ایک قابل رشک زندگی/الیاس نعمانی

1981 میں میں پیدا ہوا تو والد ماجد ندوہ کے استاذ تھے اور اسی کے کیمپس کے ایک مکان میں گھر والوں کی رہائش تھی، عمر کے ابتدائی بیس برس اسی مکان میں گزرے، پھر والد ماجد نے لکھنو میں اپنا گھر بنا لیا تو ہم وہاں منتقل ہوگئے، یہ 2000 کے آخر کی بات ہے، اس نئے مکان میں آکر آباد ہوئے تو محلہ کی مسجد میں جن لوگوں سے تعلق قائم ہوا ان میں ایک عبید اللہ خان صاحب ہیں، ریٹائرڈ فوجی، لیکن عجیب معمولات والے، تہجد کے وقت مسجد آتے پھر اشراق کے وقت جاتے، ظہر میں نماز سے ایک گھنٹہ پہلے آجاتے، پھر نماز پڑھ کے جاتے، عصر کے وقت مسجد آتے تو عشا بعد واپس ہوتے، یہ روزانہ کا معمول تھا، قلبہ معلق بالمساجد کی ایسی مثال اس سے پہلے نہیں دیکھی تھی، لیکن اس معمول کا مطلب یہ نہیں تھا کہ گھر سے کوئی مطلب نہ ہو، اشراق کے بعد سے لے کر ظہر کے لیے مسجد آنے تک کا وقت گھر کے کاموں میں ہی گزرتا.
یہ سب کچھ ہی کیا کم قابل رشک تھا کہ 2009 میں جو معلوم ہوا اس نے اس رشک کی کیفیت کو دو بالا کردیا، ایک دن انہوں نے بتایا کہ وہ جموں کشمیر جارہے ہیں، سبب دریافت کرنے پر بتایا کہ وہ اپنی سروس کے آخری پانچ برس جموں کے ضلع ادھم پور میں تعینات رہے تھے، وہاں ان کا کیمپ جس جگہ تھا وہاں پاس میں ایک گاوں جیو نگر تھا، جہاں آباد مسلم گھرانے مکمل ہندوانہ تہذیب کے ساتھ رہتے تھے، آس پاس کوئی اور مسلم آبادی نہیں تھی، یہی وجہ تھی کہ ان کی بڑی تعداد کلمہ تک سے نابلد تھی، وہ روزانہ کچھ وقت نکال کر وہاں جانے لگے اور وہاں کے مسلمانوں میں تبلیغ کا کام کرنے لگے، چند دنوں کی ہی محنت سے گاؤں کے مسلمان دین سیکھنے اور ناظرہ قرآن مجید پڑھنے کے لیے راضی ہوگئے، اب روزانہ کا معمول یہ تھا کہ عبید اللہ صاحب صبح اپنے کیمپ سے اس گاوں جاتے اور ایک چبوترے پر دو گھنٹے کا مکتب لگ جاتا، جہاں گاوں کے مرد، عورتیں اور بچے ان سے دین کی بنیادی باتیں سیکھتے، اور ناظرہ پڑھتے، یہ سلسلہ تقریبا پانچ برس رہا، پھر وہ 1990 میں ریٹائر ہوکر وہاں سے واپس آئے، لیکن اس حال میں کہ گاوں میں دین کا چرچا تھا، اور نام کے مسلمان باقاعدہ مسلمان ہوچکے تھے.فوج کے نظام سے تھوڑی بہت بھی واقفیت رکھنے والے اندازہ کرسکتے ہیں کہ انہیں روزانہ دو ڈھائی گھنٹے کی اجازت حاصل کرنے کے لیے اپنے آفیسران کو کیسے آمادہ کرنا پڑا ہوگا. لیکن جب بندہ کچھ ٹھان لے تو راہیں نکل ہی جاتی ہیں.
خیر 19 برس بعد یعنی 2009 میں انہیں خیال آیا کہ وہ اس گاوں جاکر دوبارہ وہاں کے حالات دیکھ کر آئیں. اسی ارادہ سے لکھنو سے سفر کرکے اس گاوں میں پنہچے تو گاوں کا نقشہ ہی بدل چکا تھا، معلوم ہوا کہ ان کی واپسی کے بعد گاوں والوں نے ایک مسجد اور مدرسہ کی تعمیر کرلی تھی، اور گاوں میں جو دینی فضا قائم کرکے وہ گئے تھے وہ قائم ہی نہیں رو بہ ترقی ہے.
بندہ خدمت دین کی سعادت حاصل کرنا چاہے اور توفیق خداوندی ساتھ ہو تو ہر طرح کے حالات اور مواقع میں وہ اس سعادت کے راستے نکال ہی لیتا ہے. اور اگر ایسا نہ ہو تو ہر جگہ محروم ہی رہتا ہے.
عبید اللہ خان صاحب کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں سروس کے ابتدائی زمانہ میں ایک طویل عرصہ دہلی رہنے کا موقع ملا اور انہوں نے اس عرصہ میں لسان التبلیغ مولانا عبید اللہ بلیاوی کی خدمت میں حاضری کو اپنا مستقل معمول بنالیا، پھر یہیں سے ان کی راہ نمائی حضرت حافظ مقبول صاحب (خلیفہ حضرت مولانا الیاس صاحب) کی جانب ہوئی، حضرت سے اصلاحی تعلق قائم ہوا اور مسلسل استفادہ رہا، زندگی کا یہ رنگ بظاہر ان ہی حسین صحبتوں کا نتیجہ ہے.
اگر کوئی شعیب آئے میسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply