بنیاد پرستانہ جمہوریت پسندی/ڈاکٹر مجاہد مرزا

کیا یہ ممکن ہے کہ جمہوریت بنیاد پرستی پر مبنی ہو ؟ کہنے کو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے اور دکھانے کو بھی جیسے ابتدائی پاکستان پیپلز پارٹی کا “اسلامی سوشلزم” یا نازیوں کا “نیشنل سوشلزم” یا پھر جیسے بنیاد پرست مسلمانوں سے خائف ملکوں نے “اعتدال پسند اسلام” کا پرچار کرنا شرع کیا ہے۔ پر اصل میں “بنیاد پرستانہ جمہوریت پسندی” جمہوریت کو اس کی اصل شکل میں لاگو کیے جانے کی خواہش کرنے والوں پر جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کا طنز ہے۔
اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ کوئی بھی نظریہ یا تصور معروضی حالات کے تناظر میں اپنی اصل شکل میں موجود نہیں رہ سکتا لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ کسی بھی نظریے یا تصور کے ساتھ اپنے منسلک مفادات سے مستفید ہونے والے جو چاہبں یا جیسا اپنے تئیں مناسب سمجھیں سلوک کرتے ہیں۔
امریکہ جمہوریت کا اپنا بلکہ دہرا تصور رکھتا ہے۔ اپنے ملک کے لیے اور دوسرے ملکوں کے لیے اور۔ روس نے جمہوریت کا نام بدنام کیا ہوا ہے اور بڑے دھڑلے سے اسے “کنٹرولڈ ڈیموکریسی” یعنی قابو میں رکھے جانے والی جمہوریت نام دیا ہوا ہے۔ یوکرین میں قوم پرستی کو جمہوریت کی چادر اوڑھائی گئی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت بس نعرے لگانے کی حد تک تو سب کے لیے ہے لیکن اصل میں کچھ کے لیے ہے اور کچھ کے لیے بالکل نہیں۔
ہم جمہوریت کے بنیادی معانی پر بحث نہیں کرتے کیونکہ ایک بڑے عمل کو اختصار سے بیان کرنے کی غرض سے انتہائی مختصر اصطلاح وضع کی جایا کرتی ہے۔ البتہ یہ ضرور کہیں گے کہ جمہوریت آزادی اظہار اور آزادی اظہار کے لیے سبھی سیاسی پارٹیوں کو پرچار کے لیے برابر کے یا کم سے کم متناسب وسائل فراہم کیے بغیر جمہوریت کہلانے کی مستحق نہیں ہو سکتی۔
ہم دو مثالیں لیتے ہیں روس کی اور پاکستان کی (روس میرا اختیار کردہ ملک ہے اور پاکستان میرا وطن) روس میں کہنے کو تو اظہار کی مکمل آزادی ہے لیکن اس اظہار کا پرچار کیے جانے کے اکثر وسائل جن میں خاص طور پر ٹی وی چینل اور اخبارات آتے ہیں یا تو حکومت کی ملکیت ہیں یا وہ کریملن نواز ہیں۔ ایسا چینل ڈھونڈے کو نہیں ملے گا جہاں حکومت کے مخالف لوگوں کو اپنی بات کہنے کا موقع ملتا ہو۔ پاکستان میں اس کے برعکس ہے کہ ٹی وی چینل کھمبیوں کی طرح اگے ہیں۔ اس میں سب بھانت بھانت کی بولیاں بولتے ہیں اور سننے والوں کو بوکھلا دیتے ہیں۔ لوگ اپنی اپنی پسند کی باتوں کو چن لیتے ہیں۔ دلیل و تاویل درکار نہیں ہوتی۔
ایک مضبوط اور تعمیری طور پر ناقد حزب اختلاف کے بغیر بھی جمہوریت جمہوریت نہیں ہوتی۔ ایسے حالات میں مقتدر افراد کو مطلق العنان تو نہیں کہا جا سکتا مگر جمہوریت پسند کہتے ہوئے بھی زبان ٹیڑھی ضرور ہوگی۔ یہ اور بات ہے کہ بہت سے لوگ زبان کے کج ہونے کے نقص کو ہی معمول سمجھ بیٹھیں یا کہیں چلو کوئی بات نہیں۔ روس میں حزب اختلاف کو پس پردہ ڈال دیا گیا ہے کیونکہ ان کی صدا ہی کہیں سے نہیں اٹھ پاتی۔ یا پھر حزب اختلاف کے کچھ دھڑوں کو اپنے ساتھ ملائے بغیر اپنا ساتھی بنا لیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جناب پوتن برس ہا برس سے تین بار صدر کی حیثیت سے اور دو بار وزیر اعظم کی حیثیت سے اقتدار میں برقرار ہیں۔ پاکستان میں حزب اختلاف یا تو “فرینڈلی اپوزیشن” ہوتی ہے یا پھر کبھی کبھار مردے کی مانند “کفن پھاڑ کر” بولنے لگتی ہے جس میں تعمیری تنقید کی بجائے شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پہ پتھر اچھالنے کا سا کام کرتی ہے۔
کیا جمہوریت اپنی اصلی شکل میں لاگو ہو سکتی ہے؟ ایسا ممکن نہیں ہے اور یہ بات کوئی اتنی حیران کن یا آزردہ خاطر کرنے والی بھی نہیں ہے۔ علاج کے معاملے میں طب کی کتابوں میں لکھا من و عن صادق نہیں آتا۔ اقتصادیات اور معیشت پر لکھی کتابوں کے مندرجات کی بھی عمل میں کتربیونت کرنی پڑتی ہے۔ البتہ ایک کام ضرور ہو سکتا ہے کہ عوام کی اکثریت کو حکومتی کاموں میں شریک کر لیا جائے۔ اس غرض سے “بنیادی جمہوریت” اولّیں آلہ ہے۔ بہت نچلی سطح پر منتخب کیے جانے والوں کی میعاد بہت کم رکھی جانی چاہیے یعنی دو یا تین سال۔ ان کے ہاتھ میں اقتصادی معاملات نہ ہوں بلکہ وہ مشاورتی ادارے ہوں مگر ان کی مشاورت پر بالائی اداروں کی جانب سے عمل کرنا ضروری بنایا جائے۔
میڈیا کو ذمہ دار بنانے کی سعی کی جانی چاہیے۔ اس سعی کے لیے بھی عوام کی کمیٹیاں ہی اپنا کردار ادا کریں اور ذرائع ابالاغ عامہ کو اپنی تجاویز، تنقید اور سفارشات ارسال کریں۔ ساتھ ہی ان کو اخبارات میں اشتہارات کے طور پر شائع کروا دیں۔ یوں میڈیا اپنی حدود اور اخلاقیات کا تعین کرنے میں فعال ہوگا۔
عوامی اداروں کو حکومت کا محتسب ہونے کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کا بھی مناسب اور موزوں حد تک محتسب ہونا چاہیے۔ ایسا کیے جانے کی خاطر متوازی علامتی اسمبلیاں یا سماجی ایوان بنائے جا سکتے ہیں جو ان تمام مسائل پر بحث و تمحیص کریں جن پر عام اسمبلیوں میں کی جاتی ہے۔ ذرائع ابلاغ عامہ کو چاہیے کہ وہ ایسے ایوان کی کارروائی کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کارروائی سے زیادہ کوریج دیں تاکہ لوگوں کی بڑی تعداد تک اصل بات پہنچ سکے۔ اس طرح عوام کے لیے آئندہ انتخابات میں زیادہ بہتر امیدوار کو سامنے لائے جانے کی خاطر سیاسی پارٹیوں پر دباؤ بڑھایا جانا ممکن ہوگا۔
سب سے اہم بات تمام پارٹیوں میں شفاف اور کھلے انتخابات کا کرایا جانا ہے جن کے انعقاد کے دوران میڈیا کے مبصرّین کے ساتھ ساتھ مسابقت کرنے والی پارٹیوں کے مبصّرین کو بھی مدعو کیا جائے۔
اگر یہ سب کچھ کیا جانا بنیاد پرستانہ جمہوریت پسندی ہے تو میں فی الواقعی بنیاد پرست جمہوریت پسند کہلانے پر اترا سکتا ہوں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply