مُلا صدرا کی فکر میں کچھ بنیادی خامیاں / حمزہ ابراہیم

ملا صدرا (متوفیٰ 1640ء) کے افکار پر تنقید کے سلسلے میں یہاں ان کی فکر کے کچھ مزید نمونے پیش کرنے ہیں۔ اس کا مقصد یہ نہیں کہ ہم ان کو بُرا بھلا کہیں۔ ان کا زمانہ چلا گیا ہے۔ ان کے فکری انحراف کو سمجھنا صرف اس لیے ضروری ہے تاکہ ہم آج کے دور میں وہ غلطیاں نہ دہرائیں اور نوجوان نسل کسی پروپیگنڈے کی زد میں آ کر اس بھوسے سے سونا تلاش کرنے پر اپنی قیمتی زندگی ضائع نہ کرے۔ البتہ جن سفید ریش بزرگوں کی معاش صدرائی گپ  کی ترویج سے وابستہ ہو گئی ہے، ان سے بحث و مباحثہ کرنے کے بجائے اظہارِ ہمدردی کیا جانا چاہئیے کیوں کہ اب وہ عمر کے اس حصے میں ہیں کہ کوئی مفید کام سیکھنا ان کیلئے مشکل ہے۔ ملا صدرا کے معروف ناول، اسفارِ اربعہ، کے پہلے حصے کا اردو ترجمہ 2018ء میں حق پبلیکیشنز نے لاہور سے ”فلسفہٴ ملا صدرا“ کے عنوان سے شائع کیا ہے اور وہ بیروت کی نو جلدی چھاپ کی پہلی تین جلدوں کا احاطہ کرتا ہے۔ [1] یہاں اس کا حوالہ صفحہ نمبر کے ساتھ شامل کیاجا رہا ہے۔ باقی حوالے علیحدہ درج کئے جائیں گے۔

1.     یونانی سلفیت

ملا صدرا نے کبھی اپنے فلسفے کو اسلامی فلسفہ نہیں کہا۔ واضح ہے کہ فلسفہ انسانی فکر کا نتیجہ ہوتا ہے اور کسی مذہب کو کسی فلسفے کا پابند نہیں کیا جا سکتا، نہ کسی مذہب کو ہتھیار بنا کر کسی فلسفے سے اختلاف رکھنے والوں پر تکفیر کی تلوار چلائی جا سکتی ہے۔ البتہ وہ مصر کے شہر سکندریہ میں فلوطین(Plotinus،متوفیٰ 270ء) کے بعد سامنے آنے والے نوفلاطونی مکتب فکر کے ترجمان سمجھے جا سکتے ہیں۔ملا صدرا پر یونانیوں کا گہرا اثر تھا، وہ جگہ جگہ ان کو اولیائے الٰہی قرار دیتے ہیں۔ اسلئے وہ ان کی غلطیاں پکڑنے جیسی توہین کیسے کر سکتے تھے؟ وہ اگر کسی بات سے متفق نہیں ہوتے تو وہاں بھی یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ کسی نے بعد میں غلطی سے منسوب کی ہو گی (فلسفۂ ملا صدرا ، صفحات 142، 477)۔ ملا صدرا کی کتاب مفاتیح الغیب میں یونانی دیہاتی بابوں کو بڑی مبالغہ آمیزی کے ساتھ سلامِ عقیدت پیش کیا گیاہے۔ [2] یوں وہ ایک طرح سے یونانی اخباری ہیں، یعنی یونانی اخبارکومقدس الہام سمجھ کر اپنی عقل کو ان سے باہر نہیں نکلنے دیتے۔اسی دماغی تالے کی وجہ سے صدرائی فرقے میں مصری سلفیوں کی سی شدت پسندی اور اخوان المسلمون سے نظریاتی قربت پائی جاتی ہے۔[3]

2.     قاعدۃ الواحد

ملا صدرا فرماتے ہیں: ”واحد سے بجز واحد کے اور کوئی چیز صادر نہیں ہو سکتی، یعنی ایک سے ایک ہی پیدا ہو سکتا ہے “ (”فلسفہٴ ملا صدرا، صفحہ 527)۔

یہ بظاہر سادہ سا مغالطہ ملا صدرا کے لیے بہت اہم ہے اور اس کا ذکر وہ اپنے ناول میں بار بار کرتے ہیں، اور اس کے بعد لفظی طومار باندھتے ہیں۔ یہ مغالطہ بھی یونانیوں سے لیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات کوئی واقعیت نہیں رکھتی۔بعض اوقات ایک ہی خلیے سے(monozygotic) جڑواں بچے پیدا ہوتے ہیں جو شکل و صورت میں ہو بہو ایک سے ہوتے ہیں۔ اب اگر اس خلیے کا جوہر ایک تھا، تو دو جوہر بن گئے، نفس ایک تھا تو دو نفوس نکلے۔ اس سے بڑھ کر بارہویں جماعت کی سائنس میں روشنی کے بسیط ذرے سے دو مادی ذرات کا بننا بھی پڑھایا جاتا ہے۔ اسے (pair∙production) کہتے ہیں۔ملا صدرا کے بہت سے مغالطوں کو آپ بارہویں جماعت کی سائنس کی کتابوں سے بھی حل کر سکتے ہیں جو بازار میں آسانی سے دستیاب ہیں۔

یونانی روایت میں خدا کو صرف ایک معلول کی علت کہنے کے تصور کی شاید یہ بنیاد تھی کہ وہ مختلف کاموں کیلئے مختلف خداؤں کے قائل تھے۔ ان کے فلسفے میں زیوس، اپولو، ایریز، الیکٹرا وغیرہ ایک ایک مظہرِ فطرت کی لگام تھامے ہوئے تھے۔ البتہ جب سکندر نے مصر فتح کیا اور وہاں یونانی فلسفے کا انضمام ہندوستانی تصوف سے ہوا جو وحدت الوجود کا قائل تھا تو فلوطین کے زمانے سے قاعدۃ الواحد کی بنیاد پر عقولِ عشرہ کی داستان ترتیب پانے لگی۔ جدید علوم سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ عقل صرف انہی زندہ چیزوں میں ہو سکتی ہے جن میں معلومات کو اکٹھا کرنے اور ان کو استعمال کرنے کا نظام (nervous∙system) موجود ہو اور ایسا سورج، زحل یا نیپچون وغیرہ میں نہیں ہے۔

دوسری طرف شیعہ احادیث میں ایسی روایات پائی جاتی ہیں جو متکلمین کیلئے ایسے علت سے معلول کے تولد جیسے تصورِ تخلیق کو ماننا مشکل بناتی ہیں، لہٰذا ملا صدرا کو دینی حلقوں میں زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی۔ مثال کے طور پر شیخ صدوق کی کتابِ توحید میں آیا ہے کہ امام علی زین العابدینؑ نے فرمایا:

”خدا جانتا تھا کہ آخری زمانے کے لوگوں میں گہری کھوج کے شوقین گروہ ہوں گے لہٰذا اس نے سورۂ توحید اور سورۂ حدیدمیں وَهُوَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ تک کی آیات نازل کیں۔ پس جو ان سے باہر نکلا وہ ہلاک ہو گا۔“[4]

چنانچہ معروف شیعہ متکلم اور مرجع آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی (متوفیٰ 2022ء) فرماتے ہیں:

”فلاسفہ نے حادث و قدیم کے تعلق کو مخلوق و خالق کے بجائے معلول و علت کے تعلق کی طرح قرار دیا، جبکہ ان میں واضح فرق ہے۔ کہاں خالق و مخلوق اور کہاں علت و معلول؟ دوسری اصطلاح سے وہ مفہوم نہیں نکلتا جو پہلی اصطلاح سے سمجھ میں آتا ہے، جو دوسری کا مطلب ہے وہ پہلی کا نہیں ہے۔ دونوں راستے ایک نہیں اور نہ ہی ایک مقصد تک پہنچاتے ہیں۔ علت پہلی، دوسری، ۔ ۔ہو سکتی ہے لیکن خالق پہلا، دوسرا اور تیسرا نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح معلول بھی پہلا، دوسرا، تیسرا ۔ ۔ ۔ ہو سکتا ہے لیکن مخلوق میں ایسا اول، دوم، سوم کا سلسلہ نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بعض احادیث میں”اول ما خلق اللہ نوری“ آیا ہے، لیکن اس سے مراد وہ نہیں کہ جیسے پہلے معلول کو دوسرے کی علت، اور دوسرے کو تیسرے کی علت سمجھا جائے ویسے ہی پہلی مخلوق دوسری کی خالق ہو۔ سب مخلوقات، چاہے کچھ پہلے خلق ہوئی ہوں اور کچھ بعد میں، انکا خالق ایک ہی ہے اور سب کو اسی ایک سے خلقت کی نسبت ہے۔ یہ ایسا تعلق نہیں جیسے معلولِ ثانی جو کہ علتِ ثالثہ ہو وہ معلولِ اول و علتِ ثانیہ کا معلول ہو۔“[5]

3.     اعادہ معدوم کا محال ہونا

فلسفۂ ملا صدرا کے صفحہ 238پر ایک فصل قائم کرتے ہیں جس کا عنوان ہے: ”معدوم کا اعادہ ناجائز ہے“۔ اس پر کئی صفحات میں بحث کرتے ہیں۔  ملا صدرا کے دلائل کی بنیاد اصالتِ وجود کا مغالطہ اور وقت کے بارے میں ان کے تصوارت ہیں۔ لیکن نہ تو وجود کو اصالت حاصل ہے نہ وقت مطلق حیثیت رکھتا ہے۔ وجود اصل میں ماہیت کی ہی صفت ہوتی ہے۔ جب ہم کسی چیز کی ماہیت کا واقعیت میں تجربہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ وہ ہے۔ جب اس کے اجزا بکھر جاتے ہیں اور کسی دوسرے کل کا حصہ بن جاتے ہیں تو وہ وجود ختم ہو جاتا ہے اور نیا وجود بن جاتا ہے۔ وجود خود سے اصالت نہیں رکھتا، نہ علمِ حضوری کچھ ہوتا ہے۔[6] ہم پہلے چیزوں کے آثار کا تجربہ کرتے ہیں، پھر انکے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ بہت تیزی سے ہوتا ہے۔ آئن سٹائن کے نظریۂ نسبیت کے مطابق اس عمل کی تیزی کی حد روشنی کی رفتار ہے۔ چنانچہ اگر سورج معدوم ہو جائے تو اسکے عدم کے بارے میں زمین کے باسیوں کو آٹھ منٹ بعد پتا چلے گا۔آئن سٹائن کے کام نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ زمان و مکان اعتباری ہیں۔

چیزوں کے اجزاء کے بارے میں ایک اور اصول کی طرف متوجہ رہنا بھی ضروری ہے اور وہ یہ کہ ایٹموں اور مالیکیولز کی کوئی شناخت نہیں ہوتی۔ چنانچہ اگر ہم دریا سے ایک برتن میں پانی لے کر اسے بھاپ بنا کر اڑا دیں تو وہ ذرات دریا کے ذرات نہیں رہیں گے بلکہ ہوا کی شناخت اپنا لیں گے۔ اسی طرح جب ہمارے جسم سے کچھ ذرات نکل کر نئے ذرات داخل ہوتے ہیں تو ہمارے جسم کی شناخت تبدیل نہیں ہوتی کیونکہ نئے ذرات اپنے ساتھ کوئی شناخت نہیں لاتے۔ چھوٹے اجزا کی شناخت بدلتی رہتی ہے اور اس کے دلائل کوانٹم فزکس کی کتابوں میں جسیماتِ متماثلہ (identical∙particles) کے ابواب میں آئے ہیں۔ یہاں سے ہیراکلیٹس (Heraclitus) کے اس خیال کا بطلان بھی واضح ہو جاتا ہے کہ کوئی شخص کسی دریا میں دوبارہ پاؤں نہیں ڈال سکتا ۔ چنانچہ اگر کسی کا گدھا مر جائے اور اس کے جسم کا سارا مواد مٹی میں مل کر درخت کا حصہ بن جائے۔ پھر کچھ سالوں کے بعد کسی طرح انہی صفات والا گدھا پیدا کر لیا جائے تو یہ بعینٖہ وہی پہلے والا گدھا ہو گا۔

البتہ ملا صدرا کے لئے یونانی فلاسفہ کے ایسے خیالات کا کوئی فیصلہ کن رد ممکن نہ ہو سکا اور ملا صدرا یونانی اسلاف کے طریقے سےہٹنے کو تیار  بھی نہیں تھے۔ اسکانتیجہ یہ ہوا کہ وہ معادِ جسمانی کے منکر ہو گئے۔سادہ الفاظ میں ملا صدرا کا یہ ماننا ہے کہ مرنے کے بعد ہم ختم ہو جائیں گے اور دوبارہ  ہم خود نہیں اٹھیں گے بلکہ ہماری فوٹوکاپی (اصل سے بہتر نقل) کو جنت یا جہنم بھیجا جائے گا (صفحہ 245)۔لہٰذا اس مسئلے پر ان کا مذہب کے علماء سے اختلاف ہو گیا جو اسے قرآن و حدیث میں جسمِ عنصری کے اعادےکے شواہد کے خلاف سمجھتے تھے۔ یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ معدوم کے اعادے کو  اہلِ مکہ کے فلسفی جیسے عمرو بن ہشام، المعروف ابوجہل،وغیرہ  بھی نہیں مانتےتھے (سورہ بنی اسرائیل، آیت 49)۔ ان کے بارے بھی اغلب گمان یہی ہے کہ وہ فلوطین کے پیرو تھے کیونکہ یہی فلسفہ اس وقت کے مصر اور عرب کا غالب فلسفہ تھا۔ بہر حال ملا صدرا ان علمائے دین کے بارے میں صفحہ 246 پر یوں گل فشانی فرماتے ہیں:

”یہ لوگ فی الحقیقت صرف بدعت و گمراہی کے علمبردار ہیں، جہال اور کمینوں کے پیشوا ہیں۔ ان کی ساری شرارتیں محض اربابِ دین و تقویٰ کے ساتھ مخصوص ہیں اور علماء کو ہی نقصان اور ضرر پہنچاتے ہیں۔ ان کو سب سے زیادہ عداوت حکماء کے اس گروہ سے ہے جو ایمان والے ہیں اور فلاسفہ کی جماعت میں جو ربانی ہیں۔ یہ جھگڑے والوں کا وہ طائفہ ہے جو معقولات کے اندر گھسنا چاہتے ہیں حالانکہ ابھی تک انہوں نے محسوسات ہی کا علم حاصل نہیں کیا۔ یہ براہین و قیاسات کو استعمال کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ابھی ریاضیات کو بھی انہوں نے درست نہیں کیا ہے۔ یہ الہٰیات پر گفتگو کرنے کیلئے آمادہ ہو جاتے ہیں حالانکہ ابھی یہ طبیعات کے مسائل سے بھی ناواقف ہیں۔“[7]

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب جبکہ ملا صدرا کی طبیعات، یعنی مادہ، حرکت، فلک، زمان و مکان وغیرہ کے بارے میں ان کے خیالات باطل ثابت ہو چکے ہیں تو ان کی میٹا فزکس کیسے قابلِ اعتبار ہے؟ جو ترازو ملا صدرا اُس زمانے کے علماء کے لیے استعمال کر رہے تھے، اس میں ان کی اپنی فکر کو تولنے کا وقت آ گیا ہے۔ چنانچہ آیۃ اللہ جواد تہرانی (متوفیٰ 1989ء) لکھتے ہیں:

”میں جب قدیم فلسفے کو پڑھنے بیٹھا تو ان بزرگوں کی سبھی باتوں پر حسنِ ظن نہیں رکھتا تھا کیوں کہ اس سے پہلے جدید علوم کے ماہرین کے نظریات کی ان پرانے فلسفیوں کی طبیعات اور فلکیات کے مخالف ہونے کو اجمالی طور پر جان چکا تھا۔ ۔ ۔ میرے ذہن میں یہ بات کھٹکتی رہتی تھی کہ یہ لوگ، جو طبیعات میں غلط تھے، کیسے ممکن ہے کہ الہٰیات میں خطا سے پاک رہے ہوں؟ “[8]

آیۃ اللہ صافی گلپائگانی (متوفیٰ 2022ء)  فرماتے ہیں:

”ان حضرات نے اپنی تھیوریوں کی بنیاد پر مخلوقات کا فرضی نقشہ بنا رکھا تھا۔ اپنے گمان میں کائنات اور آسمانوں کے مقام کو متعین کر کے حادث و قدیم کا تعلق اور واحد سے کثیر کے صدور کی داستان تدوین کر لی تھی۔ گویا یہ ہر جگہ اور کائنات کے تحولات اور ادوار میں خدا کے ساتھ تھے۔ اس بنیاد پر مجردات اور عقول کی دنیاؤں کا افسانہ گھڑ کر خیالی سلسلے بنا بیٹھے تھے کہ جدید سائنس اور آرٹس کے آنے سے ان کا باطل ہونا پہلے سے زیادہ واضح ہو گیا۔ “[9]

4.     عللِ اربعہ

فلسفۂ ملا صدرا کے صفحہ 384 پر ایک باب شروع ہوتا ہے جس میں علت کی چار قسمیں بیان ہوئی ہیں: علتِ مادی، علتِ صوری، علتِ فاعلی اور علتِ غائی، اس کے بعد کئی صفحات پر فرضی گفتگو کرتے کرتے صفحہ 475 پرایک عجیب مخمصے میں گرفتار ہوتے ہیں۔ فرماتے ہیں:

”دی مقراطیس (Democritus، متوفیٰ 370 قبلِ مسیح) کا خیال ہے کہ عالم کا وجود محض اتفاق کا نتیجہ ہے۔ اور اس کی دلیل میں اس کی تقریر یہ تھی کہ عالم کے مبادی ایسے چھوٹے چھوٹے اجرام و ذرات ہیں جن کی ان کی سختی کی وجہ سے تقسیم نہیں ہو سکتی۔ اس کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ یہ ذرات اس خلاء اور فضا میں جو غیر محدود ہے، بکھرے ہوئے ہیں اور یہ کہ ان ذروں کی فطرت اور طبیعت تو واحد ہے لیکن ان کی شکلیں مختلف ہیں اور وہ ہمیشہ دائمی حرکت اور گردش کے ساتھ متحرک رہتے ہیں۔ اتفاقاًانہی ذرات کے کسی مجموعے کی دوسرے مجموعے سے مڈ بھیڑ ہو گئی اور ایک خاص شکل میں وہ اکٹھے ہو گئے۔ اسی سے عالم کی پیدائش ہوئی۔ عالم کے متعلق اگرچہ دی مقراطیس اسی خیال کا قائل تھا لیکن اسی کے ساتھ حیوانات و نباتات کی پیدائش کے متعلق وہ اتفاق کا مدعی نہیں تھا۔ انباذقلیس (Empedocles، متوفیٰ 434 قبلِ مسیح) یہ کہتا تھا کہ عنصری اجسام کی پیدائش تو اتفاق کے قانون کے تحت اس طرح ہوئی ہے کہ ذرات کے جس مجموعے میں باقی رہنے اور نسل بڑھانے کی صلاحیت تھی، وہ مجموعہ تو باقی رہ گیا اور اتفاقاً جن میں یہ صلاحیت پیدا نہ ہو سکی وہ باقی بھی نہ رہ سکے۔“

ظاہر ہے کہ یہ ظنی خیالات جدید زمانے میں دریافت ہونے والے ایٹم کے تصور اور نظریۂ ارتقاء سے بہت مختلف اور غلطیوں سے پُر ہیں۔ البتہ جدید علوم میں یہ سامنے آیا ہے کہ بعض مظاہر کی کوئی علت نہیں ہوتی، جیسے اتفاقات کی کوئی علتِ غائی نہیں ہوتی۔ اس کی ایک مثال پانی میں تیرتے ہوئے ذرے کی حرکت (brownian∙motion) کی ہے جس کی تفصیل انٹرنیٹ پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اسی طرح بعض مظاہر کی کوئی علتِ مادی نہیں ہوتی ہے۔ عللِ اربعہ کے تصور کا ہر معاملے میں اطلاق نہیں ہو سکتا۔ اب اتفاقات کو سمجھنے کیلئے ایک علیحدہ علم ترتیب پا چکا ہے جسے علمِ شماریات (statistics) کہتے ہیں۔ پاکستان کی تقریباً ہر بڑی یونیورسٹی میں اس مضمون کے لئے الگ شعبہ قائم ہے، جس میں ہر سال کئی طالب علم تعلیم حاصل کر کے معاشرے میں اہم ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ دلچسپی رکھنے والے لوگ وہاں جا کر لائبریری میں موجود کتب کو دیکھ سکتے ہیں۔ اس کی مدد سے بہت سے مسائل حل کئے جا رہے ہیں اور سائنس میں بھی یہ علم استعمال ہوتا ہے۔ البتہ ملا صدرا اتفاق کی سرے سے نفی کرتے ہیں اور ان اقوال کو ضعیف روایات قرار دیتے ہیں۔

5.     عورت دشمنی

خواتین سے ملا صدرا کو خاص چڑ ہے۔ سابقہ مضامین میں بتایا جا چکا ہے کہ وہ خواتین کو حیوانِ صامت سمجھتے ہیں اور نوخیز لڑکوں سے محبت کے فضائل بیان کرتے ہوئے خواتین سے عشق کو گھٹیا قوموں کا شیوا قرار دیتے ہیں۔[11] [10] یہاں اردو ترجمے سے کچھ مزید شواہد پیش کئے جا رہے ہیں۔ ہیولیٰ قدیم فلسفے کی ایک اصطلاح ہے جو اب مردود ہو چکی ہے اور اس کا واقعیت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ملا صدرا کے ناول میں غیض و غضب کا بھی نشانہ بنتی رہتی ہے۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ملا صدرا اس کی برائی کو ظاہر کرنے کیلئے اسے خواتین سے نسبت دیتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:

”ہیولیٰ اولیٰ خسّت و دناٴت کا سرچشمہ ہے اور برائیوں کے دائرے کا مرکزی نکتہ ہے۔ گویا اس کی صورت ایک کریہ المنظر بڑھیا کی سی ہے۔ اس کو نور اور روشنی سے قطعاً اس وقت تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا جب تک کہ صورت جسمیہ اور نوعیہ کے لباس کو یہ زیبِ تن نہ کر لے ۔“ (فلسفۂ ملا صدرا، صفحہ 329)

ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

”اس خاص صورت کے حصول کے بعد بھی باقی صورتوں کی خواہش اور ان کا اشتیاق ہیولیٰ میں پھر بھی باقی رہتا ہے۔ اس کی مثال ٹھیک اس عورت کی ہے جو ایک مرد سے ہم بستری سے سیر نہیں ہوتی، بلکہ اس میں مسلسل ایک کے بعد دوسرے مرد کی سوزش اور تڑپ پیدا ہوتی چلی جاتی ہے ۔“ (فلسفۂ ملا صدرا، صفحہ 466)

Advertisements
julia rana solicitors

کتاب میں اور بھی بہت کچھ ہے جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ زمین پر آگ جلنے کو آسمانوں میں ستاروں کے ٹکرانے کا نتیجہ قرار دیتے ہیں(صفحہ 484)۔ بیماریوں کو صفراء اور سوداٴ جیسی فرضی رطوبتوں اور مزاج کے فساد کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ غرض یہ کہ ایسی کتابوں میں کئی سال الجھے رہنا زندگی کے ضیا ع کے سوا کچھ نہیں ہے۔

حوالہ جات:

  1. ملا صدر الدین شیرازی، ”فلسفۂ ملا صدرا“، ترجمہ اسفار اربعہ از سید مناظر احسن گیلانی، حق پبلیکیشنز، لاہور، 2018ء۔
  2. ملاصدرا، مفاتیح الغیب ، صفحات 379و 380، انجمن اسلامی حکمت و فلسفہ ایران، تہران، 1984ء۔
  3. مصباح یزدی، ”نظریۂ سیاسی اسلام“، جلددوم، صفحہ 237، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، قم، 2022ء۔
  4. شیخ صدوق، ”کتاب التوحید“، باب 40، حدیث 2، صفحہ 283، دار المعرفہ، بیروت۔
  5. آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی، ”لمحاتٌ فی الکتاب والحدیث والمذہب“، جلد 3، صفحہ 389، قم، 2012ء۔
  6. حمزہ ابراہیم، ”اصالتِ ماہیت اور مکتبِ خراسان “، مکالمہ، 8 اکتوبر 2022ء۔
  7. ملا صدرا ،”اسفار اربعہ“،جلد 1 ، صفحہ 363،دار احیاء التراث العربی، بیروت۔
  8. آیۃ اللہ جواد تہرانی، ”عارف و صوفی چہ می گویند “، صفحہ 323،نشر آفاق، تہران، 2010ء۔
  9. آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی، ”شرح حدیث عرضِ دین حضرت عبدالعظیم حسنی“، صفحہ 107، قم، 2015ء۔
  10. حمزہ ابراہیم، ”مسلم فلسفہ اور نسل پرستی کی لعنت “، مکالمہ، 1 نومبر، 2022ء۔
  11. حمزہ ابراہیم، ”ہم جنس پسندی اور مُلا صدرا “، مکالمہ، 1 اکتوبر 2022ء۔

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”مُلا صدرا کی فکر میں کچھ بنیادی خامیاں / حمزہ ابراہیم

  1. شہرِ آشوب

    گزشتہ عہد گزرنے ہی میں نہیں آتا
    یہ حادثہ بھی لکھو معجزوں کے خانے میں
    جو رد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے
    وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں

    جون ایلیاء

  2. ملا صدرا فلوطین کی کتاب اثولوجیا کو ارسطو کی کتاب سمجھتے تھے، یہ چیز بھی انکے کشف و الہام کے فریب ہونے کا پردہ چاک کرتی ہے:

    ”ارسطو کی کتاب اثولوجیا کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مذہب بھی اس باب میں وہی تھا جو اس کے استاد کا تھا وہ بھی انواع کے لیے مثل عقلیہ اور ایسی مجرد نوری صورتوں کا قائل تھا، جن کا قیام بذات خود عالم ابداع میں ہے۔“ (1)

    حرکتِ جوہری کے مفروضے کو اثولوجیا سے ماخوذ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

    ”یونانی فلاسفہ کے استاد نے اپنی کتاب اثولوجیا، جس کے معنی حق شناسی کے ہیں، میں یہ لکھا ہے۔

    کسی قسم کا کوئی جرم (جسم) کیوں نہ ہو، مرکب ہو یا بسیط، وہ کسی طرح ثابت اور قائم نہیں رہ سکتا، اگر اس میں کوئی نفسانی (روحانی) قوت موجود نہ ہوگی اور یہ بات اس لیے ضروری ہے کہ اجرام کی طبیعت میں سیلانی کیفیت اور فنا پذیری داخل ہے، پس اگر سارا عالم صرف جرم ہی جرم ہو اور اس میں کوئی نفس (روح) اور کسی قسم کی حیات و زندگی نہ ہو، تو تمام چیزیں برباد و تباہ ہلاک و درہم برہم ہوکر رہ جائیں گی۔

    مذکورہ بالا عبارت میں تو اس کی بھی تصریح موجود ہے، کہ جسمانی طبیعت اس شخص کے نزدیک بھی ایک سیال جوہر ہے، اور اس بات کی بھی صراحت ہے کہ تمام اجسام خود اپنی ذات کی حیثیت سے تباہ و برباد ہونے والے ہیں اور عقلی ارواح باقی رہتے ہیں جیسا کہ میں پہلے بھی اشارہ کر چکا ہوں۔“
    آخر میں جسمانیۃ الحدوث و روحانیۃ البقاء والا مفروضہ مراد ہے، ملا صدرا کہنا چاہتے ہیں کہ وہ بھی انہوں نے فلوطین سے کشید کیا ہے۔
    حوالہ جات:
    1۔فلسفۂ ملا صدرا، صفحہ 341، حق پبلیکیشنز، لاہور، 2018ء۔
    2۔ فلسفۂ ملا صدرا، صفحہ 643، حق پبلیکیشنز، لاہور، 2018ء۔ و
    اسفار اربعہ (عربی)، جلد سوم، فصل 28، صفحہ 111، بیروت۔

Leave a Reply