“ندائے گل” ادبی اْمنگوں کا ترجمان۔۔عدنان چوہدری

ادب کی بے لوث خدمت جو قاری ساجد نعیم کر رہے ہیں شاید ہی کوئی دوسرا کر رہا ہو۔ اپنے محدود وسائل کے باوجود عالمی معیار کا بلند پایہ رسالہ نکالنا ان کی اردو ادب سے محبت, بے لوث خدمت اور محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔قاری ساجد نعیم کی ادبی کاوشوں کا میں کھلے دل سے قائل ہوں۔اردو ادب کا عشق دل میں لیے قاری ساجد نعیم پچھلے گیارہ سال سے “ندائے گل” باقاعدگی سے نکال رہے ہیں۔
“ندائے گل” کی اشاعت کا آغاز دوہزار نو میں کیا گیا جس کا مقصد تھا نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور انہیں ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا کہ جہاں وہ اپنے دل کی بات کو دوسروں تک پہنچا سکیں اور اس مقصد میں کافی حد تک کامیابی حاصل کی “ندائے گل” کو آغاز سے ہی کئی ایک گمنام ادیبوں کو عالمی سطح پر متعارف کروانے کا اعزاز حاصل ہے۔میرے دیکھنے میں یہ واحد رسالہ ہے جو نام کی بجائے کام کو ترجيح دیتا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ آپ کون ہیں ؟ کیاہیں؟ کہاں سے ہیں؟ اگر آپ کا کام معیاری ہے تو “ندائے گل” آپ کی صلاحيتوں کو اردو ادب کے سامنے پیش کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پر پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے۔یہی معیار ہی “ندائے گل” کو نہ صرف پاک وہند بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کی قدرو منزلت میں اضافہ کرتا ہے۔
“ندائےگل” کا عالمی معیار مجھے اس پہ مجبور کرتا ہے کہ اس کے سالنامے کا شدت سے انتظار کیا جائے۔
608 صفحات پر مشتمل ضخیم سالنامہ میرے سامنے ہے۔ “ندائے گل” کا یہ شمارہ 2020 کے اردو ادب میں گویا ایک دستاویز ہے۔ معنی خیز افسانوں، خوبصورت نظموں اور غزلوں،عمدہ مضامین،بہترین انٹرویو، اعلیٰ مائیکروف اور سبق آموز انشائیوں سے مزین اس سالنامے کو جو پذیرائی ادبی حلقوں میں ملی ہے وہ اس کے معیاری ہونے کا واضح ثبوت ہے۔انڈیا سے اصغر شمیم،کشمير سے ڈاکٹر ریاض توحیدی کاشمیری،منہاج یونيورسٹی سے ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی نے “ندائے گل” کے سالنامے پر اپنے ریوییوز لکھ کر اس کے ادبی معیار پر مہر ثبت کی ہے۔
سالنامے میں حمدونعت کے بعد اردو افسانے کے تین حصے ہیں۔دو حصے اردو غزل اور ایک حصہ اردو نظم پر مشتمل ہے۔اس کے علاوہ دو حصے مضامین،انشائیہ سیکشن اور آخر میں خطوط بھی دیئے گئے ہیں۔انٹرویو سیکشن کے ذریعے سعود عثمانی ،ڈاکٹر افتخار الحق اور ڈاکٹر ریاض انجم سے ملاقات کا شرف بھی اسی سے ملا ہے۔ گوشے میں عالمی ادب سے جے۔ایم۔کوئتزی جو کہ نوبل پرائز یافتہ ہیں بھارت سے معروف ناول نگار, نقاد, افسانہ نگار مشرف عالم ذوقی پاکستان سے معروف نقاد, افسانہ نگار پروفیسر جمیل احمد عدیل اور معروف شاعر توقیر احمد شریفی کے اسلوب سے متعارف ہوا ہوں۔اردو ادب میں مائیکروفکشن جسے کچھ لوگ اب بھی ادبی صنف ماننے سے انکاری ہیں،کو شاندار انداز میں “ندائے گل” عالمی اردو ادب میں متعارف کروا رہا ہے۔اس کی یہ کاوشیں مائیکروفکش کی تاریخ میں ہمیشہ سراہی جائیں گی۔افسانوی سیکشن میں انڈیا سے شموئل احمد،دیپک بدکی, حسن اقبال آزاد پاکستان سے قیصر نذیر خاور, قیصر حمید, محمد جاوید انور اور کشمیر سے ڈاکٹر ریاض توحیدی کاشمیری کو جس خوبصورتی سے اک لڑی میں پرویا ہےیہ ایڈیٹر اور مجلس مشاورت کی شب وروز محنت کو ظاہر کرتا ہے
“ندائے گل” سالہا سال سے کچھ انوکھا کرتا آرہا ہے مثلا 2016 میں جب مائيکروفکشن کو متعارف ہوئے زیادہ عرصہ نہ ہوا تھا “ندائے گل” نے “مائيکروفکشن نمبر 2016”
شائع کر کے ایک اعزاز حاصل کیا۔سپیشل ایڈیشن 2017 میں عالمی اردو افسانہ نمبر شائع کیا اور 2018 کے سالنامے میں مختلف شعری اصناف کو اجاگر کیا گیا۔گزشتہ برس سالنامے میں پنجابی گوشہ شامل کیا گیا۔جس کے ذریعے اردو کے ساتھ ساتھ مادری زبان کی افسانوی و شعری اصناف کو قارئين کے سامنے پیش کیا گیا۔اور امسال بھی افریقن ادیب جی۔ایم۔کوئنزی کا گوشہ شامل کر کے پاکستان کے ادبی رسائل میں ایک نئی رسم متعارف کروا دی ہے ۔اس طرح غیر ملکی ادباء کو پاکستان میں متعارف کروانے کا جو سہرہ “ندائےگل” نے اپنے سر لیا ہے ہے،قابل تعریف ہے۔
آج کی ادبی دنیا میں جہاں دری مارکہ رسائل کی بھر مار ہوئی پڑی ہے،اس طرح کا معیاری پرچہ نکالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ جس کے لیے قاری ساجد نعیم اور ان کی پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہےاور دنیائے اردو ادب میں پڑھنے والوں کے لیے معیاری مواد مہیا کرنے میں ندائےگل کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔وہیں پہ اس قدر معیاری دستاویز دان کرنے پر اردو ادب بھی “ندائےگل” کا مشکور ہوگا۔

Facebook Comments