علامہ اقبال کا افلاطون پر تبرّا / حمزہ ابراہیم

ملاصدرا کی فکر کا جائزہ لیتے ہوئے صوفیوں کے گُرو افلاطون پر‌ علامہ اقبال کی تنقید کو پڑھ لینا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ ملا صدرا کا اصالتِ وجود کا تصور افلاطون کے اصالتِ اعیان کا ہی تسلسل ہے، جو کہ چھپا ہوا سفسطہ ہے۔ اقبال اسرارِ خودی میں افلاطون پر کڑی گرفت کرتے ہیں۔ جسٹس شیخ عبدالرحمٰن نے ترجمانِ اسرار کے عنوان سے اسرارِ خودی کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ یہاں اقبال کے فارسی اشعار ان کے منظوم اردو ترجمہ کے ساتھ پیش کئے جا رہے ہیں۔

علامہ اقبال کے اشعار

در معنی اینکہ افلاطونِ یونانی کہ تصوف و ادبیاتِ اقوامِ اسلامیہ از افکار او اثر عظیم پذیرفتہ بر مسلکِ گوسفندی رفتہ است و از تخیلاتِ او احتراز واجب است

ترجمہ: اس بات کی وضاحت کہ یونانی مفکر افلاطون، جس کے افکار کا تصوف اور مسلم ادب پر گہرا اثر پڑا ہے، بھیڑ بکریوں کے مسلک پر تھا اور اس کے خیالات سے بچنا ضروری ہے۔

راہبِ دیرینہ افلاطون حکیم

از گروہ گوسفندان قدیم

ترجمہ: وہ افلاطون، وہ دیرینہ راہب، فلسفی پہلا

ہے دنیا کے پرانے گوسفندوں میں شمار اس کا

رخش او در ظلمت معقول گم

در کہستان وجود افکنده سم

ترجمہ: ہوا رہوار اسکا فلسفہ کی ظلمتوں میں گم

نہ کوہستانِ ہستی میں جمے اس کے کہیں پر سُم

آنچنان افسون نامحسوس خورد

اعتبار از دست و چشم و گوش برد

ترجمہ: کیا یوں سر پہ نامحسوس کا جادو سوار اس نے

کہ چھینا ہاتھ، کان اور آنکھ سے سب اعتبار اس نے

گفت سر زندگی در مردن است

شمع را صد جلوہ از افسردن است

ترجمہ: کہا اس نے کہ رازِ زندگی مرنے میں پنہاں ہے

جو گُل ہو شمع، حاصل اس کو سو جلووں کا ساماں ہے

بر تخیلہای ما فرمان رواست

جام او خواب آور و گیتی رباست

ترجمہ: تخیل پر ہمارے حکمراں ہے آب و تاب اس کی

سلا کر دور کر دیتی ہے دنیا سے شراب اس کی

گوسفندی در لباس آدم است

حکم او بر جان صوفی محکم است

ترجمہ: نہیں تھا آدمی کے بھیس میں اک بھیڑ سے بڑھ کر

مسلط ہیں مگر افکار اس کے قلبِ صوفی پر

عقل خود را بر سر گردون رساند

عالم اسباب را افسانہ خواند

ترجمہ: لگا کر عقل کے پر وہ فلک پر اڑتا رہتا تھا

مگر اس عالمِ اسباب کو افسانہ کہتا تھا

کار او تحلیل اجزای حیات

قطع شاخ سرو رعنای حیات

ترجمہ: تباہی اسکی حکمت سے ہوئی ہستی کے اجزاء کی

قلم کی شاخ اس نے زندگی کے سروِ رعنا کی

فکرِ افلاطون زیان را سود گفت

حکمت او بود را نابود گفت

ترجمہ: دکھایا فکر نے اس کی زیاں کو سود کی صورت

دی اس کے فلسفہ نے بود کو نابود کی صورت

فطرتش خوابید و خوابی آفرید

چشم ہوش او سرابی آفرید

ترجمہ: ہوئی خوابیدہ فطرت اس کی، خواب اک ہو گیا پیدا

جو کھولی چشم ہوش اس نے، سراب اک ہو گیا پیدا

بسکہ از ذوق عمل محروم بود

جان او وارفتہ ی معدوم بود

ترجمہ: رہی نا آشنا ذوقِ عمل سے اس کی کجرائی

بنا وہ بے حقیقت شے کا جان و دل سے شیدائی

منکر ہنگامہ ی موجود گشت

خالق اعیان نامشہود گشت

ترجمہ: بتایا واہمہ تخئیل کا موجود کو اس نے

حقیقت بخش دی اعیانِ نامشہود کو اس نے

زندہ جان را عالم امکان خوش است

مردہ دل را عالم اعیان خوش است

ترجمہ: جو زندہ دل ہیں، ان کو عالمِ امکان ہی اچھا ہے

جو مردہ دل ہیں ان کو عالم اعیان ہی اچھا ہے

آہوش بی بہرہ از لطف خرام

لذت رفتار بر کبکش حرام

ترجمہ: خرامِ ناز کی اس کے غزالوں میں نہیں قدرت

حرام اس کے چکوروں پر ہوئی رفتار کی لذت

شبنمش از طاقت رم بی نصیب

طایرش را سینہ از دم بی نصیب

ترجمہ: کہیں ہے رم کی طاقت اسکی شبنم کے نصیبے میں

وہ طائر اس کا ہے، باقی نہیں دم جس کے سینے میں

ذوق روئیدن ندارد دانہ اش

از طپیدن بی خبر پروانہ اش

ترجمہ: جسے کچھ ذوق اگنے کا نہیں وہ دانہ ہے اس کا

تڑپنے کے مزے سے بےخبر پروانہ ہے اس کا

راہب ما چارہ غیر از رم نداشت

طاقت غوغای این عالم نداشت

ترجمہ: جہاں کے شور و غوغا سے سراسیمہ ہوا ایسا

سواۓ بھاگ جانے کے نہ اس راہب کو کچھ سوجھا

دل بسوز شعلہ ی افسردہ بست

نقش آن دنیای افیون خوردہ بست

ترجمہ: ہوا افسردہ شعلے سے حرارت کا تمنائی

اسے افیون کی پروردہ اک دنیا پسند آئی

از نشیمن سوی گردون پر گشود

باز سوی آشیان نامد فرود

ترجمہ: نشیمن سے اڑا بے باک ہو کر آسمان تک وہ

مگر پھر لوٹ کر آیا نہ ہرگز آشیاں تک وہ

در خم گردون خیال او گم است

من ندانم درد یا خشت خم است

ترجمہ: خمِ گردوں میں جا کر ہو گیا فکر اس کا آخر گم

نہیں معلوم کیا کہئے، وہ تلچھٹ ہے کہ خشتِ خم

قومہا از سکر او مسموم گشت

خفت و از ذوق عمل محروم گشت

ترجمہ: ہوئیں مسموم اس کی فکر سے اقوام عالم کی

عمل کا ذوق کھو بیٹھیں، ہوئیں نیندوں کی وہ ماتی!

علامہ اقبال کا حاشیہ

”منکر ہنگامہ ی موجود گشت“ پر حاشیہ لگاتے ہوئے اقبال لکھتے ہیں: اس شعر میں افلاطون کے مشہور مسئلۂ اعیان کی طرف اشارہ ہے، جس پر ارسطو نے نہایت عمدہ تنقید کی ہے۔ افسوس ہے کہ اس مسئلے کی توضیح اس جگہ نا ممکن ہے۔ فارابی نے الجمع بین الرائین میں ارسطو اور افلاطون کو ہم خیال ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جو میرے نزدیک ناکام رہی ہے۔ ملا ہادی سبزواری نے، جو حال کے ایرانی حکماء میں سے ہیں، اپنی کتاب اسرارالحکم میں زیادہ تر افلاطون کا تتبع کیا ہے۔ عربی اور فارسی جاننےوالے ناظرین ان کتب کی طرف توجہ کریں۔ انگریزی والوں کو فلسفۂ مغرب کی کسی انگریزی تاریخ سے ان مسائل کی حقیقت مختصر طور پر معلوم ہو  جائیگی۔

ملا صدرا اور افلاطون کا دفاع

ملا صدرا نے اپنی کتاب اسفار اربعہ میں متعدد مقامات پر افلاطون کا ذکر کیا ہے۔ جہاں ارسطو نےافلاطون  پر تنقید کی وہاں ملا صدرا افلاطون کی حمایت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پراصالتِ اعیان کے مسئلے پر فلوطین کی کتاب اثولوجیا سے افلاطون کا دفاع کرتے ہیں:

و إما لشوب‌ حبہ للرئاسۃ اللازم عن معاشرۃ الخلق و خلطہ الملوک و السلاطین و إلا فکتابہ المعروف بأثولوجہا یشہد بأن مذہبہ وافق مذہب أستادہ فی باب وجود المثل العقلیۃ للأنواع و الصور المجردۃ النوریۃ القائمۃ بذواتہا فی عالم الابداع. (اسفار اربعہ، جلد 2، صفحہ 64، بیروت۔)

ترجمہ: ”ارسطو اس مسلک کی تردید محض حبِ جاہ کی بنیاد پر کرتا تھا۔ اور عام لوگوں سے میل جول رکھنے، بادشاہوں اور سلاطین کی صحبتوں میں آنے جانے کے یہ لازمی نتائج ہیں۔ ورنہ ارسطو کی کتاب اثولوجیا کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مذہب بھی اس باب میں وہی تھا جو اس کے استاد کا تھا۔ وہ بھی انواع کے لیے مثلِ عقلیہ اور ایسی مجرد نوری صورتوں کا قائل تھا، جن کا قیام بذاتِ خود عالم ِابداع میں ہے۔“ (فلسفۂ ملا صدرا، ترجمہ اسفار اربعہ، صفحہ 341، حق پبلیکیشنز، لاہور، 2018ء۔)

یہ بھی پڑھئے: مُلا صدرا کی فکر میں کچھ بنیادی خامیاں / حمزہ ابراہیم

 عقل پر تقدس کے پردے

ملا ہادی سبزواری بھی ارسطو کے مخالف تھے۔ لیکن  ملاصدرا کی اس عبارت کو ارسطو کی شان میں گستاخی سمجھتے ہیں اور حاشیے میں  غلو پر مبنی فضائل لکھتے ہوئے اسے نبی قرار دیتے ہیں اور  کہتے ہیں کہ حبِ جاہ وغیرہ ارسطو سے بعید ہیں:

ہذا بعید عن ساحۃ المعلم الأول الذی أنوار العلوم الحقیقیۃ منتشرۃ فی العالم بہ و بأمثالہ من العلماء باللہ و الحکماء الأفاضل و بکدہم و بجہدہم و قد ورد فیہ أنہ کان نبیا جہلہ أہل زمانہ و الذی خالطہ من الملوک کأسکندر کان من الملوک الأفاضل أولی الرئاستین. ( اسفار اربعہ، جلد 2، صفحہ  64، بیروت۔)

جہاں تک نبوت کا تعلق ہے تو فلوطین، جس کی کتاب اثولوجیا کو یہ ارسطو کی کتاب سمجھتے تھے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دو سو سال بعد مصر میں پیدا ہوا اور ان پر ایمان نہیں لایا تھا۔ یہ زمانۂ  فترت کا فرد ہے، اسے  کس بنیاد پر  نبی کہا جا سکتا ہے؟

یہ بھی پڑھئے: مسلم فلسفہ کی بوسیدگی: ملا ہادی سبزواری اور کیمرے کا واقعہ 

مسلم فلاسفہ کے ہاں متقدمین کو نبی اور متاخرین کو امام بنانے کی روایت درست نہیں۔ یہ اندھی عقیدت ہے جو عقل کو ناکارہ بنا دیتی ہے۔ یہی بیماری یونانیوں کی تقلیدِ محض کا سبب بنی اور مسلمان فلسفی جدید علوم کو نہ اپنا سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مسلم معاشروں میں ایسے توہمات کے مارے افراد کو معقولات کا ماہر کہنا بجائے خود ایک المیہ ہے۔ چنانچہ کئی صدیوں سے مسلم معاشروں میں اَن پڑھ لوگوں میں عقلِ سلیم (common•sense) نام نہاد علمائے معقول سے زیادہ ہے۔

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”علامہ اقبال کا افلاطون پر تبرّا / حمزہ ابراہیم

  1. صحیفۂ سجادیہ ؑ میں مثلِ افلاطونیہ کے تصور کے خلاف آیا ہے کہ:

    أَنْتَ اَللَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ، اَلَّذِي أَنْشَأْتَ اَلْأَشْيَاءَ مِنْ غَيْرِ سِنْخٍ، وَ صَوَّرْتَ مَا صَوَّرْتَ مِنْ غَيْرِ مِثَالٍ، وَ اِبْتَدَعْتَ اَلْمُبْتَدَعَاتِ بِلاَ اِحْتِذَاءٍ○

    ترجمہ: ”تو ہی وہ اللہ ہے کہ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ جس نے بغیر مواد کے تمام چیزوں کو پیدا کیا اور بغیر کسی نمونہ و مثال کے صورتوں کی نقش آرائی کی اور بغیر کسی کی پیروی کئے موجودات کو خلعتِ وجود بخشا۔“

    حوالہ: صحیفۂ سجادیہ ؑ کاملہ، دعائے یوم عرفہ، مترجم: مفتی جعفر حسین، صفحہ 350، امامیہ پبلیکیشنز پاکستان، 1998ء۔

Leave a Reply