“آپ کو ملاؤں سے کیا تکلیف ہے؟ ہر وقت ان کے خلاف لگے رہتے ہو ۔ ”
یہ الفاظ وقفے وقفے سے میرے کانوں میں پڑتے رہتے ہیں۔ فیس بک ہو یا کوئی نجی مجلس۔ کوئی ادارہ ہو یا عوامی محفل۔ بہر حال بہت سارے احباب کبھی طنزیہ تو کبھی سنجیدہ ہوکر ان الفاظ سے میری آؤ بھگت کرتے ہیں۔ خدا ان کو جزائے خیر دے۔ وہ خیر خواہی کی بنیاد پر ایسا کرتے ہیں۔
یہ بات بہت واضح رہے کہ میں کسی صورت مسجد کے مُلا یا مدرسے کے مدرس کیخلاف نہیں رہا۔ ہر دور میں ان کی ہی وکالت کی ہے۔ مسجد کے مُلا اور مدرسہ و مکتب کے مولوی پر مجھے ہمیشہ فخر رہتا ہے۔ مسجد و مکتب کے اس فقیر مُلا کے کردار سے میں واقف ہوں۔ مجھے اگر شکایت رہتی بھی ہے تو اس فقیر مُلا کے نام پر اپنا اُلو سیدھا کرنے والوں سے رہتی ہے۔ شاید آئندہ بھی رہے گی۔
کیا ہم سب نہیں جانتے کہ گلگت بلتستان کی ٹھٹھرتی سردی ہو، جو انسان کے خون کو منجمد کردیتی ہے، تہجد کے وقت یہی مُلا مسجد جاکر ٹھنڈے پانی سے وضو کرکے بغیر کسی تاخیر فجر کی اذان دے رہا ہوتا ہے۔یا پھر چلاس اور سبی کی جھلساتی گرمی میں عین دوپہر ایک بجے مسجد سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند کررہا ہوتا ہے۔
جانتے ہو محلہ کمیٹی دن میں پانچ اذانیں دینے، مسجد کی صفائی کرنے اور ان کے سو سے زائد بچوں کو قرآن پڑھانے والے اس مُلا کو کیا دیتی ہے ؟ بخدا یہ تفصیل لکھ دی جائے تو کلیجہ منہ کو آوے۔ مگر کیا اس مُلا نے احتجاجاً اذان نہیں دی یا تاخیر سے دی۔؟ آج تک ایسی کوئی شکایت درج نہیں ہوئی۔
انصاف سے بتاؤ ،
کسی کے سینے میں دل ہو اور وہ اس فقیر مُلا کا مخالف ہوسکتا ہے جو اپنی فیملی اور گھر سے کوسوں دور انتہائی مشکل ڈیوٹی دے رہا ہے اور صِلے میں چار پانچ ہزار کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
نہیں جی۔
کیا ہم نہیں جانتے کہ اس فقیر مُلا کے لیے ریاستی سسٹم میں کوئی گنجائش نہیں۔
اسکی پُشت پر کوئی این جی او نہیں اور نہ ہی کوئی سیاسی و مذہبی تنظیم موجود ہے۔
ایک بات ذہن میں رکھیں۔ میں گزشتہ 23 سال سے مدارس سے منسلک ہوں ۔ آپ کو شاید یہ معلوم نہ ہو کہ مدارس میں دو قسم کے مولوی ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کو سب جانتے ہیں۔ لمبےلمبے شملے ہوتے ہیں ان کے۔ بڑی بڑی گاڑیاں ہیں۔ بڑے بڑے کاروبار چل رہے ہوتے ان کے اور دنیا بھر کے سفر بھی کرتے ہیں۔ لوگ ان کی آؤ بھگت بھی کرتے ہیں۔ یہ ایک فیصد ہیں بلکہ اس سے بھی کم۔
مدارس و مکاتب کے وہ اساتذہ جو انتہائی غیر معروف ہیں۔ محلے کے لوگ تک ان کو نہیں جانتے۔ عمومی طور پر یہ مدرس لوگ تین تین چار چار عشرے انتہائی کم تنخواہ اور سہولیات میں قرآن و حدیث اور دیگر اسلامی علوم کی تدریس کرتے ہیں۔ ان کے پیچھے بھی کوئی نہیں ہوتا۔ نہ کوئی تنظیم، نہ کوئی نیشنل انٹرنیشنل رفاہی و فلاحی ادارہ۔ ریاستی سسٹم میں بھی ان کے لئے کچھ نہیں ہوتا۔ ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے محلہ کمیٹی بھی نہیں ہوتی۔ بس یہ لوگ بھی مہتمم کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔
ان کے لیے کوئی نعرہ نہیں لگاتا۔
نہ وہ ہٹو بچو کے عادی ہوتے ہیں۔
نہ ہی وہ اپنی تشہیر و تعریف کا کوئی سلسلہ چلا رہے ہوتے۔
نہ میڈیا اور سوشل میڈیا میں ان کے حق میں کوئی کمپین چل رہی ہوتی ہے۔
آج تک کسی نے ان کو قابل التفات ہی نہیں سمجھا۔اس پر بھی انہیں کوئی شکایت نہیں۔
بس یہ فقیر منش لوگ درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں اور اپنی اولاد کو بھی اسی میں لگا دیتے ہیں اور اپنے تلامذہ کو بھی تدریس کی تلقین کرتے رہتے ہیں ۔ خود بھی تھوڑے پر قانع رہتے ہیں اور اپنی اولاد اور شاگردوں کو بھی قناعت پسند بنانے کے مشن میں جُتے رہتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ دین کا سلسلہ اسی طرح ہی چلے گا۔ یہی صفہ والوں کا کردار ہے۔
ایک بدیہی بات ہے کہ مسجد کا مُلا ہو یا مدرسہ و مکتب کا غیر معروف مدرس، انہی کی بدولت دین کا سلسلہ چل رہا ہے۔ انہی کی مرہون منت دین اسلام کی شمع ہزاروں سال سے جل رہی ہے۔ احکامات دین ہم تک پہنچ رہے ہیں۔ مساجد و مدارس انہی کے دم سے جلا بخش رہے ہیں ۔شاید قیامت تک یہی سلسلہ جونہی چلے۔ شاید اللہ کی مشیت بھی یہی ہو۔شاید دین کو حقیقی بنیادوں پر پھیلانے کا باوقار طریقہ بھی یہی ہو۔ یہی دیندارہے دین فروشی نہیں۔
بخدا! اس طبقے کی برائی بارے سوچنا بھی ظلم عظیم سے کم نہیں۔ کوئی دشمن اور کم ظرف بھی ایسا نہیں کرسکتا۔
صدیوں سے یہ طبقہ بغیر کسی شکوہ وشکایت کے دین اسلام کو ہمارے ساتھ جوڑے رکھا ہوا ہے۔
جانتے ہو، کیا ہوگا۔
خدانخواستہ اگر یہ طبقہ بھی نہ رہا تو معلوم نہیں ہمارا کیا بنے گا۔ اللہ اس جگہ کسی اور طریقے / طبقے سے دین فہمی کی اس کڑی کو زندہ ضرور رکھےگا مگر ہم مسلمانوں پر لازم ہے کہ ہم اس طبقے کی قدر کریں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں