• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ہمارے ساتھ یہ انگریز کے کاسہ لیس کیا کررہے ہیں ؟۔۔فرخ ملک

ہمارے ساتھ یہ انگریز کے کاسہ لیس کیا کررہے ہیں ؟۔۔فرخ ملک

انگریز نے ہندوستان میں تاجرانہ شہنشاہیت کی بنیاد رکھی جو کہ عوامی استحصال ہر مبنی حکومت تھی ۔ اس نے برصغیر کو لوٹنے کیلئے تمام انڈسٹری بر طانیہ میں لگائی اور یہاں کی ہر صنعت کو تباہ برباد کر دیا ۔ وہ برصغیر کے سارے قدرتی وسائل خام ما ل کی صورت میں لوٹ کر برطانیہ لے جاتا اور پھر وہاں پر اس خام مال کو پرا سیس کرتا اور اس خام مال سے بنے کپڑے اور دوسری مصنوعات کو ہندوستان میں اور دوسرے ممالک کی منڈیوں میں لا کر بیچتا ۔ اس سے ایک طرف تو اس کے اپنے ملک میں انڈسٹری لگنے کی وجہ سے اس کے لوگوں کو روز گار ملا اور خوشحالی آئی اور دوسری طرف ہندوستان جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال ملک میں قدرتی وسائل کی لوٹ  مار کی وجہ سے غربت و مہنگائی بڑھی ۔ یہاں کا کار ی گر طبقہ بے کار ہوتا چلا گیا ۔ جس سے ہر طرف غربت و افلاس نے ڈیرے ڈال لئے ۔اب یہاں کے لوگوں کا کام انگریز کیلئے فصلیں اور اناج پیدا کرنا یا پھر معدنیات کی کھدائی تھا ۔ ہندوستان جیسے ملک میں جب غربت و افلاس بڑھی تو لوگوں نے احتجاج کرنا شروع کر دیا ۔ اس دوران انگریز نے مقامی لوگوں کو ہندوستان کی عوام کو قابو میں کرنے کیلئے دو طبقہ پیدا کئے ۔ ایک جاگیر دار طبقہ جس کے ذریعے وہ کسانوں کو قابو میں رکھتا اور دوسرا ساہوکار اور سرمایہ دار طبقہ جو کہ کاری گر اور محنت کش طبقہ کو قابو میں رکھتا ۔جیسے جیسے غربت بڑھی ویسے ویسے محنت کش طبقہ میں شعور پیدا ہوتا چلا گیا اور مڈل کلاس بھی وجود میں آتی چلی گئی ۔ غریب چونکہ پسا ہوا تھا اس لئے اس کی کمان مڈل کلاس طبقہ نے جس میں پڑھے لکھے لوگ شامل تھے سنبھال لیاور اس نے سرمایہ دار کے خلاف احتجاج شروع کر دیا ۔ سرمایہ دار وہی طبقہ تھا جو انگریز کی اپنی ملک میں بنائی ہو ئی اشیا کو ہندوستان میں بیچتا تھا اور یہاں کے خام مال کااس کی 24 گھنٹے چلنے والی مشینوں کیلئے بندوبست کرتا تھا اس لئے اس طبقہ کے خلاف احتجاج کا مطلب تھا کہ ڈاریکٹ انگریز کے خلاف احتجاج اور انگریز کے مفادات کا نقصان ۔ انگریز نے اس احتجاج کو روکنے کیلئے تشدد کا طریقہ اپنایا اور لوگوں پر لاٹھی چارج اور نہتے ہندوستانیوں کا قتل عام معمول بن گیا ۔

قارئین یاد رکھیں انگریز کے آنے سے پہلے ہندوستان میں کوئی سیاسی پارٹی نہیں تھی یہاں پر کسی قسم کی سیاسی اور مذہبی تفرقہ بازی نہیں تھی ۔ مذہب کی بنیاد پر لڑائی جھگڑا کا شائد ہی اکا دکا واقعہ آپ کو تاریخ کے اوراق میں کہیں دھول میں اٹا ہوا مل جائے تو مل جائے ورنہ یہاں مذہبی لحاظ سے کسی قسم کی کوئی منافرت نہیں پا ئی جاتی تھی ۔ مغل دور میں مذہبی ہم آنگی اپنے کمال عروج پر رہی ۔ لوگ ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ انگریز سے پہلے مغلو ں نے اس ہندوستان پر 250 سال سے زیادہ حکومت کی اور اس وقت دنیا کی معیشت میں یندوستان کا حصہ ٪30 سے 35٪ تک پہنچ گیا اور ہندوستان دنیا کی سپر پاور میں شمار ہوتا تھا ۔ خوشحالی کے بغیر دنیا کا کوئی ملک سپر پاور نہیں بن سکتا ۔

اب جیسے ہی انگریز یہاں پر آیا تو اس نے یہاں کا معاشی نظام بدل کر رکھا دیا ۔ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ طبقہ کو معاشرہ میں اہم مقام دلایا ۔اپنا ظالمانہ قبضہ جمائے رکھنے کیلئے لوگوں میں مذہبی منافرت پیدا کی ہندو مسلم کا سوال پورے زورو شور سے اٹھایا جانے لگا ۔ مسلمانوں کو تقسیم کرنے کیلئے ان میں مذہبی فرقے کھمبیوں کی طرح پیدا کئے جانے لگے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگریز کے خلاف احتجاج دن بدن بڑھنے لگا ۔

انگریز اپنے ملک میں قانوں کا احترام ضرور کرتا تھا لیکن اس نے ہندوستان میں جو قانون لاگو کیا اس کو اس نے جبراً لوگوں کو دبائے رکھنے کیلئے استعمال کیا ۔تاکہ قدرتی وسائل کو ہڑپ کرنے پر لوگ اس کے خلاف احتجاج نہ کر پائیں۔اس نے 90 سال کے عرصہ میں اسی جبر کے ذریعے یہاں کا کلچر یہاں کی زبان یہاں کی تاریخ یہاں کا ادب بدل کر رکھ دیااور ایک ایسی ہندوستانی ایلیٹ کلاس پیدا کی جو کہ کمزور اور فاقہ کش ہندوستانیوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتی اور ان کو انگریز کی حکمرانی کو دوام دینے کیلئے دبائے رکھتی تھی۔ آج ہم پر جو حکمران ہیں یہ اسی ایلیٹ کلاس جو انگریز کے تربیت یافتہ حواری تھے کی اولادیں ہیں۔ ان کا طریقہ حکمرانی آج بھی انگریزسے کئی گنا زیادہ ظالمانہ اور سفاکانہ ہے۔ ہمارے ملک کا کوئی قانوں ان کے گریبان تک نہیں پہنچ سکتا ۔ وہ جو چاہتے ہیں کر رہے ہیں یہ کبھی حکمران ہو تے ہیں تو کبھی اپو زیشن میں انہی کی اولادیں پچھلے 75 سال سے ہم پر حکمران ہیں ۔ہمارا نظام حکومت انگریز کے اسی جبرو تشدد والے نظام حکومت کا تسلسل ہے ۔ یہ اسی کے تیار کردہ لوگ ہیں ۔۔ یہ وہی ہمارے ساتھ کر رہے ہیں جو کچھ ان کے آباؤ اجداد کو انگریز نے سکھایا کہ ہندوستانی کالوں کو کس طرح دبا کر رکھنا ہے۔ملک کا بڑے سے بڑا ادار ہ اور نظام ان کے سامنے مفلوج ہے ۔ فوج بیوروکریسی، عدلیہ انتظامیہ ہر جگہ ان کے حمائت یافتہ لوگ بڑی بڑی کرسیوں پر براجمان ہیں ۔ ان کی اولادیں بڑے سے بڑا جرم کر لیں ہمارا عدالتی نظام ان کو بچانے کی شکیں ڈھونڈ ہی لیتا ہے ۔ ان کیلئے جیلوں میں ہائی کلاسیں بنائی ہیں جہاں یہ وی آئی پی سہولتوں میں رہتے ہیں ۔ اوردوسری طرف غریب کا بچہ روٹی چوری کرنے کے جرم میں کئی کئی دن حوالات میں پڑا رہتا ہے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ۔

ہم بحیثیت پاکستانی قوم ایک ایسے عذاب میں مبتلا ہیں جس سے ہم چاہ کر بھی چھٹکارا حاصل نہیں کر پا رہے ۔
انگریز کے ان حواریوں نے ہماری نجات کے سارے دروازے بند کر رکھے ہیں ۔ ہمیں 250 سے زیادہ پارٹیوں میں اور کئی سو فرقوں میں مذہبی طور پر تقسیم کر رکھا ہے ۔اور قوم کو ایک ہونے کے تمام مواقع مسدود کر رکھے ہیں ۔ اگر قوم اکٹھا ہونا چاہتی بھی ہے اور اپنے پسے ہوئے طبقہ کیلئے کچھ کرنا بھی چاہتی ہے تو ان ظالم جاگیرداروں سرمایہ داروں اور انکے حمائیتی جرنیلوں بیورو کریٹس کو سیاسی طور محفوظ بنانے والے سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کی یہ کہ کر بار بار رٹ لگائی جاتی ہے کہ جمہوریت ہی بہترین نظام حکومت ہے اور بہترین انتقام ہے ۔ جب عوام ان انگریز کے کاسہ لیسوں سے بد ظن ہوتی ہے تو یہ چہرے بدل کر اسی جمہوری نظام کا راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں اور 95 ٪ عوام ان کے دھوکہ میں آ جاتی ہے کہ شائد اس دفعہ کچھ اچھا ہو جائے ۔ لیکن ہر بار مایوسی عوام کے حصہ میں آتی ہے اور جمہوری نظام کے یہ رکھوالے اس جمہوری نظام کی بدولت ملک کو ایک بار پھر لوٹ کھاتے ہیں ۔

یہ یاد رکھیں کہ ملک اور عوام کی اس لوٹ مار میں صرف سیاست دان شامل نہیں بلکہ اس میں ملک کی ہر لیول کے بیورو کریٹ اور اشرافیہ شامل ہے ۔ سیاست دان تو وہ لوگ ہوتے ہیں جب کو اشرافیہ اور بیوروکریسی اپنے آپ کو محفوظ کرنے کیلئے عوام کے سامنے لیکر آتی ہے ۔ سیاست دان وہ گھوڑے ہوتے ہیں جن کو ریس میں دوڑایا جاتا ہے اور ان کی ہار جیت کا فائدہ یا نقصان پیچھے بیٹھے ان کو دوڑانے والے اٹھاتے ہیں ۔

سیاستدان اور بیوروکریسی ایک تصویر کے دو رخ ہیں ۔ جمہوری نظام بغیر بیورو کریسی کی مدد کے چل نہیں سکتا ۔ ملک میں کس پارٹی کو حکمران بنانا ہے یہ ہماری ملک کی عسکری اور سول بیورو کریسی طے کرتی ہے ۔ انگریز نے عسکری اور سول بیوروکریسی کا پورا ڈھانچہ جو کہ اس وقت پاکستان اور ہندوستان میں رائج ہے بنایا ہی اسی مقصدکیلئے تھا کہ اس کے ذریعے ہندوستانی عوام پر اپنا جابرانہ تسلط قائم رکھ سکے۔اس وقت اُس بیورو کریسی کی لگا میں خود انگریز اشرافیہ کے ہاتھوں میں تھیں ۔انگریز اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے کسی حد تک قانون کی حکمرانی قائم رکھتا تھا لیکن جب انگریز یہاں سے چلا گیا تو اس خلاکو سیاسی پارٹیوں کے ذریعے پُر کرنے کی نا کام کوشش کی گئی ۔بیورو کریسی نے سیاستدانوں کو عوامی پریشر کو کنٹرول کیلئے ہمیشہ استعمال کیا لیکں حقیقی قوت کبھی بھی ان سیاستدانوں کو نہیں دی۔ اس نو زائیدہ ملک میں طاقت کا ریموٹ کنٹرول بیروکریسی نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے ۔اس بات کو آپ موجودہ حکومت کی ناکامی کی صورت میں پر کھ سکتے ہیں کہ بیوروکریسی نے کس طرح ایک عوامی حمائت یافتہ حکومت کو کچھ کرنے نہیں دیا ۔ پاکستان میں سیاستدان وہ مہرے ہیں جن کو اسٹیبلشمنٹ یا بیوروکریسی اس وقت حرکت میں لاتی ہے جب اسےعوام کے پریشر ککر کو لیک کرنا ہوتا ہے ۔سیاستدان بھی ڈگڈگی بجاتے ہو ئے میدان میں اتر آتے ہیں اور پھر خوب دھما چوکڑی ہو تی ہے الیکشنز کی صورت میں اور عوام کو نئے نئے نعروں اور وعدوں سے بہلایا جاتا ہے دھوکا دیا جاتا ہے ۔ اور عوام پھر سے ایک دو سال کیلئے ان انگریز اور اس کے دئیے نظام کے کاسہ لیسوں سے امید لگا کر سو جاتی ہے کہ شائد کل کا سورج کو ئی بہتری لے کر آئے لیکن پچھلے 75 سالوں سے یہ امید کبھی بھی بر نہیں آئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کا حل ایک ہی ہے شکلیں نہیں اس نظام کو بدلا جائے جس کی بدولت 95 فی صد عوام پچھلے 75 سالوں سے آزادی کے نام پر ان کالے انگریزوں کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو رہی ہے ۔ورنہ اب بھی نہ سنی تو تیری سزا باقی ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply