الھجرہ علی خطی رسول اللہ ﷺ (حصہ ششم)۔۔منصور ندیم

ھجرہ رسول ﷲﷺ کے  کارواں نے  دوسرے روز وادی العویجا کو عبور کرتے ہوئے خیمہ ام معبد سے ہوتے ہوئے شمال کی طرف ساحل کا رخ کیا تھا، ام معبد کا خیمہ وہ مقام تھا جس کا ذکر اس ہجرت کے سفر کا ایک بے مثال واقعہ ہے، جہاں رسول ﷲﷺ نے سفر ہجرت میں قیام فرمایا تھا۔ یہ مقامِ قدید تھا جہاں پر اُمِ معبد عاتکہ بنت خالد خزاعیہ کا خیمہ تھا جنہیں رسول ﷲﷺ کا میزبان بننے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ اُمِ معبد ایک ضعیفہ عورت تھی جو اپنے خیمہ کے صحن میں بیٹھی رہا کرتی تھی اور مسافروں کو کھانا پانی دیا کرتی تھی۔ ام معبد کا تعلق عرب کا ایک اہم قبیلے بنو خزاعہ سے تھا اور ام معبد اپنی شعر و شاعری کی وجہ سے پورے علاقے میں مشہور تھیں۔ رسول ﷲﷺ اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کے سفر کے دوران جب ان کے خیمے کے پاس پہنچے تو رسول ﷲﷺ نے ام معبد سے کچھ کھانا خریدنے کا قصد کیا مگر ام معبد کے پاس اس وقت کوئی چیز موجود نہ تھی۔ رسول ﷲﷺ نے دیکھا کہ اس کے خیمے کے ایک جانب ایک بہت ہی لاغر بکری ہے۔ دریافت فرمایا کیا یہ دودھ دیتی ہے ؟ اُمِ معبد نے کہا : “نہیں۔”

رسول ﷲﷺ نے ام معبد سے فرمایا کہ : اگر تم اجازت دو تو میں اس کا دودھ دوہ لوں۔ اُمِ معبد نے اجازت دے دی، رسول ﷲﷺ نے ”بسم اﷲ” پڑھ کر جو اس کے تھن کو ہاتھ لگایا تو اس کا تھن دودھ سے بھر گیا اور اتنا دودھ نکلا کہ سب لوگ سیراب ہو گئے اور اُمِ معبد کے تمام برتن دودھ سے بھر گئے۔ معبد اس معجزے کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئیں اور انہوں نے بعد میں آپ کے بارے میں ایک فی البدیہہ نظم کہی۔

ام معبد کی نظم اور ترجمہ :

قالت أُمِّ مَعْبَدٍ في وصف النبي صلى الله عليه وسلم:رَأَيْتُ رَجُلًا ظَاهِرَ الوَضَاءَةِ، أَبْلَجَ الوَجْهِ، حَسَنَ الخَلْقِ،لَمْ تَعِبْهُ ثُجْلَةٌ، وَلَمْ تُزْرِيهِ صُعْلَةٌ، وَسِيمٌ قَسِيمٌ، فِي عَيْنَيْهِ دَعَجٌ، وَفِي أَشْفَارِهِ وَطَفٌ، وَفِي صَوْتِهِ صَهَلٌ، وَفِي عُنُقِهِ سَطَعٌ، وَفِي لحْيَتِهِ كَثَاثَةٌ، أَزَجُّ، أَقْرَنُ، إِنْ صَمَتَ فَعَلَيْهِ الوَقَارُ، وَإِنْ تَكَلَّمَ سَمَاهُ وَعَلَاهُ البَهَاءُ،أَجْمَلُ النَّاسِ، وَأَبْهَاهُ مِنْ بَعِيدٍ، وَأَحْسَنُهُ وَأَجْمَلُهُ مِنْ قَرِيبٍ، حُلْوُ المَنْطِقِ، فَصْلًا لَا نَزْرَ وَلَا هَذَرَ، كَأَنَّ مَنْطِقَهُ خَرَزَاتُ نَظْمٍ يَتَحَدَّرْنَ، رَبْعَةٌ لَا تَشْنَؤُهُ مِنْ طُولٍ، وَلَا تَقْتَحِمُهُ عَيْنٌ مِنْ قِصَرٍ، غُصْنٌ بَيْنَ غُصْنَيْنِ، فَهُوَ أَنْضَرُ الثَّلَاثَةِ مَنْظَرًا، وَأَحْسَنُهُمْ قَدْرًا، لَهُ رُفَقَاءُ يَحُفُّونَ بِهِ،إِنْ قَالَ سَمِعُوا لِقَوْلهِ، وَإِنْ أَمَرَ تَبَادَرُوا إِلَى أَمْرِهِ، مَحْفُودٌ مَحْشُودٌ، لَا عَابِسَ، وَلَا مُفَنِّدَ.(الطبقات الکبری لابن سعد، ذکر خروج رسول اللہ ﷺ ، ۱/240)

ترجمہ:

میں نے ایک شخص کو دیکھا جس کی نظافت نمایاں، جس کا چہرہ تاباں، اور جس کی ساخت میں تناسب تھا۔ پاکیزہ اور پسندیدہ خو، نہ فربہی کا عیب نہ لاغری کا نقص، نہ پیٹ نکلا ہوا، نہ سر کے بال گرے ہوئے، چہرہ وجیہہ، جسم تنومند، اور قد موزوں تھا۔ آنکھیں سر مگیں ، فراخ اور سیاہ تھیں۔ پتلیاں کالی اور ڈھیلے بہت سفید تھے۔ پلکیں لمبی اور گھنی تھیں۔ ابرو ہلالی، باریک اور پیوستہ ، گردن لمبی اور صراحی دار ، داڑھی گھنی اور گنجان، سر کے بال سیاہ اور گھنگھریالے ، آواز میں کھنک کے ساتھ لطافت، بات کریں تو رخ اور ہاتھ بلند فرمائیں ۔ کلام شیریں اور واضح ، نہ کم سخن اور نہ بسیار گو، گفتگو اس انداز کی جیسے پروئے ہوئے موتی۔ دور سے سنو تو بلند آہنگ، قریب سے سنو تو دلفریب ، کلام نہ طویل نہ بے مقصد بلکہ شیریں، جامع اور مختصر، خاموشی اختیار کرے تو پر وقار اور تمکین نظر آئے۔ قد نہ درازی سے بد نما اور نہ اتنا پستہ کہ نگاہ بلند تر پر اٹھے۔ لوگوں میں بیٹھے تو سب سے جاذب ، دور سے نظریں ڈالیں تو بہت با رعب ، دو نرم و نازک شاخوں کے درمیان ایک شاخِ تازہ جو دیکھنے میں خوش منظر ، چاند کے گرد ہالے کی طرح رفیق گرد و پیش ۔ جب کچھ کہے تو سراپا گوش۔ حکم دے تو تعمیل میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں۔ سب کا مخدوم ، سب کا مطاع ، مزاج میں اعتدال ، تندی اور سختی سے دور۔

بعد میں ام معبد اور ان کے شوہر نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ الھجرہ علی خطی رسول ﷲﷺ نمائش میں دوسرے روز کے سفر کے لئے یہاں پر باقاعدہ ام معبد کا خیمہ بنایا گیا ہے، جس میں اندر بیٹھنے کا انتظام موجود ہے اور بڑی اسکرین پر ام معبد سے ہونے والی گفتگو اور ام معبد کی شاعری کو بہت دلکش انداز سے دکھایا گیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply