٹھے ہوئے ہمارے محسنوں کو عوام کی فکر ہوتی تو آج اس ملک کی عوام کی بیشتر آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہوتی، لوگوں کا اس کڑی قیامت خیز دھوپ میں راشن کے لیے طویل قطاروں میں لگنا اور پھر حکومتی فوٹو سیشن کے بعد ان طویل قطاروں کو ہانک کر ختم کرنا جیسے عوامل  نہ دوہرائے  جاتے۔

لوگوں کی بے بسی اور محرومیوں سے دولت مند بننے والے یہ فلاحی اداروں کے مالکان اور ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگ آخر کب اپنی خود غرضی کو پسِ پشت ڈال کر حقیقی معنوں میں غریبوں کی دادرسی کریں گے؟

کاش کہ وہ صاحب ایک کروڑ کا چیک حکومت کو دینے سے پہلے صرف کراچی شہر ہی کی غریب عوام کو ایک نظر دیکھ لیتے، ان کے فاقہ زدہ بدنوں کا اپنے دل کی آنکھ سے ایکسرے کر لیتے۔

کل میں نے اپنی ایک دوست سیما کا ذکر کیا تھا۔ وہ ان مشکل حالات میں اپنی استطاعت کے تحت بہت سے غریب گھرانوں میں کچھ “عزیزوں” کی مدد سے راشن تقسیم کرتی پھر رہی ہے۔سیما نے لاک ڈاؤن کے آغاز میں اس وقت کام کرنے کا فیصلہ کیا جب کراچی کی ایک فلاحی تنظیم “سیلانی ویلفیئر” نے غیر مسلموں کو راشن دینے سے صاف منع کر دیا تھا۔
سیما کی ہمت اور حوصلے کو سلام کہ اس نے شہر کراچی میں رہائش پذیر محنت کش غریب غیر مسلموں کے لیے بروقت اپنی آواز اٹھائی، ان کے گھروں میں عملی طور پر راشن پہنچایا ،اس کے ساتھ ساتھ اُس نے اُن مستحق مسلمان گھرانوں میں بھی راشن تقسیم کیا جہاں پر کسی بھی “حاتم طائی” کی امداد نہیں پہنچی تھی۔

میں پڑھنے والوں کے لیے مختصر طور پر یہاں ان علاقوں کا ذکر کروں گا جہاں پر سیما نے بغیر کسی ہندو، مسلم، عیسائی کی تفریق کے لوگوں کی دل کھول کر مدد کی۔ مشکل کی اس گھڑی میں جب ان محنت کشوں کے روزگار کو کرونا کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن نے نگل لیا تھا تو یہ سیما تھی جس نے کچھ دوستوں کے مالی تعاون سے ان غریبوں کے سروں پر دستِ شفقت رکھا۔

کاش کہ   شہر کے خود ساختہ مسیحوں کو ان غریب علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے حالات کا صحیح علم ہوتا، تو وہ ایک کروڑ کا چیک حکومت کو دینے سے پہلے ہزار بار سوچتے۔
سیما کے مطابق۔۔
“کراچی کے وہ علاقے جہاں پر اس نے راشن تقسیم کیا اور یہ وہ علاقے ہیں جہاں پر لوگ ابھی بھی حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔ ان علاقوں میں بہیم پورہ لیاری، خاموش کالونی، لالو کھیت، ضیاء کالونی، عیسیٰ نگری، مشرف کالونی، چینیسر گوٹھ، ماڑی پوڑ، گریکس, گڈاب ٹاؤن کی کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہندو، مسلم، اور عیسائی گھرانوں میں راشن تقسیم کیا گیا، لیکن افسوس کہ محدود راشن کی وجہ سے ہم چاہ کر بھی تمام مستحقین کی مدد نہیں کر سکے۔ لالو کھیت میں کافی اندر کی طرف “خاموش کالونی” واقع ہے۔ یہاں پر تقریباً  60 گھرانے آباد ہیں۔ ہمارے پاس دستیاب راشن صرف بیس گھروں کو دینے کے لیے تھا لیکن ان لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بیس گھروں کے راشن کو آدھا آدھا تقسیم کر کے چالیس گھرانوں تک منتقل کیا۔ یہ بات ہمارے لیے خوش آئند تھی کہ جہاں ہر کوئی صرف اپنی فکر میں لگا ہو وہاں کچھ ایسے ہمدرد لوگ بھی ہیں جو اپنے علاوہ دوسروں کی بھوک کے لیے بھی فکرمند ہیں۔ سوشل میڈیا پر “لچھمی” کی ویڈیو وائرل ہونے کی وجہ سے ہم نے اگلے روز ان سے رابطہ کیا، بدقسمتی سے ہمارے پاس راشن کے صرف تیس تھیلے تھے جن  کو ہم نے لچھمی کے حوالے کر کے کہا کہ جو سب سے زیادہ مستحق ہے ان کو آپ یہ تقسیم کر دیں، لچھمی نے وہ تیس تھیلے اپنے اطراف کی مستحق فیمیلیز  میں تقسیم کیے، جن میں دو مسلم فیملیز بھی شامل تھیں”۔

یہاں اب میں شہر کے خود ساختہ مسیحا کا ایک سابقہ بیان رکھ کر کچھ سوالوں کے ساتھ اپنی پچیسویں قسط کا اختتام کر رہا ہوں۔
مسیحانِ شہر کے مطابق:
“کرونا لاک ڈاؤن کے بعد سے ایدھی مراکز پر راشن لینے آنے والوں کی تعداد دگنی ہوگئی ہے جبکہ چندہ دینے والے افراد کی تعداد بہت کم ہوگئی ہے”۔

اس وقت میری آنکھوں کے سامنے غریب شہریوں کی ایک قطار ہے۔۔۔ وہ قطار طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے۔ اس طویل ہوتی قطار میں شامل سارے مفلوک الحال لوگ مجھ سے ایک ہی سوال پوچھ رہے ہیں۔۔۔ اور پھر ان کے سوالات بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں، میرے پاس ان کے کسی بھی سوال کا کوئی تسلّی بخش جواب نہیں ہے۔۔۔۔ کیا آپ میں سے کوئی ان کے سوالوں کا جواب دینا چاہے گا؟؟۔۔وہ مجھ سے، آپ سے، ہم سب سے پوچھ رہے ہیں کہ:
“وہ ایک کروڑ کی رقم ہم لاکھوں لوگوں کو دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے، ذلیل و رسوا ہونے سے روک سکتی تھی، کیا اصولی اور اخلاقی طور پر اس رقم کے اوّلین حقدار ہم نہیں ہیں؟۔۔ہم جو اسی شہر کے رہنے والے ہیں کیا ہمارے بھوکے پیٹوں کو بھرے بغیر کسی اور کی امداد کرنا جائز ہے۔۔۔ کیا وہ ایک کروڑ کی رقم؟۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply