حمید شاہد کی”خوشبو کی دیوار کے پیچھے”/سلمیٰ اعوان

افسانوں پر بات ہو،ناول زیر بحث ہو،تنقید جیسی مشکل اور خشک صنف ہو، شاعری میں کلاسیکل شاعر کی چنیدہ شاعری کا انتخاب ہو،غیر ملکی ادب پر اظہار خیال کرنا ہو۔ حمید شاہد نے ہر صنف میں اپنی انفرادیت ہی پیدا نہیں کی بلکہ گزرتے وقت نے ان کی ذات،حلقہ یاراں،ملکی و دنیا کے حالات سے جان کاری، مطالعے، تجربات اور مشاہدات سے حاصل شدہ قیمتی اثاثے کو جس جس صورت اور انداز میں ان کی جھولی میں ڈالا وہ ان کی تحریروں میں پوری شدت سے نمایاں ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors

‘‘بند آنکھوں سے پرے’’،‘‘سانس لینے میں درد ہوتا ہے’’،‘‘گندم کی مہک’’ناول‘‘مٹی آدم کھاتی ہے’’، ‘‘جنگ میں محبت کی تصویر نہیں بنتی’’۔ اسی طرح میر کی غزلیات ،راجندر سنگھ بیدی ،غلام عباس، خالدہ حسین اور دیگر اہم شخصیات پر بہت سارا تنقیدی کام اور اس کے معیار نے انہیں برصغیر کے نامور ادیبوں میں کھڑا کردیا ہے۔اُن کی لگن اور محنت نے ایک طرف اگر انہیں دانشوری کی مسند پر بٹھایاتو وہیں انہیں ایک مستند صاحب علم لکھاری اور تنقید نگار کا درجہ بھی دیا۔
‘‘خوشبو کی دیوار کے پیچھے’’ ان کی حال ہی میں چھپنے والی ایسی خودنوشت ہے۔جس کے ہر صفحے پر فکر و آگہی کے پھول کھلتے ہیں اور اختتام تک کھلتے ہی چلے جاتے ہیں۔ نامور ادیبوں کے اقتباس آپ کو متوجہ کرنے کے ساتھ صاحب کتاب کے صاحب علم ہونے کا ثبوت بھی دیتے ہیں۔
کتاب ایک بڑے دائرے کی صورت میں سامنے آتی ہے۔جسے زندگی کے پہلے سانس کی سسکی کی پرکار آٹھ حصّوں میں تقسیم کرتی ہے۔پہلا حصّہ ذات اور اس سے وابستہ رشتوں اور ماحول کا ہے۔ماشاء اللہ سے سات بھائیوں اور دو بہنوں پر مشتمل یہ کنبہ جس کی ہر تفصیل اتنی دلچسپ اور خوبصورت ہے کہ افسانے کو مات کرتی ہے۔
سچی بات ہے میرے ہونٹوں پر ہنسی بکھری تھی کہ حمید شاہد کے ابا بادشاہ تھے کیونکہ ہماری طلسمی کہانیوں کے بادشاہوں کے نصیب میں اکثرو بیشتر سات بیٹے یا سات بیٹیاں لکھ دی جاتی ہیں۔
سبت یہودیوں کا مقدس دن جو حمید شاہد کی پیدائش کا دن ہے۔عشق او لڑاجی جنجال کیا غضب کی کہانی ہے ۔سچی اور سُچی کہانی۔انوکھے اور نرالے کردار جو کسی نہ کسی رنگ میں ہر دور میں پیدا ہوتے ہیں۔والد کی زندگی کے دلچسپ قصے ،اماں کا کردار۔ کتاب میں ایک جدت یہ بھی نظر آتی ہے کہ یہ ماضی میں ہی سفر نہیں کرتی۔مصنف کا بچپن اور بڑھاپا اکثر و بیشتر ساتھ ساتھ چلتے ہوئے حال کے ننھے منے کرداروں کے ذریعے اسلوب میں رنگینی پیدا کرنے کا بھی موجب بنتے ہیں۔
مصنف کے سکول کے دنوں کا احوال بھی کیا لطف بھری چیز ہے۔ایک قمیض میں ہی لڑکوں کا بھاگتے پھرنا اور اگر شلوار یا پاجامہ پہنایا جاتا تو آسن کی جگہ کھلی رکھی جاتی کہ بچے کو گو مُوت کرنے میں سہولت رہے۔تختیوں کو گاچی سے پونچنے اور قلمیں گھڑنے اور دوات میں کپڑا اور کالی سیاہی ڈال کر سیاہی بنانے کا عمل۔‘‘ ہائے رے بچپن۔کچھ کہانیاں ’’کا کا گل محمد، اپنی اماں کی اماں، چرمی دستانے والا،پیرو جیسے دلچسپ کردارجنہیں پڑھتے ہوئے لطف آتا ہے۔
ختنے کی رسم ،نام رکھنے کی روایت گھر کے بڑے کی اِس ضمن میں دینی اور روایتی سوچ کی حکمرانی ،ضلع اٹک کایہ مارشل ریس کا علاقہ جس کے لوگوں کے خدوخال اور دراز قامتی سے لے کر ان کی بہت سی خصوصیات کا تفصیلی ذکر کا پڑھنے کو ملتا ہے۔
ہاتھ کی لکیروں کا ذکر جس میں حمید شاہد کی اِس علم میں ذاتی دلچسپی اور اپنے دوستوں کے ساتھ اس موضوع پر تفصیلی معلومات پامسٹری کے شائقین کے لیے دلچسپی کا باعث ہیں۔ میں تو خود اِس فن کے پرستاروں میں سے ہوں۔
طالب علمی کا زمانہ اور ایوب خان کا دور اقتدار اور میری جوانی کا زمانہ اسے ایک نئے رنگ میں پڑھنا بہت دلچسپ لگا۔پاکستان کے دو لخت ہونے کی داستان پڑھتے ہوئے کیا کچھ نہ یاد آیا۔بہت بار آنکھیں گیلی ہوئیں۔یہ دکھ جسے میں نے 1970میں اور ڈھاکہ یونیورسٹی کی ہر ہر دیوار پر لکھا ہوا پڑھا تھا۔
بیانیہ اِن علاقوں کے رہتل و وسیب اور ثقافتی رویوں کی دلکش تصویریں کھینچتا ہے۔ جنہیں پڑھتے ہوئے معاشرے کے بہت سے کردار اور چیزیں جیسے مثلاً پینجے والا،بھڑے اورمانٹریاں جو میری بھی یادوں کا ایک حصہ ہیں اور جو وقت کی دھول میں کہیں گم ہوگئی ہیں۔ اب پڑھنے پر یاد آئی ہیں۔
“ہدف سے بیگانہ تیر” کتاب کا تیسرا اہم حصّہ ہے۔مصنف کی عملی زندگی کی جدوجہد کی داستان سردار عبدالرب نشتر کے بیٹے جمیل نشتر اور مختار مسعود جیسی ہستیوں سے ملاقاتیں،ریفرنڈم اور اوجڑی کیمپ کا واقعہ اس کے اسباب و اثرات مقدر کی تختی پر لکھی ہوئی محبت کا نزول جس میں یاسمین شریک حیات کے طور پر شامل ہوئی۔ انسانی زندگی کا یہ افسانوی سا حصّہ ہمیشہ ہی لوگوں کے لیے دلچسپی کا موجب ہوتا ہے۔یاسمین کی محبت کے والہانہ انداز سے میں نے بہت لطف اٹھایا۔گھر ،بچے،نوکری ،ادبی سرگرمیاں اور ادبی دوست سب کے احوال پڑھتے ہوئے بہت سے پہلو آشکارہ ہوتے ہیں۔
کتاب کے سیاسی واقعات اہم شخصیات ،اہم معاشی و معاشرتی مسائل کی جھلک مانوس ہی نہیں ہے۔۔بہت جانی پہچانی ہے کہ وقت کے اس بہاؤ میں ہمارا زمانہ بھی گزرا ہے۔فرق تجربے اور مشاہدے کا ہے کہ کرداروں اور واقعات کو دیکھنے محسوس کرنے اور برتنے کا حمید شاہد کا اپنا رنگ اور اپنا نقطہ نظر ہے۔
کتاب کا ایک حصہ ادب اور ادیبوں پر مشتمل ہے ۔وہ ادیب جنہیں آپ جانتے اور جن سے محبت کرتے ہیں۔ جن سے آپ کے دل کے ناطے جڑے ہوئے ہیں۔ان میں اکثریت بڑے ادیبوں کی ہے۔ ان سے تفصیلی شناسائی حمید شاہدکرواتے ہیں۔ اس میں کچھ وہ لوگ بھی ہیں جن سے آپ کی صرف کتابی شناسائی ہے۔ ان کی تصویریں بھی حمید شاہد دکھاتے ہیں۔مجھے کہنا ہوگا کہ 450صفحات کی یہ کتاب اگر بیک وقت پاپولر فکشن جیسی صورت لیے ہوئے ہے تو وہیں اپنے عہد کے کڑے حقائق کی نمائندگی کرتے ہوئے دستاویزی بن گئی ہے۔
میرے خیال میں ‘‘ہست زندگی کا گیت’’ اس کتاب کا تلخیص نامہ ہے۔ موجیں مارتے دریا کو کوزے میں بند کرناحمید شاہد کا ہی کارنامہ ہے۔اس گیت کو ذرا سنئیے۔
میری زندگی پہاڑی ندی کے سفر زاد پانی جیسی رہی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اس پانی کی منزل فنا کا کڑوا سمندر ہے مگر اس کی موج موج سے جو مدھر اور حیات افزا گیت پھوٹتا ہے اس نے مجھے گرفتار رکھا ہے۔ہراوبڑ کھابڑ،ہر روڑا پتھر اور ہر رکاوٹ میرے لیے کسی ستارے کے تنبے کی جواریوں پر سے گزرتی تنی ہوئی تاریں ہیں جو چوٹ پڑنے پر گنگنانے لگتی ہیں۔ہر بار پانی کا دھارا رکاوٹوں سے ٹکراتا ہے اور فضا میں گیت اچھال دیتا ہے۔یہی میری ہست ندی کا گیت ہے۔ یہ محض میری ہڈبیت یا دکھ سکھا کا روایتی قصہ نہیں ہے۔میں جیسا ہوں مجھے ایسا بنانے اور اس وجود کی عمارت کی تعمیر میں اینٹ گارے کا کام دینے کے لیے میری محبتیں ،میری الجھنیں ،میری نجی،پیشہ ورانہ اور ادبی زندگی کے علاوہ سماجی، سیاسی اور تہذیبی واقعات اور سانحات بھی بہم ہوتے رہے ہیں۔یوں یہ کہانی ایسا آئینہ ہوگئی ہے جس میں آپ چاہیں تو اپنا چہرہ بھی دیکھ سکتے ہیں اور اپنے اغل بغل کی چہل پہل اور اکھاڑ پچھاڑ بھی۔اس نہج سے دیکھیں تو میری زندگی میری کہاں رہی ہے؟کہ اس امیں انہدام کی زد پر آئی ہوئی تہذیب، تیزی سے پچھڑتی ہوئی محبوب روایات،ٹوٹتے بنتے سماجی رشتے، سیاست دانوں کی لوٹ مار، قومی اداروں کی توڑ پھوڑ،مقتدر قوتوں کی من مانیاں،ٹکڑوں میں بٹتی ریاست، دہشت کے لہو میں غرق ہوتا قومی وجود، وبا کا لقمہ بنتے پیارے لوگ اور ادبی گہما گہمی سمیت زندگی کا ہر پہلو متن ہوگیا ہے۔اس ہنگامے کے اندر سے مجھے زندگی کی معنویت کا ایک گیت سنائی دیتا رہا ہے۔ وہی گیت میں آپ کی محفل میں سنانے آگیا ہوں۔
اس کتاب کی بہت نمایاں خوبی اس کا اسلوب ہے۔ سچائی اس کا حسن ہے۔ تحریر کی سادگی کے رنگوں کی کہیں اگر پچکاریاں ہیں تو وہیں دانش و حکمت کے موتیوں کی چمک دمک آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ضخیم ہونے کے باوجود یہ آپ کے سرہانے جگہ لیتی ہے۔اس میں طلسم کی چاشنی ہے۔اس میں میرے اور آپ کے عہد کی خوشبو ہے۔اس میں مشترکہ دکھوں کی سانجھ ہے۔
یہ بھی اعتراف کرنا پڑے گا کہ کتاب مصنف کے عہد کی تمدنی زندگی کا گویا وہ آئینہ ہے جس میں ہمیں اگر شناسائی کے رنگوں کی جھلک ملتی ہیں تو وہیں کچھ مختلف رنگ بھی نظر آتے ہیں۔
٭٭٭

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply