حج کا تاریخی پس منظر۔۔منہا شیرازی

ایک اور بابرکت اور نیکیوں کی بہار والا مہینہ ہم پہ سایہ فگن ہے۔
اس مہینے میں ہر صاحب استطاعت شخص پہ حج فرض کر دی گئی ہے۔
حج دینِ اسلام کا پانچواں رکن ہے ، جو کہ مالی اور اِجتماعی عبادت ہے اور اسکا مقصد رنگ نسل اور زبان کی تفریق و امتیاز کو ختم کرنا ہے ۔
اجتماعی عبادت ہونے کی وجہ سے اس کا دوسرا اہم مقصد اُمتِ مسلمہ میں یگانگت اور بھائی چارے کی فضاء قائم کرنا ہے۔
دین اسلام میں جتنی عبادات فرض کی گئی ہیں انکا مقصد انسان کی تربیت میں صبر اور برداشت کو شامل کرنا ہے ، یہی مقصد حج کا بھی ہے کہ  دور  داز سے سفر کرکے مقامِ حج تک پہنچنا اور وہاں پردیس کی مشقت اٹھانا یقیناً ایک صبر آزما کام ہے اور ایسی صورت میں صبر کرنا اور اپنے حصے کی عبادت خشوع خضوع کے ساتھ کرنا ہی حج کو مقبول بناتا ہے۔
حج بیت اللہ کے پس منظر کے بارے میں مورخین نے لکھا ہے کہ
جب الله تعالیٰ نے فرشتوں کو زمین پہ اپنا خلیفہ بنانے کی خبر دی تو انہوں نے عرض کی
کہ ہم آپکی تسبیح کیلئے ہیں تو آپ ایسے بشر کو خلیفہ بنا رہے ہیں جو زمین پہ فساد پھیلائے گا تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ
جو میں جانتا ہو وہ تم نہیں جانتے
تب فرشتوں کو اپنی عرض پہ شرمندگی ہوئی اور حالت زاری میں عرش الہی ٰکا تین دفعہ طواف کیا۔
اللہ تعالیٰ نے ان پہ خصوصی رحمت فرماتے ہوئے عرش کے نیچے بیت المعمور بنایا اور فرمایا کہ
تم اس کا طواف کیا کرو
روزانہ ستر ہزار فرشتے بیت المعمور کا طواف کرتے ہیں اور جو فرشتے ایک بار طواف کر لیتا ہے اسکی باری پھر نہیں آتی ۔
اسکے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ
اسکی مثل و مقدار کے مطابق زمین پہ میرا گھر بناؤ۔۔
جب گھر بن گیا تو اللہ تعالیٰ نے زمین پہ رہنے والی مخلوق کو حکم دیا کہ
تم اس گھر کا اس طرح طواف کرو جیسے آسمان والے بیت المعمور کا کرتے ہیں۔۔
اخبار مکہ 34:1

Advertisements
julia rana solicitors london

پھر حضرت آدم اور حضرت حوا علیہما السلام کو زمین پہ اتارا گیا تو
حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کی کہ یااللہ میں اس لذت سے محروم ہوگیا جو فرشتوں کے ساتھ بیت المعمور کے طواف میں آیا کرتا تھا ، مجھے دوبارہ وہی لوٹا دیا جائے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
تم اسی آسمانی گھر کے مقابل زمین پہ میرا گھر بناؤ اور اس میں تم اور تمہاری اولاد اس طرح عبادت کرو جیسے فرشتے میرے گھر کا طواف کرتے ہیں
سبل الھدی والرشاد 147:1۔۔
پھر نوح علیہ السلام کے زمانے میں دنیا بالکل ختم ہوگئی، اور اس کے بعد جب حضرت ابراهيم عليه السلام کا دور شروع ہوا تو الله تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی مدد سے قدیم بنیادوں کے مطابق دوبارہ بیت اللہ کی تعمیر کی
ترجمہ
بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کیلۓ بنایا گیا وہی ہے برکت والا جو مکہ میں ہے اور سارے جہان والوں کیلۓ مذکر ہے
ال عمران 96
پھر جب تعمیر مکمل ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تمام جہان والوں میں اعلان کردو کہ اس گھر کا طواف کریں
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کی
میری آواز سارے جہان تک کیسے جائے گی؟
تو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ آپکا کام اعلان کرنا ہے
تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اعلان کیا اور اللہ تعالیٰ نے انکی آواز سارے جہان تک پہنچا دی۔
اس وقت موجود انسانوں اور عالم ارواح میں جس نے بھی اس آواز پہ لبیک کہا اسے حج کی سعادت نصیب ہوئی اور ہورہی ہے۔
اس طرح حج بیت اللہ کا باقاعدہ آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں بعثت نبوی سے تین ہزار سال قبل ہوا اور کسی نہ کسی صورت میں حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی آمد تک یہ سلسلہ جاری رہا اور قیامت تک جاری رہے گا۔
اکثر مناسک اور دیگر شرائط حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منسوب ہیں پھر آقا دو عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بعض ترامیم کے ساتھ حج کا طریقہ کار مقر فرما دیا۔
اس مہینے کی دوسری اہم چیز” قربانی” ہے،
قربانی کا مقصد اپنی سب سے قیمتی چیز کو اللہ کی راہ میں قربان کرکے اپنے رب سے محبت کا ثبوت دینا ہے۔
انسان کیلئے سب سے قیمتی چیز اسکا مال اور اولاد ہے۔
مال اور اولاد کی محبت کو فتنہ اور آزمائش کہا گیا ہے اور ان کی محبت بھی بڑی ظالم چیز ہے
اور اپنے مال میں کچھ اللہ کی راہ میں قربان کرنا
اس بات کا ثبوت ہے کہ رب کی محبت کے سامنے ہر محبت ہیچ ہے۔
حضرت ابراہیمؑ کو حکم ربانی ملا کہ اپنی سب سے قیمتی چیز کو قربان کریں اور انہوں ذرا بھی دیر نہ کی اور اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کیلئے تیار ہوگئے۔
اللہ تعالیٰ کو انکا جذبہ اور عمل اس قدر پسند آیا کہ قیامت تک کیلئے اپنے مال میں سے جانور قربان کرنے کو واجب قرار دے دیا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply