اس کی واضح مثال گزشتہ دنوں شہید بے نظیر بھٹو وومن یونیورسٹی پشاور کیمپس میں دو روزہ ایجوکیشن ایکسپو میں نظر آئی، جس میں سماء ٹی وی نے صرف ریٹنگ کے لئے ادارے اور ایک طالبہ کی زندگی میں مشکلات پیدا کیں، ـ میری اطلاعات کے مطابق نیوز چلنے کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کو حکومت نے آڑے ہاتھوں لیا ہے اور جس طالبہ نے ڈانس کیا ہے اُس کو بھی دھمکیاں ملی ہیں، ـ اسی طرح یونیورسٹی کے میڈیا انچارچ کو بھی پریشانی کاسامنا ہے۔
ـ ہوا کچھ یوں کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے طالبات کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کے لئے دو روزہ ایونٹ منعقد کیا جس میں یونیورسٹی کے ساتھ ایک دوسرے ادارے کا اشتراک بھی شامل تھاـ طالبات نے منعقدہ ایونٹس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ـ اور اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائےـ چونکہ یونیورسٹی وومن یونیورسٹی تھی اس لئے خواتین فیکلٹی اور طالبات نے اپنا گھر سمجھ کر اس کے پروگراموں میں حصہ لیاـ، جس طرح اپنوں میں یا خاندان میں شادی ہوتی ہے ـ تو مرد و خواتین اپنی روایات کے مطابق ناچتے اور گاتے بھی ہیں ـ کیونکہ خوشی کے مواقع بار بار نہیں آتے ۔ـ ایونٹ میں ایک درجن سے زیادہ پروگرام تھے مگر فوکس ایک بیلے ڈانس پر کیاگیاـ جس کو میرے صحافی بھائیوں نے پروگرام کو بہتر طریقے سے کرنے کے لئے شوٹ کیا کہ اوورآل پیکیج اچھا بن جائے گاـ مگر بعد میں انتظامیہ نے جب یونیورسٹی کے تمام فنکشن کو عام ایونٹ کی نظر سے دیکھا تو اُس میں ڈیویلپمنٹل جرنلزم کی سٹوری تو تھی مگر ریٹنگ کی اور ٹی آر پی کوئی سٹوری نہیں تھی ـ جس سے چینل کی ریٹنگ اور بیورو کی ٹاپ پوزیشن پر آنے کے چانسز کم تھے اور دوسری جانب ساری میڈیا ٹیمیں کوریج کے لئے گئی تھیں، ایک تو اس لئے کہ خواتین کے پروگرام تھے اور دوسری میڈیا کاپیٹ بھرنے کے لئے بھی کچھ نہ کچھ مل جاتاـ تو سارا میڈیا ایک عام ایونٹ کی حیثیت سے ہی نیوز سٹوری چلاتے ـ کچھ یونیک کرنے کے لئے سما ء ٹی وی پشاور بیورو کی انتظامیہ نے سوچا کہ کیوں نا طالبہ کے ڈانس کو فوکس کرکے سنسنی پھیلا ئی جائے ـ اور شو کیا جائے کہ پشاور کی یونیورسٹیوں میں طالبات کیا کیا گُل کھلاتی ہیں ۔ـ پشاور جہان خواتین پر تعلیم کے دروازے اب کہیں جا کر کھلے ہیں، ـ جہاں کی خواتین صرف گھروں میں مقید تھیں ـ جن کا کام صرف مردوں کی خدمت اور بچوں کی پرورش تھی ـ صرف چادر اور چاردیواری تک ہی خواتین محدود تھیں ـ ،دکھایا گیاکہ خواتین کو آزادی ملتی ہے تو وہ کیا کیانہیں کرتیں ـ، یہ دکھایا گیا کہ جو پرانی دقیانوسی سوچ تھی وہ ٹھیک تھی ـ، خواتین کوجتنا گھرکے اندر رکھوگے ٹھیک ہوگاـ اور نجانے کیا کیا نہیں سوچ کر اس سٹوری کو چلانے کی چاہ کی گئی ہوگی۔ ـ
ان سب چیزوں سے بالاتر ہوکر کہ گزشتہ ہفتے پشاور کی زرعی انسٹی ٹیوٹ کو عسکریت پسندوں نے نشانہ بناکر معصوم طلباء کو شہید کیاہے ـ اے پی ایس اور باچا خان یونیورسٹی کا واقعہ اسی خطے میں وقوع پذیر ہوا ہے ـ اور جوحالات ہیں اُس سے میڈیا کے کارکن زیادہ باخبر ہیں ـ پھر بھی ان حالات کو بالائے طاق رکھ کرجب ایسی خبر کو آگے جانے کی اجازت دی جاتی ہے تو ذہنیت پر ماتم کرنے کے سواکچھ نہیں کیا جاسکتا ـ یہ بھی نہیں سوچا گیا تو یہ سوچ تو ذہن کے نہاں خانوں میں پنپ ہی گئی ہوگی کہ یہ طالبہ جس سے غلطی سرزد ہوئی ہے یہ ادارہ جو جانے یا انجانے میں غلطی کا مرتکب ہوچکا ہے اس ادارے کی ساکھ پر کیااثر پڑے گاـ یا اُس طالبہ کی زندگی پر کیا اثر لائے گا ـ اُس کے خاندان والوں پر کیا بیتی ہوگی، ـ پشاور کے حالات جس طرح ہیں وہ اس ادارے کوٹارگٹ میں لاسکتی ہے۔ وومن یونیورسٹی میں سیکورٹی کی کیا صورت ہے حال اور مستقبل میں اس چھوٹی سی خبر سٹوری کے کتنےمنفی اثرات مرتب ہوں گے ـ اس بارےمیں بالکل بھی نہیں سوچا گیا۔ ـ صرف اپنے چینل کی ویورشپ کے لئے صحافت کا جنازہ نکال دیا گیا۔ـ
اس ایک چھوٹی سی خبر سے کتنا نقصان ہوا ہے اس کا اندازہ لگانامشکل ہے مگر خبر آگے لے جانے والے نے یہ نیوز چلاکر صحافت کے ساتھ بالاتکار کرکے غیرذمہ دارانہ صحافت کا عملی ثبوت پیش کیا ہے ۔ـ
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں