بلوچستان اور مارے گئے غریب مزدور۔۔۔ محمد کمیل اسدی

ایک دوست کی تحریرشئیر کی تھی اور اس سے کلی طور پر میرا متفق ہونا بھی ضروری نہیں لیکن صرف ایک استغاثہ اور شکوہ تھا پنجاب کے ایک بیٹے کا جس کو شئیر کرکے میں وہ درد اور نوحہ سب احباب تک پہنچانا چاہتا تھا۔ اس پر مختلف کمنٹس کئے گئے کچھ دوستوں کے خیال میں یہ کہنا چایئے کہ صرف پاکستانی مارے گئے، کچھ کی آراء ہے کہ اس سے صوبائیت پھیلتی ہے، اور کچھ دوست سمجھ رہے ہوں گے کہ میں انڈیا کی چالوں سے ناواقف ہوں۔ کچھ دوست ناراض اور کچھ دوست بہت زیادہ خوش۔
کیا ہمیں نہیں معلوم کہ کسی بھی پنجابی کا بلوچستان میں سفر کرنا ممکن نہیں رہا، شناختی کارڈ دیکھ کر اگر مارا نہیں جاتا تو وارننگ دی جاتی ہے کہ 24 گھنٹوں میں واپس بھاگ جاو ورنہ پھر تابوت ہی جائے گا۔ مانا کہ حکومت سے شکایات ہوتی ہیں، بلوچوں کو ان کے حق سے مقامی اور وفاقی حکومتیں محروم رکھ رہی ہیں لیکن کون سی ایسی قوتیں ہیں جو انہیں خون کے راستے پر چلانا چاہ رہی ہیں۔ سب بلوچ ایک جیسے نہیں لیکن قتل و غارت کے لئے کوہ قاف سے جن نہیں بلائے جاتے مقامی افراد کو  ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ اگرایسے افراد 2 فیصد بھی ہوں تو وہ 2 فیصد اتنے مضبوط تو ہیں کہ جنہوں نے 98 فیصد کو بے بس اور مجبورکرکے رکھ دیا ہے جو ان بے گناہوں کے قتل پر نا تو سراپا احتجاج ہیں اور نا ہی روکنے پر قادر ہیں یا ان کے ذہنوں کو مفلوج کردیا گیا ہے کہ جو ہو رہا ہے بس خاموش تماشائی بنے رہو۔
خیراس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی مارے گئے اور اس میں انڈیا بہت حد تک ملوث ہے لیکن صرف انڈیا ہی نہیں ہر وہ استعماری قوت اپنا زور لگا رہی ہے جو پاکستان کو کمزور کرنے کے مذموم ارادے رکھتی ہے۔
وجہ یہ نہیں کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اسلام دشمنی میں ایسا کیا جا رہا ہے۔ بلکہ خطے میں اپنی بالا دستی قائم کرنے اور پاکسان کو معاشی و اقتصادی لحاظ سے ابھرنے سے روکنے جیسے عوامل بھی شامل ہیں۔ بظاہر دوست دکھائی دینے والے دوست نما دشمن ممالک  بھی ان سازشوں میں شامل ہیں اور جو دشمن ہیں ان سے تو ویسے ہی خیر کی توقع نہیں۔یہ قتل و غارت کا کھیل پہلی بار نہیں کھیلا گیا بہت سالوں سے پنجاب سے آنے والے مزدور بڑی بے رحمی سے مارے جا رہے ہیں ،دشمن یہ چاہتا کہ صوبائی نفرتوں کو مزید بھڑکا یا جائے اور پنجاب کا انتخاب صرف اس لئے کیا گیا ہے کہ اس سے چھوٹے بھائی سندھ اور کے پی کے پہلے سے ہی کچھ نا کچھ گلے شکوے رکھتے ہیں۔ بلوچستان میں بھی یہی آگ بھڑکے گی تو پنجاب کو چاروں اطراف گھیر کر اس آگ کو مزید بھڑکایا جائے۔
بالفرض پنجاب میں بھی یہ سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کہ کبھی کے پی کے میں لاشیں بھجوائی جا رہی ہوں اور کبھی سندھیوں کو بسوں سے اتار کر مارا جا رہا ہو اور کبھی اردوسپیکنگ تہہ تیغ ہوں۔ پھر خود ہی سوچیں کہ انجام کیا ہو گا؟
دشمن یہی چاہتا ہے، لیکن الحمد اللہ پاکستانی قوم ابھی بھی یکجا ہے اور لوگ اب بھی فرقہ ومسلک اور صوبائیت سے ہٹ کر سوچتے ہیں۔انعام رانا نے جس طرح بتایا کہ ایک طرف بلوچستان میں مزدور مارے جا رہے ہیں تو دوسری طرف لندن کی بسوں پر پاکستان مخالف نعرے لکھے جا رہے ہیں۔ یہ واقعی کوئی چھوٹی گیم نہیں۔
پہلے اس ملک میں فرقہ اور مسلک کے نام پر آگ بھڑکا ئی گئی اور ہر شہر میں اس آگ نے سینکڑوں خاندانوں کو متاثر کیا، اب بھی راکھ میں دبی ہوئی چنگاریاں موجود ہیں لیکن شکر ہے کہ وطن عزیز اس فرقہ واریت کے چنگل سے کافی حد تک آزاد ہو گیا۔ البتہ کچھ نادان دوست اب بھی اس راکھ کو کرید کر کبھی کبھی پھلجھڑیاں جلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ایک عشرہ کے بعد ہمیں احساس ہوا کہ یہ نفرتیں پھیلانا استعماری ایجنڈہ تھا اور اگر صوبائیت کی لہر ہمارے رگ و جان میں سرایت کرگئی تو یہ ضروری نہیں کہ ایک عشرہ بعد احساس بھی ہو۔ اور اگر احساس ہو تو صرف لکیر پیٹنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو۔
سب دوست چوکنا رہیں ،ابھی بہت سی سازشیں ہونا باقی ہیں دشمن ہماری تاک میں ہے اور صرف ہماری نادانی یا بے وقوفی ہی اسے کامیاب کر سکتی ہے۔
انشاءاللہ پاکستان پر کبھی آنچ نہیں آئے گی۔
پاکستان پائندہ آباد۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

محمد کمیل اسدی
پروفیشن کے لحاظ سے انجنیئر اور ٹیلی کام فیلڈ سے وابستہ ہوں . کچھ لکھنے لکھانے کا شغف تھا اور امید ھے مکالمہ کے پلیٹ فارم پر یہ کوشش جاری رہے گی۔ انشا ء اللہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply