نظام کوزہ گر اور تازہ مٹی۔۔محمد وقاص رشید

اس ملک میں جاری یہ اشرافیہ کا نظام ایک وحشی کوزہ گر ہے ۔ایک پتھر دل خود غرض،خود پسند اور حریص فنکار،چاک یہ سرزمین ہے، جو مسلسل گھوم رہی ہے، مٹی یہ کروڑوں بے نام و نشان انسانوں کے جسموں سے حاصل کرتا ہے جن کے جسم تو کیا شاید روحیں بھی مٹی سے اٹھائی جاتی ہیں، کیونکہ عمر بھر وہ اس مٹی سے یوں جڑے رہتے ہیں جیسے بھیڑ میں بچہ ماں سے۔  تو سچ ہی ہے ناں یہ مٹی ہی تو انکی ماں ہے،نام نہاد جینے سے لے کر مر کھپ جانے تک یہی تو انکو آغوش فراہم کرتی ہے،انکی اپنی ماں کی آغوش تو خود ایک مٹی کا کھوکھلا گھروندا ہوتی ہے،جس کی ممتا کو کوزہ گر کی دی ہوئی افلاس کا گھن کھا جاتا ہے۔

ان جسموں کو پکانے کے لیے ایندھن یہاں انسانی حیات بنتی ہے،نظام کوزہ گر پہلے یہاں پر رہنے والوں کو بھوک تقسیم کرتا ہے،اسکا ماننا ہے کہ ہڈیوں پر زیادہ ماس نہ ہو تو مٹی خستہ حاصل ہوتی ہے ۔مدقوق جسموں کی یہ خاک بھٹی میں اس لیے جلدی پک کر تیار ہوتی ہے کہ پہلے سے انہیں بخت کی دھوپ نے جھلسا رکھا ہوتا ہے ۔پیٹ خالی ہو تو اس مٹی کو سیراب کرنے والا لہو خالص ہوتا ہے۔ چھاننا نہیں پڑتا،کوزہ گر ان جسموں کے ڈھیلوں کو سیراب کرنے کے لیے انہی کا لہو استعمال کرتا ہے،مٹی کو زیادہ وتر لگ جائے تو یہ استعمال کے قابل نہیں رہتی اس لیے ان جسموں میں زندگی بھر خون جلایا جاتا ہے ۔شبِ حیات کی منڈیروں پر حسرتوں کے چراغوں میں انکا خون ہی تو جلتا ہے ۔غربت و افلاس کی ماری ہڈیاں جیتے جی بھی گندم کے خداؤں کے سامنے حالتِ رکوع میں ہوتی ہیں اور مر کر بھی چاک پر سجدہ ریز ہو جاتی ہیں۔  کروڑوں عباد کی یہی عبادت ہے یہاں۔

عبادت سے یاد آیا،مذہب ، نظام کوزہ گر کا دستِ راست ہے۔۔ مذہب کے کرتا دھرتا نظام کوزہ گر کو جسموں کی مٹی فراہم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ اسی لیے آپ کبھی اماموں کے جسم مقتدیوں جیسے نہیں دیکھیں گے،جوشِ خطابت بھرے ہوئے پیٹ کا ہاضمہ ہوتی ہے،مدقوق چہروں اور بھوک سے نچڑے ہوئے گالوں سے صبر اور بخت و تقدیر کے حق میں نعرے ہمیشہ سرخ و سفید چہروں والے لگواتے ہیں،اسی لیے یہ لوگ حال پر لوگوں کو اکٹھا کرنے کی بجائے ماضی پر تقسیم کرتے ہیں،یہ تفریق نہ کریں تو انکے مفادات نہیں کھاتے، یہی انکی مذہبی ریاضی ہے۔ اسی لیے یہ لوگ انسانیت پر کبھی اس حساسیت کا مظاہرہ نہیں کرتے جو مذہبیت پر کرتے ہیں حالانکہ مذہبیت ،انسانیت سے کٹ کر محض ایک کاروبار ہے۔۔ دینیات کے حصص کی خرید و فروخت۔ ۔

کبھی سنا بھوک کے خلاف فتویٰ ،بھوکے کے حق میں نعرہ ،غربت اور احتیاج کے خلاف ریلی ، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف دھرنا ، ظلم جبر اور ادستبداد کا بائیکاٹ۔ ؟  اگر کہیں ہو بھی تو صد حیف کہ و  ہاں بھی انہی عامیوں کے خون سے اپنی سیاست کی بنیادوں کو سیراب کیا جاتا ہے۔۔۔ لاشوں کو جوڑ کر ان پر کھڑے ہو کر اپنا قد اونچا کیا جاتا ہے،  نظام کوزہ گر ہی سے اپنا حصہ پانے کو۔۔۔
نظام کوزہ گر کی سب سے بڑی سفاکیت یہ ہے کہ یہ جیتے جی انسانوں کے جسموں کو بھوک اور غربت کے کھرپے سے کھرچ کر مٹی حاصل کرتا ہے۔  تبھی تو یہاں نظام کوزہ گر کی عوام الناس ہی کے خون سے کھینچی ہوئی خطِ غربت کی لکیر سے نیچے بستے انسانوں کو دیکھیے۔ مردوزن کے جسموں پر کیا آپ کو مردنی چھائی نظر نہیں آتی؟۔کیا کھیتوں میں پرندوں سے فصلوں کو بچانے والے ڈھانچوں اور انسانوں میں کوئی فرق معلوم ہوتا ہے۔۔۔ نہیں ناں ؟ انہی کا خون کاڑھ کر بنائی ہوئی شہری سڑکوں سے ذرا نکل کر مضافات ہی کو دیکھیے۔۔۔ اجی چھوڑیے انہی شہری سوسائٹیوں اور پوش علاقوں کے قرب و جوار میں بستے غریب انسانوں کو دیکھیے،انکے جسموں پر رنگ برنگے کفن ہی تو نظر آتے ہیں،انکے چہرے انکی قبروں کے کتبے ہیں،  یہ زندہ لاشیں ہیں، زندہ لاشیں۔۔

نظام کوزہ گر اپنی طاقت اور حیوانیت کے نشے میں جب کسی زندہ لاش کو زیادہ گھائل کر دے  یا واقعی بچی کھچی جان ہی نکال دے  تو اسکی آہیں یا اسکا اپنی مٹی بیچ کر اسکے بدلے آٹا خرید کر لانے کے منتظر بچوں کی کراہیں کہیں اونچے ایوانوں تک پہنچ بھی جائیں، عدلیہ کی عمارت کے سامنے ٹنگے ترازو میں ہلکا سا ارتعاش برپا کر بھی دیں تو بھی کچھ دن کے بعد سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جانتے ہیں کیوں کہ نظام کوزہ گر یہاں زندہ انسانوں کے جسم نما ڈھانچوں سے حاصل ہونے والی مٹی سے جو زینت و آرائش کی چیزیں بناتا ہے ۔ وہی تو ان اونچے ایوانوں میں سجائی جاتی ہیں،جو برتن یہاں بنتے ہیں انہی میں یہ اشرافیہ کھاتی ہے، نظام کوزہ گر کی ذیلی صنعت ایک ریاستی بھٹہ خشت ہے، جہاں انسانی جسموں کی اس مٹی سے بننے والی اینٹیں اونچے ایوانوں ، محلات ، ہاؤسنگ سوسائٹیوں ، خانقاہوں ، درباروں اور حتی کہ  مسجدوں تک میں استعمال ہوتی ہیں، زندہ انسانوں کے جسموں سے حاصل ہونے والی مٹی پر کھڑے اور انکے خون پسینے سے چلتے یہ ایوان جانتے ہیں کہ اگر انسانوں کو انکے حقوق دینے لگے تو رہیں گے کہاں ،کھائیں گے کن برتنوں میں۔۔ انسانی جسموں کی کھالوں سے بنے اور انکے خون سے سرخ ہونے والے “ریڈ کارپٹ” پر نہیں چلیں گے تو انہیں خاک پر چلنا پڑے گا اور یوں انکے جوتے میلے ہو جائیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply