اور میں نم دیدہ نم دیدہ (18)-ابوبکر قدوسی

ہماری بس مدینہ شہر میں داخل ہو چکی تھی ۔ منظم و مرتب آبادیاں اور عمارتیں ہمارے دائیں بائیں تیزی سے گزر رہی تھی ۔ میں کچھ شوق اور کچھ تجسس کے تحت سب دیکھ رہا تھا ۔سادہ خوبصورت مساجد اور خاکی رنگ کی عمارات مسلسل گزر رہی تھیں ۔ میں دیکھ رہا تھا کہ بیشتر عمارتوں کے رنگ خاکی ہیں ۔ بعد میں یہاں مقیم ایک پاکستانی دوست سے اس بابت پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس کا سبب یہ ہے کہ یہاں تیز ہوا کے ساتھ ریت کا گرد و غبار اڑتا رہتا ہے اور عمارتوں کو آلودگی سے بچانے کے لیے اس رنگ میں رنگا جاتا ہے ۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے سہاگن پیا رنگ میں رنگی جائے ، اس کے اپنے رنگ ختم ہو جائیں اور اس پر محبوب کا رنگ چڑھ جائے
بلھا کی جانا میں کون
چلتے چلتے بس ڈرائیور بڑی سڑک کو چھوڑ کر ایک بستی میں داخل ہو گیا ۔ یہ کسی محلے کی سڑک تھی معلوم ہوا کہ ہماری بس میں کچھ مسافر اس محلے میں اتریں گے ۔ اب نہیں تھا کہ وہ یہاں کے مستقل مقیم تھے یا حاجی ۔۔۔ہم مسافر حرم ، اور ہوٹلوں اور زیارات تک محدود رہتے ہیں لیکن میں اپنے سامنے ایک روائتی محلہ دیکھ رہا تھا ۔ وہی چھوٹے چھوٹے گھر اور تنگ گلیاں ۔۔میں نے بس میں بیٹھے بیٹھے ایک تصویر بنائی ۔۔۔۔
لیکن میرے لیے اس میں چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ دائیں ہاتھ پر پرانا متروک ریلوے اسٹیشن تھا جس میں بھاپ کا بنا ایک ریلوے انجن بھی کھڑا تھا ، کچھ عمارتیں اور شیڈ موجود تھے جن کو اچھے طریقے سے محفوظ کیا گیا تھا یہ سارا کچھ ایک چار دیواری میں تھا دیوار چونکہ بہت اونچی نہ تھی اس لیے سب نظر آ رہا تھا ۔ذہن میں فوری طور پر دمشق حجاز ریلوے آگئی میں سمجھ گیا کہ یہ اسی کا مدینے کا متروک اسٹیشن ہے۔ بس ڈرائیور کو یہاں پر کچھ سواریاں اتارنا تھی اس سبب موقع غنیمت جان کر میں یہ سب منظر بہت تجسس اور شوق کے ساتھ دیکھ رہا تھا ۔ یہ وہ مشہور زمانہ تاریخی حجاز ریلوے ہے جو سلطنت عثمانیہ کے دور میں ترکی سے حجاز تک کے علاقے کو ریلوے کے ذریعے ملانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا
عثمانی سلطان عبدالحمید نے یہ منصوبہ بنایا تھا ۔ عیسوی سال 1900 میں اس کا آغاز ہوا اور ابتدائی طور پر دمشق سے مدینہ تک ریلوے لائن تعمیر ہوئی ۔ جو حجاج کرام صحراؤں میں اپنی جان گنواتے اور مال لٹاتے چالیس روز میں ارض کنعان سے حجاز پہنچتے ، وہ اب محفوظ طریقے پر صرف پانچ دن میں یہ سفر طے کرنے لگے ۔ سلطان کا ارادہ یہ تھا کہ اس ریلوے ٹریک کو مدینہ سے آگے مکہ تک لے کر جائے گا اوردمشق سے یہ ٹرین چلتے چلتے قسطنطنیہ تک جائے گی ۔ یوں عالم اسلام کا ایک بڑا حصہ آپس میں مربوط ہو جائے گا مگر بدقسمتی سے کچھ عرصے بعد خود سلطان کا تختہ الٹ گیا ترکی ٹوٹ گیا خلافت ختم ہو گئی اور یہ منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا ۔کچھ ارسال پہلے اردن میں موجود اس کا کچھ حصہ دوبارہ فعال کیا گیا ہے اسی طرح اسرائیل نے بھی اس حصے کو فعال کر کے استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ ٹرین کی تکمیل کے بعد پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی جس میں یہ ٹرین فوجی مقاصد کے لیے استعمال کی گئی اور یوں اس کی حیثیت کچھ متنازعہ ہو گئی ۔ بعد میں جب عرب نیشنلزم کی ہوا چلی تو سلطنت عثمانیہ سے بغاوت کے دوران اس ٹرین اور اس کی تنصیبات پر بھی حملے کیے گئے ۔ اس ٹرین کے حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ یہ منصوبہ ایک مقدس منصوبے کے طور پر پیش کیا گیا تھا تمام عالم اسلام کے مسلمانوں کو اس سے جذباتی وابستگی تھی کیونکہ اس کا مقصد حجاز تک اچھی رسائی تھی اور حجاز ہم مسلمانوں کے دلوں کا چین ہے اس لیے تمام عالم اسلام کے مسلمانوں نے اس ٹرین کی تعمیر میں اپنا حصہ شامل کیا تھا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ تاریخی منصوبہ اب ماضی کی داستان ہے اور اس داستان کا ایک باب میرے سامنے تھا ۔ میں ابھی مدینے میں داخل ہوا تھا کہ تاریخ کا یہ پہلا ورق میرے سامنے کھل گیا ۔ میں متجسس نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔ گردا گرد دیوار تھی ۔ دیوار قد آدم سے بھی کچھ بلند تھی لیکن بس میں بیٹھا ہونے کی وجہ سے میں ٹرین کی پٹری ، ایک طرف کھڑا انجن اور پتھروں سے بنی اسٹیشن کی عمارت کو دیکھ پا رہا تھا۔ یہاں چلتے چلتے یہ بھی بتاتا چلوں کہ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ حجاز سے ترکوں کو سعودی عرب نے بغاوت کر کے نکالا جبکہ یہ خلاف واقعہ بات ہے ۔ اس بات کو بڑھاوا دینے میں سعودی مخالف مسلکی جذبات زیادہ کا زیادہ عمل دخل ہے ۔ ہمارے عام عوام کا حالت یہ ہوتی ہے کہ ان کے سامنے کوئی معمول سے ہٹ کے بات کرے تو فوراً تائید کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ سعودی بدقسمتی سے اس حوالے سے مظلوم بھی ہیں کہ تمام تر عالم اسلام کی ہمہ وقت مدد کرنے کے باوجود صرف ” وہابی” ہونے کے جرم میں ان کو برا ہی کہا جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ کی طرف سے حسین بن علی حجاز کا گورنر تھا اور اسے شریف مکہ کہا جاتا تھا ۔ اس نے دیکھا کہ عثمانی سلطنت دوسری جنگ عظیم میں ہزیمت کے بعد یورپ کے ساتھ الجھ کے کمزور ہو چلی تھی ، اور قسطنطنیہ پر مغربی طاقتیں آ کر بیٹھ گئی ہیں تو اس کے دل میں بھی خود مختاری کا سودا سما گیا ۔ اس نے 1916 میں عثمانی ترکوں سے آزادی کا اعلان کر دیا اور حجاز میں موجود ترک آفیسرز کو نکال باہر کیا ۔ یہ سب کچھ کرنے کے لیے اس نے عرب نیشنلزم کا نام استعمال کیا ۔ اس بغاوت میں اس کو برطانوی حکومت کی مکمل تائید اور تعاون حاصل تھا ۔تاریخی حقیقت یہ ہے کہ حجاز سے ترکوں کو سعودیوں نے نہیں بلکہ ان کے اپنے گورنر شریف مکہ نے نکال باہر کیا تھا ۔ دوسری طرف سعودی خاندان اپنے آبائی علاقے نجد اور درعیہ میں آل رشید سے اپنی کھوئی ہوئی سلطنت حاصل کرنے میں مصروف تھا سلطان عبدالعزیز ابنِ سعود نے اپنی خاندانی سلطنت بحال کرنے کے بعد 1924 میں آگے بڑھ کر حجاز پر قبضہ کیا اور 1925 میں مدینہ بھی اس کے قبضے میں آگیا ۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو سعودی خاندان ترکوں کا محسن بنتا ہے کہ اس نے ان کے غدار کو کیفر کردار تک پہنچایا اور اس سے غداری کے بعد قائم کی جانے والی سلطنت چند ہی برسوں میں چھین لی ۔ لیکن انتہائی دلچسپ معاملہ یہ ہے کہ ہمارے عام پڑھے لکھے لوگ بھی دھڑلے سے یہ بات کہتے ہیں کہ سعودیوں نے سلطنت عثمانیہ کو ختم کیا اور بغاوت و غداری کی ۔ جب کہ سعودی حکومت باضابطہ قائم ہونے سے بھی پہلے خلافت کو مصطفی کمال پاشا ختم کر چکا تھا ۔
دوسری طرف حجاز پر سعودیوں کا قبضہ عالم اسلام کے لیے ایک نعمت ثابت ہوا کہ جہاں حاجی اپنی جانیں گنوا کے اپنے حرم پہ پہنچتے تھے وہ اب پرامن طور پر اپنے مناسک حج ادا کرنے لگے ۔
مدینے میں واقعہ اس ٹرین اور تاریخی اسٹیشن کو دیکھ رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ تاریخ کے کتنے ہی اوراق میرے سامنے پلٹ رہے تھے ۔
تھوڑی دیر میں ہماری بس والا چل دیا اب ہم ہوٹل کی طرف جا رہے تھے ۔
مدینہ شہر پھر دائیں بائیں تھا ۔ بس کافی دیر تک ہوٹل ہوٹل پھرتی رہی اور ان ہوٹلوں کے بیچ بیچ میں پھرتے پھراتے مسجد نبوی کے مینار آتے نظر اتے ، چھپ جاتے ، پھر نظر آتے اور پھر چھپ جاتے ، حتیٰ کہ تمام سواریاں اتر گئیں ۔ بس پھر اس علاقے سے دور نکلنے لگ گئی ، مجھے تھوڑی الجھن ہو رہی تھی کہ اتنا قریب آ کے ہم پھر دور کیوں ہو رہے ہیں ۔ میں نے ڈرائیور سے پوچھا کہ آپ ہمیں پھر دور کیوں لے کے جا رہے ہیں تو اس نے بتایا کہ مسجد نبوی کے بعض اطراف توسیع کے ارادے سے حکومت نے مکمل طور پر گرا دیے ہیں اور اس سبب بہت سے راستے بند ہیں ۔ ہوٹل مسجد کی دوسری طرف ہے اور وہاں تک جانے کے لیے ایک لمبا چکر کاٹنا ہوگا ۔
مجھے کچھ تسلی ہوئی اور میں بیٹھ گیا اور شہر کو دیکھنے لگ گیا ۔ مسجد نبوی کے علاقے میں ایک بڑا پل نظر آ رہا تھا اور ہم اس کے پہلو سے گزر رہے تھے ۔ ٹریفک رکی تو میں دیکھنے لگا کہ اس پل کے نیچے بڑے جہازی سائز کے ستون کیسے عمدہ طریقے سے بنائے گئے تھے ۔ اسلامی طرز تعمیر ان ستونوں پر بنے ڈیزائن میں بھی نظر آ رہا تھا ۔ انسان جب ملک سے باہر ہوتا ہے تو لاشعوری طور پر وہ مختلف مقامات ، ثقافت ، تہذیب اور تمدن کا اپنے ملک سے مقابلہ کرتا ہے ۔ ہمارے لاہور میں پچھلے کچھ برسوں میں ” انڈر پاسز” اور پلوں کا جنگل اگ آیا ہے ۔ ایک دہائی سے زیادہ مدت گزری میٹرو بس بنے ہوئے اور چار برس کے قریب تو اورنج ٹرین کو بھی ہو گئے ہیں ۔ یہ دونوں طویل ، پورے شہر کو عبور کرتے دسیوں کلومیٹر لمبے پل پر چلتی ہیں ۔ نیچے اسی جہازی سائز کے ستون ہیں اور کوئی ایک ستون بھی ایسا نہیں جو اشتہارات سے بھرا ہوا نہ ہو یا بے ڈھب نہ ہو ۔ میٹرو بس کے ستونوں پر پنجاب حکومت نے لوہے کا جنگلا لگا کے چھوٹے چھوٹے گملے لگا دیے کئی مہینے میں جا کے وہ مکمل ہوئے اور کروڑوں روپے اس پر صرف ہوئے ۔ یقین کیجئے تکمیل کے بعد ایک مہینہ بھی سلامت نہ رہ سکے ۔ گملے جانے کہاں گئے خالی لوہے کا جنگلا باقی ہے ۔اورنج ٹرین کے ستون گولائی میں ہیں ، تکمیل کے بعد ان پر پینٹ کر دیا گیا تھا اور اب وہ اشتہارات کے کام آتے ہیں ۔ جبکہ میں یہ دیکھ رہا تھا کہ یہ پل اور ان کے نیچے ستون کیسے صاف ستھرے طریقے سے بنائے گئے ہیں ، سڑکوں سے گھومتے گھماتے ہم پھر ہوٹلوں کے علاقے میں داخل ہو چکے تھے ۔ مدینہ ہموار زمین پر واقع ہے ایک میدان کی صورت ۔ مکہ کی نسبتاً یہاں اونچے نیچے علاقے کم ہیں ۔ ہمارا ہوٹل البیک کے بالکل سامنے تھا وہ جو اقبال نے کہا تھا نا
چھوٹے نہ لندن میں مجھ سے آداب سحر گاہی
سو ہم سے بھی البیک چھوٹ نہیں رہا تھا ہمارے ہوٹل کے عین سامنے البیک کی مسجد نبوی والی برانچ تھی ۔ بہت صاف ستھرا بازار تھا ، ایک ترتیب میں ہوٹل بنے ہوئے تھے ۔ اس حسنِ تعمیر کو داد دینے کو جی چاہ رہا تھا ۔ بس رکی ، سامان اترا اور میں ہوٹل کے ریسپشن پر چلا گیا ۔ مؤذن الٰہی ظہیر نے لاہور سے مقامی ایجنٹ کا نمبر بھیجا ہوا تھا ۔ ان صاحب کو فون کیا ، وہ پاکستانی تھے ۔ انہوں نے کہا کہ :
” ابھی ہوٹل میں کمرہ خالی نہیں ہے جیسے ہی کمرہ خالی ہوتا ہے تو آپ کو کمرہ مل جاتا ہے ۔ آپ کو دو اڑھائی گھنٹے انتظار کرنا پڑے گا سو ہوٹل کے لاؤنج میں بیٹھ جائیے تھوڑی دیر میں میں ابھی ا جاتا ہوں”
یہ طویل مکالمہ اور اعتذار سن کر طبیعت کچھ الجھی ، لیکن پردیس میں آپ کے پاس واحد حل ” بے بسی ” ہوتا ہے ۔ ہم بیٹھ گئے تو ایک بار پھر مجھے خیال آیا کہ کاؤنٹر والے سے بات تو کروں ۔ وہ نرم مزاج نوجوان تھا اس نے ایجنٹ کا پوچھا میں نے نام بتایا تو اس نے کہا ” ہاں آپ کا کمرہ بک بھی ہے اور خالی بھی ہے” ۔ اور معمولی سی کاغذی کاروائی کر کے چابی میرے ہاتھ میں پکڑا دی اور میرے ایجنٹ صاحب جنہوں نے دو گھنٹے بعد آنا تھا وہ دو گھنٹے بعد بھی تشریف نہ لائے ۔ ممکن ان کو پتہ چل گیا ہو کہ ہمیں کمرہ مل گیا ہے ۔ لیکن اس سے یہ اندازہ ہوا کہیہ معاملات ان کا روز کا معمول ہوتا ہے تو یہ ایجنٹ نہ تو اتنے حساس ہوتے ہیں اور نہ ہی اتنے فعال ، جبکہ حاجی سفر سے تھکے آتے ہیں سو وہ چاہتے ہوتے ہیں کہ بھلے ان کو خصوصی پروٹوکول نہ ملے لیکن بلا سبب رکاوٹیں پیدا نہ ہوں اور وہ سہولت کے ساتھ اپنے جائے استقرار پر پہنچیں ۔
ہم سامان اٹھا کے کمرے میں چلے گئے ، کمرہ دیکھ کر خاصی مایوسی ہوئی ووکو ہوٹل سے اس کا کرایہ فی روز سو ریال زیادہ تھا اور کمرہ اس سے کئی گنا غیر معیاری تھا ۔ لیکن تھکاوٹ کے سبب سب بھول دیے اور کمر سیدھی کرنے کے لیے لیٹ گئے ارادہ تھا کہ کچھ وقت آرام کر کے عصر کی نماز مسجد نبوی میں ادا کی جائے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply