• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مسلم فلسفہ کی بوسیدگی: ملا ہادی سبزواری اور کیمرے کا واقعہ / حمزہ ابراہیم

مسلم فلسفہ کی بوسیدگی: ملا ہادی سبزواری اور کیمرے کا واقعہ / حمزہ ابراہیم

مسلم فلسفہ

مسلم فلسفہ سے مراد وہ یونانی  نظریات ہیں جو اموی دور میں عربی زبان کے رواج کے بعد یونانی اور ہندوستانی لکھاریوں کی تحریروں کے عربی تراجم ہونے کے نتیجے میں تقریباً ایک ہزار سال تک مسلم دنیا پر چھائے رہے۔ اس دوران کئی کتابیں لکھی گئیں مگر انکی علمی وقعت کچھ زیادہ نہ تھی۔ ان میں جو عقلی اصول بنائے گئے ان میں بہت سی خامیاں تھیں اور وہ زیادہ تر یونانیوں کی بنائی گئی فکری چاردیواری میں ہی محدود رہے تھے۔
البتہ قرون وسطیٰ کے صرف چند ایک مسلمان علما  نے کچھ علمی نظریات بھی بیان کئے اور انکے تراجم مغربی زبانوں میں ہوئے تو مغرب کو بھی ان سے بہت فائدہ ہوا۔ اس کی ایک مثال خواجہ نصیر الدین طوسی (متوفیٰ 1274ء) کی بطلیموس کی فلکیات پر تنقید اور اسکی اصلاح ہے کہ جس سے کوپر نیکس کو مدد ملی اور بعد میں اسکے کام کو آگے بڑھاتے ہوئے گیلیلیو اور نیوٹن نے بطلیموسی فلکیات کو زمین بوس کر دیا۔ خواجہ طوسی نے اپنی کتاب الفصول فی الاصول میں بھی یونانی فلسفیوں کے اندھے مقلدین پر تنقید کی ہے۔

ادھر گیلیلیو کے ایرانی معاصر ملا صدرا (متوفیٰ 1642ء) نے رہی سہی کسر نکال کر مسلم فلسفے کا بیڑہ غرق کر دیا۔ وہ موصوف فلوطین (متوفیٰ 270ء) کی کتاب اثولوجیا سے بہت متاثر تھے۔ اصالت وجود کی الٹی عینک پہن کر یہ فلسفہ اپنیشاد اور ابنِ عربی کے تصوف کے ساتھ ضم ہو گیا اور خارجی حقائق کے بارے پیش گوئی کے قابل نہ رہا۔ یوں علم کی اس بنیادی ترین صفت سے محروم ہو کر جہلِ مرکب بن گیا۔

علم کھلے ذہن کا تقاضا کرتا ہے

بدقسمتی سے عباسی دور میں قدیم یونانی کتب کے تراجم کرنے کے بعد مسلم فلسفیوں نے دنیا پر اپنی آنکھ بند کر لی اور دماغ کو تالا لگا دیا۔ جب تک آپ دنیا پر اپنے دروازے کھولے رکھتے ہیں اور مخالف کو سننے اور اس کی بات پر غور کرنے کی جرات کرتے رہتے ہیں، صرف اسی وقت تک آپ حقائق کو ٹھیک سے سمجھنے کے قابل رہتے ہیں۔ اگرچہ مسلمانوں کی کتب کو اہل مغرب نے اپنی زبانوں میں ترجمہ کیا لیکن جب مغرب میں علمی ترقی تیز ہوئی تو مسلمانوں نے انکی کتابوں کا بروقت ترجمہ نہ کیا۔ جو تھوڑے بہت تراجم ہوئے وہ بھی چھاپہ خانہ نہ ہونے کی وجہ سے مقبول نہ ہو سکے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ تفضل حسین کشمیری (متوفیٰ 1801ء) نے نیوٹن کی کتاب کا جو عربی میں ترجمہ کیا وہ منظر عام پر نہ آ سکا۔ مسلم دنیا نے یونانی زنجیروں سے نجات تب پانا شروع کی جب انگریزوں نے ہندوستان کی فتح کے بعد یہاں جدید تحقیقات کو متعارف کرایا۔

جدید دور میں قدیم فلسفے کے ماہرین

موجودہ دور میں قدیم فلسفے کے ماہرین بہت کم ہیں۔ جدید دور میں کسی ایسے شخص کو قدیم نظریات کا ماہر نہیں کہا جا سکتا جو ذہنی طور پر اس جدید دور میں نہ رہتا ہو۔ کسی ایسے شخص کو ملا صدرا کے خیالات کا ماہر قرار دینا درست نہیں جو جدید علوم کی روشنی میں ان کو نہ پرکھ سکے۔ جو ملا صدرا کے نظریات کے ناکارہ ہونے کی وجوہات کی نشاندہی نہ کر سکے، اس پر دیانتداری سے علمی تنقید کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو اور اسکی بنیادوں کے کھوکھلے پن کو نہ سمجھ سکے۔ جدید دور میں علامہ طباطبائی، مرتضٰی مطہری، جوادی آملی، حسن زادہ آملی، جلال الدین آشتیانی وغیرہ بھی مسلم فلسفے کے مروج ہوئے ہیں۔ انہیں صرف ملا صدرا کا قصیدہ گو  یا اسکی نقل کہا جا سکتا ہے۔ یہ سب لوگ زمانۂ طالب علمی میں سکول کالج کا منہ نہ دیکھ سکے۔ یہ سب اپنے مریدوں کیلئے مقدس شخصیات ہیں، جن کے جذبات کا احترام ضروری ہے۔ لیکن یہ بھی جان لینا چاہیے کہ تعلیم کی کمی محض داڑھی سفید ہونے سے دور نہیں ہو سکتی۔
ان حضرات کو ملا صدرا کے فلسفے کا ماہر نہیں کہنا چاہیے۔ کھنڈرات کو اندھیرے میں دیکھنے والا ان سے کچھ آشنائی تو پیدا کر سکتا ہے مگر ان کو ٹھیک سے نہیں سمجھ سکتا۔ جیسے کھنڈرات کو ٹھیک سے سمجھنے کیلئے تیز روشنی کا استعمال بہت ضروری ہے، اسی طرح ملا صدرا کے بوسیدہ نظریات کی حقیقت کو سمجھنے کیلئے جدید علوم کا بلب جلانا بہت ضروری ہے، جو ان حضرات کے پاس نہیں ہے۔ بدقسمتی سے آج کل منبروں اور سوشل میڈیا پر ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو انہی حضرات کے بوسیدہ خیالات کو اردو اور انگریزی میں ملمع کاری کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔ بعض حضرات نے اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر اور پروفیسر بھی لکھ رکھا ہے۔

ملا ہادی سبزواری کا واقعہ

مسلم فلسفے کی علمی دنیا سے لاتعلقی کا ایک بہترین نمونہ ملا ہادی سبزواری (متوفیٰ 1873ء) ہیں۔ سال 1866ء میں ایرانی بادشاہ ناصر الدین شاہ قاجار مشہد کے سفر پر روانہ ہوئے۔ جون میں وہ سبزوار سے گذر رہے تھے تو ملا ہادی سبزواری سے ملنے انکے گھر گئے جو اس وقت معقولات میں بڑی شہرت رکھتے تھے۔ شاہ کے ساتھ آقا رضا عکاس نامی ایک فوٹو گرافر بھی تھے جنہوں نے کیمرے سے ملا ہادی سبزواری کی اکلوتی تصویر بنائی۔ اس دوران ملا ہادی سبزواری نے جو ردعمل ظاہر کیا وہ اپنے اندر کئی صدیوں کا المیہ سموئے ہوئے ہے۔ اس واقعے کی روداد ادیب الممالک نے یوں بیان کی ہے:

«روز دوشنبہ ۲۹ محرم  ، فیلسوف بزرگ کہ پیش از شرفیاب شدن آقا رضا عکاس باشی بہ خانہ اش از عکاسی چیزی نشنیدہ و ندیدہ بود، پرسید: ماہیت عکس چیست؟ توضیح دادند کہ سایہ ای است از شخص یا چیزی کہ بر روی کاغذی می‌افتد و باقی می‌ماند. حکیم سبزواری منکر ہر گونہ امکان پذیری عکس برداری شد و گفت آنچہ شما می‌گویید منطقاً و عقلاً محال است، زیرا ما آنچہ کہ در فلسفہ خواندیم و می‌دانیم وجود ظِلّ قائم بہ وجود ذی ظِلّ است. پس از اصرار حاضران حکیم رو بہ روی دوربین عکاس باشی نشست. پس از ظاہر شدن عکسش نظرش نیز دربارہ عکاسی تغییر کرد.»

ترجمہ: ”29 محرم، بروز سوموار ۔ ۔ ۔ وہ عظیم فلسفی کہ جس نے آقا رضا عکاس کے آنے سے پہلے فوٹوگرافی کے بارے میں نہ کچھ سنا تھا اور نہ دیکھا تھا، پوچھا: فوٹو کی ماہیت کیا ہے؟ انہوں نے وضاحت کی کہ یہ کسی شخص یا کسی چیز کا سایہ ہے جو ایک خاص کاغذ پر پڑتا ہے اور باقی رہتا ہے۔ حکیم سبزواری نے فوٹو گرافی کے امکان سے انکار کیا اور کہا کہ آپ جو کہتے ہیں وہ منطقی اورعقلی طور پر محال ہے۔ کیونکہ ہم نے فلسفہ میں جو پڑھا ہے اور جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ سایہ کا وجود، صاحبِ سایہ کے وجود سے قائم ہے۔ حاضرین کے اصرار پر حکیم سبزواری عکاس کے کیمرے کے سامنے بیٹھ گئے۔ اپنی فوٹو سامنے آنے کے بعد فوٹو گرافی کے بارے میں ان کی سوچ بدلی۔“

تبصرہ

ملا ہادی سبزواری کا کیمرے کے بارے میں سوال کرنا اور اس کی ماہیت کو سمجھنے میں دلچسپی ظاہر کرنا ایک اچھی بات ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ وہ اس دور میں مسلم دنیا میں معقولات کے سب سے بڑے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ انکا قدیم فلسفے کی دلدل میں پھنسا ہونا افسوس ناک ہے۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ ملا ہادی سبزواری عرض اور جوہر جیسے مفاہیم سے ماہیت کو سمجھتے تھے، جو درست نہ تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ صورت، جو کہ عرض ہے، جوہر سے جدا نہیں ہو سکتی، جو کہ ماہیت کی اصل ہے۔ اب یہ جوہر و عرض وغیرہ کی اصطلاحات متروک ہو چکی ہیں۔ آجکل جدید اور دقیق تر اصطلاحات خارجی حقائق کا زیادہ بہتر احاطہ کرتی ہیں۔ اگر کہیں قدیم الفاظ استعما ل ہوتے ہیں تو ان سے قدیم معنی مراد نہیں لئے جاتے۔ اسکی مثال طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب جیسی اصطلاحیں ہیں جن سے  اب ان کے حقیقی معنی مرادنہیں ہوتے۔ اگرچہ دوسرے ممالک میں بھی جہلاء کی کمی نہیں، مگر افسوس ہے کہ مسلم فلسفے کے نام پر پھر سے یونانی خرافات سوشل میڈیا پر عام کی جا رہی ہیں۔ ان نامعقولات کو بدیہیات کا نام دے کر انکو دین کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ جدید علوم سے ان نام نہاد حکیموں کا اب بھی اتنا ہی تعلق ہے جتنا ملا ہادی سبزواری کا تھا۔

آخر میں ملا ہادی سبزواری کے فوٹو گرافی کو مان لینے سے بھی یہ مراد نہیں کہ انہوں نے روشنی کی ترکیب اور ماہیت کو سمجھنے کی کوشش کی اور جدید علوم کو سیکھنے کی کوشش کی۔ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے اس کالے ڈبے کو ایک مفید آلے کے طور پر قبول کر لیا اور پرانے تصورات کے ساتھ اسکا ٹانکا لگا لیا۔ اسکی ایک مثال نیوٹن کے قوانین کے بارے میں علامہ طباطبائی کی توضیحات ہیں۔ یہ لوگ ایسے مسائل میں غلط تفہیم کے ذریعےخود کو قانع کر  کے دماغ کی کھڑکیاں بند کرلیتے ہیں۔

آیۃ اللہ  العظمیٰ اسحاق فیاض مسلم فلسفے پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں:

Advertisements
julia rana solicitors

”جہاں تک اس فلسفے کی طبیعیات (فزکس) کا تعلق ہے تو وہ ساقط ہو چکی ہے اور اس کی ہوا اکھڑ چکی ہے۔ اب سائنس کا علم بالکل بدل کر اپنی بلندی کو چھو رہا ہے۔ دوسری طرف ملا صدرا کے فلسفے کی فزکس صرف اوہام اور تخیلات کا مجموعہ ہے اور اسکی کوئی علمی وقعت نہیں۔“

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply