سُریلی دُنیا کے باسی خطرے میں

سُریلی دُنیا کے باسی خطرے میں
جاویدخان
میں نے ہمیشہ ساون کو نرم او ردھیما محسوس کیا۔ساون کی دھیمی بارش ایک ایک پتی کو نہلاتی ہوئی زمین کے اندر تک اُتر جاتی ہے۔چیت کے سرکش بادلوں اور ساون کی پھُواروں میں بہت فرق ہے۔ساون کی بارش جیسے تیز شبنم ہوجِسے نباتاتی دُنیا کے حساس اور نازک وجود بخوشی قبول کرتے ہیں یہ رِم جھم اِن کی زندگی ہے اور حسن بھی۔ساون غصیلہ نہیں نرم رَو اور خمار آلودہوتاہے۔ہاں اک شکایت ساون سے آج بھی ہے کہ یہ حبس زدہ ہے۔سکول سے چھٹی والے دِن ڈور ڈنگروں کو کھُلی درمنیوں (سبزہ زار)میں چھوڑ کر تمام لنگوٹیے دوست کسی ایسی جگہ بیٹھ جاتے جہاں سب اپنے اپنے مویشیوں پر نظر رَکھ سکیں۔
نرم نرم بارش گرنے لگتی تو کوئی پروا نہ کرتا ،مویشی اور ہم برابر تر ہوتے رہتے۔اچانک پہاڑوں سے دھند اُٹھتی اور چاروں اطراف پھیل جاتی ۔گہری دُھند آوارگی کرتے کرتے پورے علاقے کو ڈھانپ لیتی۔یہاں تک کہ چند میڑ کے فاصلے پر بیٹھے شخص کی آواز ہی سنائی دیتی کچھ دکھائی نہ دیتا۔اس سفید راج کے سائے میں آلو بخارے اورخُوشبودار سیب چوری کرنے کا اپنا مزا تھا۔اَٹھکھیلیاں ہم بھی کرتے اور دُھند بھی۔فطرت ہمیشہ سے انسان دوست رہی ہے۔فطرت کامطالعہ عبادت ہے مگر اس میں خلل اَندازی گناہ کبیرہ۔ نذیر اکبرآبادی نے ساون پہ کئی نظمیں لکھی ہیں۔وڈزورتھ کو کُوکُو گہری دُھند میں کبھی نظر نہیں آیا صرف آواز سنائی دیتی تھی۔یورپ کاعظیم شاعر اس پرندے کا بن دیکھے دیوانہ ہوا۔میرے سامنے بُلبُل،فاختہ،پپیہ اور کئی دوسرے پرندے اب بھی سُر بکھیررہے ہیں۔ساون میں کُوکُو کی شرارتیں بڑھ جاتی ہیں۔وہ دوسرے پرندوں کے گھونسلوں سے انڈے اُٹھا لیتا ہے۔مگر اِس بار کُوکُو نے شرارتیں نہیں کیں،وہ گُم اور خاموش ہے۔بہت سے خُوش گُلو پرندے نظرنہیں آرہے۔بہارمُڑتے ہی وہ جابجا درختوں کی شاخوں پہ اور فضا میں اُڑتے چہکتے چہچہاتے نطر آتے تھے۔بچپن میں ہم اِن کے گُھو نسلوں کی تاک میں رہتے۔بعض اوقات دوستوں میں یہ بحث بھی ہوتی،تمھاری زمین میں چڑیوں نے اتنے گھونسلے نہیں بنائے میری میں زیادہ بناے ہیں۔
سرما کے سر د دِنوں میں بادل ہوں یاٹھنڈی دھوپ گِدھ بلندیوں پر تیرتے رہتے۔ہلکی ہلکی آواز نکالتے کہیں بھی مُردار جانور دیکھتے تو غول کے غول اُتر آتے۔گاے،بھینس جیسا جانور اورمِنٹوں میں چَٹ صفایا۔باقی بچی ہڈیوں کو کُتے اورگیڈر چبا لیتے نہ بدبونہ آلودگی نہ جراثیموں کا خطرہ۔یہ قدرت کے صفاکار تھے، اَب آسمان اِن سے خالی ہو چکا ہے فضا میں بڑھتی آلودگی نے انہیں لاعلاج وائرس لگا دیا۔اَب چوہا بھی مرجائے تو فطرت کا کوئی رضاکار اُسے سنبھالنے کے لیے موجود نہیں۔ندی نالے،بازار، گندگیوں سے اَٹ چُکے ہیں۔سبزہ زار گُم ہورہے ہیں۔ساون ،جو نرم بارش دیتا تھا اَب گَرجتا ہے اورسیلاب لاتاہے۔پہلے کبھی کبھار ہی لاتا تھا۔ساون کی بارش زمین میں رَچ بَس جاتی توزمین یہ پانی ذخیرہ کرلیتی پھر واپس اپنے نظا م کے تحت مُنتقل کرتی رہتی۔چشمے، جھرنے اورندیاں رواں رہتے تھے۔چرند پرند،انسان ِحیوان سبھی اُجلے پانی سے فیضیاب ہوتے تھے۔
واہبرنامی سانپ کے زہر سے سائنسدانوں نے کینسر کی ویکسین تیارکرنے کی نوید دی ہے۔اقبال نے گلہری کی زبان میں کہا تھا کہ قدرت کے کارخانے میں کوئی بھی چیز نکمی نہیں۔ کیڑے مکوڑے نامیاتی عمل (گلنے سڑنے)کے دوران بننے والے زہر کو مٹی سے چوس لیتے ہیں او ر پرندے ان کیڑوں کو کھا کر اس زہر کوہضم کرلیتے ہیں۔ یوں فصلیں زہر آلود ہونے سے بچ رہتی ہیں۔فطرت کی زنجیر سے ایک کڑا بھی گُم ہو جائے تو نظام اَعتدال میں نہیں رہتا۔مگراَب انسانی صناعی نے مصنوعی کھادوں کے ذریعے مٹی کی نَس نَس میں زہر بھر دیا ہے۔ساون کی پھواریں زمین کو سُتھر ا پانی ذخیرہ کرنے کے لیے سونپ دیتی تھیں۔مگر اب فضا و زمین دونوں آلودہ ہو چکے ہیں۔زمین میں صاف پانی نہیں زہریلا مائع اُترتا ہے۔چشمے اور جھرنے تک اس زہر سے آلودہ ہو رہے ہیں ۔
ساون رُت میں، میں اپنے کچے گھر کے برآمدے سے پار کھیتوں میں ایک پرندے کو بولتا دیکھا کرتا تھا۔سیاہ رنگ اور سفید دھاریوں والا یہ پنچھی بُلبُل کی صورت،مگراُس سے کافی بڑا تھا۔بر سوں گُزر گئے آنکھ اُس کی صُورت اورکان اُسکی سُریلی آواز کو ترس گئے۔ہمارے(تمام پہاڑی علاقہ) کچے گھروں کی بَلیوں میں چِڑیوں کے گھونسلے ہوتے تھے۔یہ سب چڑیاں ”گھر چڑیاں“ کہلاتیں۔یہ سب سحر خیز تھیں صُبح جاگنے کے لیے کسی اَلارم کی ضرورت نہ پڑتی بلکہ اُن کی آواز ہی اَلارم ہوتی۔ گرم دوپہروں میں گھریلو چڑیاں اپنے ننھے بچوں سمیت ڈاروں کی شکل میں اُڑتی اور دُور جھاڑیوں میں جابیٹھتیں۔پھر شام ڈھلتے ہی اپنے گھونسلوں میں لوٹ آتیں۔یہ گھریلو چڑیاں اپنے قواعد وقوانین کے ساتھ پالتو جانوروں کی طرح گُھل مل رہتیں۔مرغیوں کے ساتھ دانہ دُنکا چگنے میں انہیں کوئی پابندی نہ تھی۔ٹین اور کنکریٹ کے گھروں نے اس فطری تحفے کو ہم سے دُور کردیا۔فطرت کی زنجیر کا عظیم کڑ ا، جسے ہماری کنکریٹ زدہ ہوس نہ دیکھ سکی۔ ورڈزورتھ کا زمانہ ۵۴۲ سال پُرانا ہے۔تب ہیروشیما اورناگا ساکی پہ ایٹم بم نہیں گرے تھے۔
کُوکُو وہاں او ریہاں دُھند میں چھپ کر بولتا تھا اور وہ پنچھی جسے میں آج بھی سُننے کو ترس رہا ہوں،نہ بولتاہے نہ ہی نظر آتا ہے۔خُوش رنگ تتلیاں بھی اَب کم آتی ہیں۔ہیروشیما پہ گرنے والے لِٹل بوائے کے بعد کئی زہریلے ہتھیار فطری حُسن اُجاڑچکے اور آج بھی اُجاڑ رہے ہیں۔درخت جو ساون میں نکھر جاتے تھے اَب زرد ہو کر سُوکھ رہے ہیں۔۔کیایہ سرسبز سیارہ جہاں بُلبُل اور کوئل کُوکتی ہے،جہاں ورڈزورتھ نے آج سے 200 سال قبل اپنے پسندیدہ پرندے کے لیے نظم لکھی تھی کالے دماغوں کی نذر ہو جاے گا؟میٹھے سُروں والے خُوش منظر پنچھی معدوم کیوں ہو رہے ہیں؟ ُسچے اور سُچے سُر بکھیرنے والے معصوم پنچھی کالے ہاتھوں کے رحم و کرم پہ ہیں۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply