چلو پارٹی شروع کریں۔۔۔ بلال شوکت آزاد

نیوزی لینڈ کے شہر چرچ کرائسٹ میں دو مساجد پر چار جنونی اشخاص نے مسلح  حملہ کیا اور لگ  بھگ 49 مسلمان نمازیوں کو شہید اور 50 کو شدید زخمی کردیا اور یہ بات بھی اچھنبے سے کم نہیں کہ قاتل نے سارے واقعہ کی لائیو سٹریمنگ بھی کی سوشل میڈیا پر اور ساری قتل و غارت سے پہلے بالکل گرینڈ ٹھیفٹ آٹو, پب جی اور دیگر اسطرح کی گیمز کی طرح حلیہ بنایا اور یہ بول کر قتل غارت گری شروع کی کہ

“چلو پارٹی شروع کریں۔”

مزے کی بات ہے کہ اس واقعے میں چاروں حملہ آوروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے جن میں مرکزی ملزم “برینٹن ٹیرنٹ” ہے, جس کی عمر 28 سال اور آسٹریلیا کا شہری ہے۔

حکام کے مطابق “برینٹن ٹیرنٹ” مسلمان اور سیاہ فام مخالف اور انتہا پسند مسیحی گروہ (Ku Klan Klax) کا کارندہ ہے جس نے ناروے کے دہشت گرد “اینڈرز بریوک” سے متاثر ہو کر دہشت گردی کی یہ ہولناک واردات سرانجام دی۔ بریوک نے 2011 میں ناروے میں فائرنگ کرکے 85 افراد کو ہلاک کیا تھا۔

کتنے دکھ اور تکلیف کی بات ہے کہ مسلمان کا خون اب اس قدر سستا اور بے مول ہوچکا ہے کہ جس کا دل کرے وہ اس خون کی ہولی منالے, پارٹی کہہ کر لاشیں گرادے۔

خیر باتیں, وہ بھی جلی کٹی جتنی مرضی کرلیں اور سنا لیں پر وہ پھر بھی کم ہی رہیں گی اور سب سے اہم بات کہ صرف باتوں سے کچھ بگڑتا کسی کا تو دنیا کب کی اجڑ چکی ہوتی لیکن یہاں منہ کے ساتھ ہاتھ چلانا بھی ضروری ہے جو کہ ایک اصول ہے اور اس اصول کو طاغوت تو سمجھ گیا پر ہم بھول گئے۔

جیسا کہ مرکزی ملزم “برینٹن ٹیرنٹ” آسٹریلوی نژاد گورا ہے جس کا تعلق سفید فام یا گوری چمڑی والی شدت پسند تظیم “Ku Klax Klan” سے ہے جو دنیا بھر میں سفید فاموں اور عیسائیوں کے متشدد خیالات کی حفاظت اور ترویج کا کام کرتی ہے۔

یہ بڑے مزے کی بات ہے کہ یہ ایک مکمل عصبی بنیادوں پر چلنے والی تنظیم ہے جس کی جڑیں اندرون خانہ فری میسن اور الیومناٹی سے بھی منسلک ہیں کہیں نا کہیں۔

اور یہ بھی غور طلب بات ہے کہ یہ “Ku Klax Klan” دراصل ان وائکنگز, گوتھکس, فرینکس, نائٹ ٹیمپلرز, پوٹوکی اور صلیبی قبیلہِ متشدد و مذہبی جنونی عیسائیوں کی باقیات ہے جن کو چھٹی عیسویں صدی سے لیکر اٹھارہویں صدی تک مختلف نوعیت کی شکستوں سے دوچار ہونا پڑا مسلمانوں سے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ یہ ایک سفید فام صلیبی اور Zionist جماعت ہے جن کا خود اپنے ہم مذہب مگر مخالف فرقے رومن کیتھولک اور یہودیت سے بھی جھگڑا ہے اور ان کو کنٹرول کرنے والے اور کوئی نہیں بلکہ خفیہ معاشرے والے “اشکنازی” ہیں جنہیں آج ہم عرف عام میں “فری میسن” کے نام سے جانتے ہیں۔

اب آتے  ہیں آج والے واقعے پر, جو کہ نیوزی لینڈ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا ایسا واقعہ ہے جس کو قوم اور حکومت دہشتگردی کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

دستیاب معلومات کی روشنی میں یہ حملہ سوشل میڈیا پر لائیو آن ایئر کیا گیا اور اس کا کم سے کم دورانیہ سترہ سے پچیس منٹ نوٹ کیا گیا ہے ابتک, جس کی ریکارڈنگ بھی موجود ہے۔

سوالیہ نشان یہ ہیں کہ اتنا لمبا دورانیہ حملے کا رہا جبکہ کسی ایجنسی نے ریسپانس نہیں دیا, نیوزی لینڈ سے تو پھر پاکستان کی پولیس بہتر ہے جو اتنے عرصے میں بندے پھڑکا کر دو دفعہ جائے واردات گھوم کر تھانے آجاتی ہے۔

پھر اس بات کو کس طرح رد کریں کہ یہ ایک سوچی سمجھی اور خطرناک سازش تھی جس کو باقاعدہ پلان کرکے انجام دیا گیا اور جس کی خبر دو دن قبل قاتل خود فیسبک پر سٹیٹس ڈال کر دے چکا تھا۔

سب سے اہم یہ کہ نیوزی لینڈ کے حملہ آوروں سے برآمد ہونے والے اسلحہ اور بلٹ پروف جیکٹوں کی تصاویر سامنے آئی ہیں۔

جن پر انہوں نے ماضی میں مسلمانوں اور عیسائی ریاستوں کے درمیان ہونے والی جنگوں اور ان جنگوں کو لڑنے والے جنونی صلیبی جنگجوؤں اور بادشاہوں کے نام لکھے تھے۔

ان میں سے زیادہ تر جنگیں وہ تھیں جن میں مسلمانوں کو شکست ہوئی۔

اس کے علاوہ دور حاضر کے ان جنونی صلیبی دہشتگردوں کے نام بھی درج تھے جنہوں نے گزشتہ دس سالوں میں مسلمانوں اور سیاہ فاموں کو قتل کرکے اس تنظیم کے لیئے کارنامے انجام دیئے تھے۔

درج ذیل وہ چند نام, واقعات اور تاریخیں ہیں جو ان صلیبی دہشتگردوں کے اسلحے اور بلٹ پروف جیکٹوں پر درج تھے۔

1-Anton Lundin Petterson
2-Alexandre Bissonnette
3-Odo The Great
4-Tour 732AD
5-Skanderbeg
6-Charles Martel
7-Fourteen Words or 14#1488
8-Clavijo 844AD
9-Bragadine
10-Palayur Church
11-Vienna 1683AD
12-Acre 1189AD
13-Sigismund
14-Feliks Kazimierz “Szczęsny” Potocki
15-Marcantonio Colonna
16-Sebastiano Venier

اور وغیرہ وغیرہ

اب آپ کو میں ان کی تفصیل سے آگاہ کرتا ہوں جسے جان کر ایک بار آپ ضرور حیران اور پریشان ہونگے کہ ہمیں ہماری تاریخ پڑھنے اور اس کو ازبر کرنے پر دیسی لبرلز کی طعنہ زنی ختم نہیں ہوتی کہ یہ نسیم حجازی اور عنایت اللہ کے گھوڑوں پر سوار قوم ہے جو مغالطہ پاکستان پڑھ کر ہر کسی پر چڑھ دوڑنے کو تیار رہتی ہے پر درحقیقت دنیا اور بلخصوص یہود, ہنود اور عیسائی ہمارے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں اور کس قدر ہم سے تاریخ پڑھ کر نفرت کرتے ہیں یہ آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں۔

ایک نکتہ بتاتا چلوں تفصیل سے پہلے کہ یہ صرف وہ عبارتیں اور نام ہیں جو میں باریک بینی سے پڑھ کر تحقیق کرسکا ورنہ جو سمجھ میں نہیں آئے وہ الفاظ بھی کم نہیں اور یہ کہ ان سب درج الفاظ کی تاریخ چھٹی صدی سے اکیسویں صدی تک ہے جو کہ اس بات کی گواہ ہے کہ ان چاروں حملہ آوروں کا دماغی توازن تو درست تھا مگر نظریاتی توازن درست نہیں تھا۔

خیر پہلے نام کی تفصیل سے بات آگے بڑھاتے ہیں۔

1-Anton Lundin Petterson

22 اکتوبر 2015 کو 21 سالا Anton Lundin Petterson مسلح کاروائی کرنے کی غرض سے Kronan School in Trollhättan, Sweden میں داخل ہوتا ہے۔ وہ ایک اسسٹنٹ  ٹیچر قتل اور ایک طالبعلم کو شدید زخمی کرتا ہے جبکہ ایک اور طالبعلم اور استاد کو خنجر کے وار سے زخمی کرتا ہے جس میں سے استاد بعد میں جانبر نہیں ہوتا اور چھ ہفتے بعد 3 دسمبر کو جاں بحق ہوجاتا ہے۔

حیرانگی کی بات یہ ہے کہ یہ سوئیڈن میں بھی اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ درج ہوتا ہے 2015 میں ٹھیک 1961 کے بعد, ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ جس علاقے میں وہ اسکول واقع تھا جہاں اس دہشتگرد نے حملہ کرکے دو لوگ قتل اور کل چھ افراد کو زخمی کیا وہ مہاجرین کی بستیوں سے گھرا علاقہ تھا۔

2-Alexandre Bissonnette

کینیڈا کے شہر کیوبک سٹی میں 29 جنوری 2017 کی شام مسجد پر حملہ کرنے والا ایک اور صلیبی دہشتگرد Alexandre Bissonnette جس پر بڑے پیمانے پر قتل عام (6 نمازی جاں بحق اور انیس زخمی ہوئے) ثابت ہوا اور اس کو کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹرینڈو کی مداخلت سے کرمنل لاء کے تحت گرفتار  کیا گیا جبکہ اس پر دہشتگردی ایکٹ لاگو ہونا چاہیئے تھا۔

اس کو 8 فروری 2019 کو چالیس سال کی قید با مشقت کی سزا سنائی گئی بغیر پیرول کی گنجائش لیکن اس دہشتگرد نے 8 مارچ 2019 کو اس سزا کے خلاف اپیل بھی درج کی۔

3-Odo The Great

اوڈو یا یوڈو Odo the Great (also called Eudes or Eudo) بھی آٹھویں صدی کے اوائل کا ہسپانوی جنگجو اور بادشاہ گزرا ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے 721 میں پہلی دفعہ بنو امیہ کو پیچھے دھکیلا اور ہار سے دوچار کیا سپین کی سرزمین پر, اسی وجہ سے اس کو Odo The Great کہا اور لکھا جاتا ہے, یہ 735 میں مرا تھا۔

4-Tour 732AD

معرکہ بلاط الشہداء, حملہ آور نے اپنی بندوق پر لکھا (Tours 732) اس نے دراصل Battle of Tours کا حوالہ دیا جسے عربی میں معرکہ بلاط الشہداء کہا جاتا ہے۔

معرکہ بلاط الشہداء اپنی اہمیت کے لحاظ سے دنیا کی 15 اہم جنگوں میں شمار کی جاتی ہے۔

یہ جنگ 10 اکتوبر 732ء میں فرانس کے شہر ٹورز کے قریب لڑی گئی جس میں اسپین میں قائم خلافت بنو امیہ کو فرنگیوں کی افواج کے ہاتھوں شکست ہوئی۔

اندلس کے حاکم امیر عبد الرحمٰن نے 70 ہزار سپاہیوں پر مشتمل فوج کے ذریعے اپنی پڑوسی عیسائی ریاست فرانس پر حملہ کیا تھا۔ مسلمانوں نے تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے فرانس کے علاقوں غال، وادی رہون، ارلس اور دبورڈیکس پر قبضہ کرلیا۔

مسلمانوں کی کامیابی سے مسیحی دنیا خوف زدہ ہوگئی۔ فرانس کے بادشاہ نے دیگر عیسائی ممالک سے مدد طلب کی تو انہوں نے امدادی فوجیں روانہ کیں۔

توغ کے قریب دونوں افواج کے درمیان زبردست جنگ ہوئی۔

مسیحیوں کی فوج کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اس کے باوجود وہ بہت بہادری سے لڑے۔

10 روز تک جنگ کے بعد مسلمانوں کو شکست ہوئی۔ اگر مسلمان یہ جنگ جیتے تو آج یورپ سمیت پوری دنیا پر مسلمانوں کی حکومت ہوتی۔

مشہور مورخ ایڈورڈ گبن نے اپنی معرکہ آرا تاریخ “تاریخ زوال روما” میں لکھا ’’عرب بحری بیڑا بغیر لڑے ہوئے ٹیمز کے دہانے پر آ کھڑا ہوتا۔ عین ممکن ہے کہ آج آکسفورڈ میں قرآن پڑھایا جا رہا ہوتا اور اس کے میناروں سے پیغمبرِ اسلام کی تعلیمات کی تقدیس بیان کی جا رہی ہوتی‘‘۔

5-Skanderbeg

اصل نام George Castriot (Albanian: Gjergj Kastrioti, 6 May 1405 – 17 January 1468) اور معروف نام سکندر بیگ ہے, البانی رئیس اور عسکری کمانڈر تھا۔

ایک لمبا عرصہ 1443 سے 1447 تک ترک خلافت کا حصہ اور وفادار رہا لیکن بعد میں باغی ہوگیا اور پھر البانیہ اور مقدونیہ کی ریاست پر قابض ہوکر مرتے دم تک وہاں حکومت کرتا رہا۔

اس کی تاریخ خاصی دلچسپ اور لمبی ہے پر مختصر یہ کہ یہ اولین صلیبی دستوں میں بطور سپہ سالار رہا اور پوپ کے جھنڈے تلے مسلمانوں سے جنگیں لڑی اور خاصا نقصان پہنچایا۔

6-Charles Martel

ایک صلیبی حملہ آور نے اپنے اسلحے پر “چارلس مارٹل” Charles Martel کا نام بھی لکھا تھا جو دراصل فرانس کا کیتھولک حکمران تھا جس نے معرکہ بلاط الشہداء میں مسیحی افواج کی قیادت کی تھی اور مسلمانوں کو شکست دی تھی۔

7-Fourteen Words or 14#1488

فورٹین ورڈز, 14 یا 14/88 اس سلوگن کی طرف اشارہ کرتا ہے جو نسل پرستی کی عظیم اور نایاب مثال مانا جاتا ہے, جو کہ یہ ہے “We must secure the existence of our people and a future for white children,” جو عام طور پر ان الفاظ کے ساتھ خاصا مشہور ہے کہ “Because the beauty of the White Aryan woman must not perish from the earth.”

یہ نسلی تفاخر پر مبنی سلوگن دراصل ڈیوڈ لین کی اختراع تھی جو دنیا میں پہلی سفید فام دہشتگرد تنظیم Order کا بانی تھا۔

ڈیوڈ لین سفید فام متشدد صلیبیوں میں بہت عزت اور احترام رکھتا ہے آج کی تاریخ تک اور اس کا 14 ورڈ پریس مقولہ خاصا اہمیت اور شہرت رکھتا ہے Ku Klax Klan اور اس کی ذیلی سفید فام اور نسل پرست تنظیموں میں۔

8-Clavijo 844AD

ہسپانوی تاریخ میں Clavijo 844AD کو بہت اہمیت حاصل ہے, یہ وہاں کے کلچر میں مکمل داستان کی صورت اہمیت رکھتا ہے جس کا مرکزی نکتہ یہی ہے کہ یہ ایک مذہبی جنگ تھی صلیبیوں اور مسلمانوں کے مابین جس میں ظاہر سی بات ہے کہ صلیبی کامیاب اور مسلمان بدترین ہار کا شکار ہوئے۔ اس جنگ کا زمانہ 844 درج ہے پر اس کی حقیقت خاصی ڈرامیٹک ہے جس وجہ سے اس کو ماورائی جنگ بھی کہا جاتا ہے۔
9-Bragadine

صلیبی جنگجوؤں نے حو لباس زیب تن کرکے مسلمانوں کے خلاف سبھی صلیبی جنگیں لڑیں وہ Bragadine کہلاتا ہے جس کی تیاری میں دھات اور کپڑے کا استعمال ہوتا تھا اور جو بظاہر محفوظ ذرہ بکتر لگتی تھی, یہ لباس عیسائی عوام میں عزت و احترام رکھتا تھا کہ اسے مذہبی جنونی المعروف صلیبی زیب تن کرتے تھے۔

اور یہ وینس کے ایک صلیبی فوجی کا بھی نام ہے۔

10-Palayur Church

ایک حملہ آور کی میگزین پر درج یہ نام Palayur Church بھی بہت دلچسپ تاریخ رکھتا ہے, عیسائی مورخین دعوہ کرتے ہیں کہ یہ 52 عیسویں صدی میں ایک سینٹ تھامس نے کیرالہ جنوبی ہند میں لمبے سفر کے بعد پہنچ کر خود بنائی تاکہ عیسائیت کی تبلیغ دور دراز علاقوں تک پہنچ سکے۔

11-Vienna 1683AD

ایک حملہ آور نے اپنی بندوق کے میگزین پر ویانا 1683 بھی لکھا تھا, اس نے دراصل جنگ ویانا کا حوالہ دیا تھا۔

1683ء میں یہ صلیبی جنگ خلاف عثمانیہ اور صلیبی اتحاد کے درمیان ہوئی۔ سلطنت عثمانیہ کے دسویں عظیم فرمانروا سلیمان عالیشان کے دور میں مسلمان فوج نے 1529 میں آسٹریا کے دار الحکومت ویانا کا محاصرہ کرلیا۔

موسم، راستوں کی خرابی اور رسد کی کمی کی وجہ سے محاصرہ بے نتیجہ رہا اور سلطان کو واپس آنا پڑا لیکن یورپ کے وسط تک مسلمانوں کے قدم پہنچنے کے باعث ان کی اہل یورپ پر بڑی دھاک بیٹھ گئی۔

ویانا کا دوسرا محاصرہ 1683ء میں سلطان محمد چہارم کے دور میں ہوا جس کی قیادت ترک صدر اعظم قرہ مصطفٰی پاشا نے کی۔

دوسرے محاصرے میں مسلمانوں کو قرہ مصطفٰی پاشا کی نااہلی کے باعث جنگ میں بدترین شکست ہوئی۔ اس شکست کے ساتھ ہی وسطی یورپ میں ان کی پیش قدمی ہمیشہ کے لیے رک گئی بلکہ یہ سلطنت عثمانیہ کے زوال کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوا۔

12-Acre 1189AD

وادی عکرہ یا عکہ اور صلیبیوں کی شدید پٹائی کا ذکر تو تاریخ میں جب تک درج ہے ان کی تکلیف اسی طرح نکلتی رہے گی, جی ہاں آج والے دہشتگردی کے واقعہ میں صلیبی اس تکلیف کا ازالہ کرنے ہی آئے تھے لہذا اپنے اسلحے پر اسے بھی درج کیا اور مسلمانوں کو پیغام دیا کہ جو حشر صلاح الدین ایوبی نے ہمارا کیا وہ اب   ہم  تمہارا کریں گے ۔

بیشک ہم بھول گئے پر وہ نہیں بھولے کہتے ہیں کہ یہ وہ جنگ تھی جو صلیبیوں نے خود چھیڑی تھی مسلمانوں کے خلاف مطلب ایوبی کے خلاف فیصلہ کن محاذ سمجھ کر اور یہیں ان کی بدترین ہار ان کے گلے لگی اور یروشلم ہاتھ سے نکلنے کا جواز بنا۔

اس کی تفصیل آپ کو داستان ایمان فروشوں کی میں پڑھنے کو مل جائے گی۔

13-Sigismund

یہ وہ کردار ہے پندرہویں صدی میں سامنے آیا جس کی تاریخ میں دو مسیح مسالک کی جنگ درج ہے جس میں اس نے خاصا اہم کردار ادا کیا تھا جنگ میں کیتھولک عیسائی مسلک کی جانب سے, مزید جاننا ہو تو تحقیق کرلیں پر یہ عیسائیت میں ایک ہیروئیک کردار کے طور پر جانا جاتا ہے تبھی آج والے صلیبی دہشتگردوں نے اس کا نام بھی درج کیا اسلحے پر۔

14-Feliks Kazimierz “Szczęsny” Potocki

یہ کردار بھی ویانا والی جنگی مہم میں موجود تھا اور اس کی دھاک تبھی بیٹھی عیسائی عوام میں جب متحدہ صلیبی افواج نے ترک افواج کو دھکیلا اور سامنا کیا۔

وہ مشہوری یورپی شاہی قبیلے پوٹوکی کا چشم وچراغ تھا اور کٹر صلیبی اور سفید فام تھا اس لیئے آج تک صلیبی انتہا  پسندوں کا چہیتا ہے۔

15-Marcantonio Colonna

ایک اور صلیبی حملہ آور نے جیکٹ پر Marcantonio Colonna لکھاتھا۔یہ بھی اطالوی بحری فوج کا کمانڈر تھا جس نے جنگ لیپانٹو میں حصہ لیا تھا اور اس جنگ سے خاصا مشہور ہوکر صلیبیوں کا تاحیات ہیرو بن گیا۔

16-Sebastiano Venier

ایک اور صلیبی حملہ آور نے اپنی بلٹ پروف جیکٹ پر دوسری عبارت لکھی ’sebastiano venier‘۔

“سباستیانو وینئر” اطالوی کمانڈر تھا جس نے مسلمانوں کے خلاف جنگ لیپانٹو میں اطالوی دستے کی قیادت کی تھی۔

جنگ لیپانٹو 7 اکتوبر 1571ء کو یورپ کے مسیحی ممالک کے اتحاد اور خلافت عثمانیہ کے درمیان لڑی جانے والی ایک بحری جنگ تھی جس میں مسیحی اتحادی افواج کو کامیابی نصیب ہوئی۔

مسیحی فوج میں اسپین، جمہوریہ وینس، پاپائی ریاستیں، جینوا، ڈچی آف سیوائے اور مالٹا کے بحری بیڑے شامل تھے۔

یہ معرکہ یونان کے مغربی حصے میں خلیج پطرس میں پیش آیا جہاں عثمانی افواج کا ٹکراؤ عیسائی اتحاد کے بحری بیڑے سے ہوا جس میں مسلمانوں کو شکست ہوئی۔

یہ بھی دنیا کی فیصلہ کن ترین جنگوں میں سے ایک ہے۔ یہ 15 ویں صدی کے بعد کسی بھی بڑی بحری جنگ میں عثمانیوں کی پہلی اور بہت بڑی شکست تھی جس میں عثمانی اپنے تقریباً پورے بحری بیڑے سے محروم ہو گئے۔

اس جنگ میں ترکوں کے 80 جہاز تباہ ہوئے اور 130 عیسائیوں کے قبضے میں چلے گئے جبکہ 15 ہزار ترک شہید، زخمی اور گرفتار ہوئے اس کے مقابلے میں 8 ہزار اتحادی ہلاک اور ان کے 17 جہاز تباہ ہوئے۔

الغرض یہ درج نام, عبارتیں اور تاریخیں چیخ چیخ کر دنیا کو باور کروارہی ہیں کہ دہشتگردی کا کوئی مخصوص مذہب نہیں ہوتا اور دنیا واقعی دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے تو اس میں سبھی طرح کے متشدد اور انتہا پسند گروپس کے خلاف یکساں کاروائی کرے ورنہ صرف مسلمانوں کی نسل کشی کرنی اور ان کا مستقبل تاریک کرنا ہے تو باقاعدہ صلیبی جنگوں کا اعلان کرے اپنے پرکھوں کی طرح تاکہ ہمیں بھی پتا  ہو کے ہم نے مرنا ہے یا مارنا ہے۔

تفصیل تو ابھی میں اور بھی بتاتا لیکن تحریر کی طوالت کو محسوس کرکے اسی پر اکتفاء کررہا ہوں اور جاتے جاتے بتاتا چلوں کہ جو جو اس صلیبی دہشتگردی کو جائز قرار دینے کا جواز مسلم فوبیا بیان کریں گے یا کر رہے ہیں وہ درپردہ خفیہ معاشرے اور نسل پرست و متشدد مذہبی تنظیم کے رکن ہیں۔

مسلمانوں کو کتنی تکلیف ہوئی اس کا اندازہ او آئی سی کی پراسرار خاموشی سے ہوگیا۔

اور یہ جملہ کہ “چلو پارٹی شروع کریں” ہماری اوقات بتا اور سمجھا گیا اگر سمجھیں تو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ ہم پر رحم فرمائے اور ہدایت سے سرفراز کرے۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply