زارا کو خسارہ/فرزانہ افضل

میکڈونلڈ، سٹار بکس، پیپسی ، کوکا کولا اور بقایا تمام اسرائیلی مصنوعات اور کمپنیوں کے بائیکاٹ کے نتائج پر زارا سٹور کے مالکان کو سبق حاصل کرنا چاہیے تھا۔ مگر جب جان بوجھ کر آگ میں ہاتھ ڈالا جائے تو بات صرف ہاتھ جلنے تک نہیں رہتی بعض اوقات اس کا بھاری بھرکم خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ زارا گو کہ ایک اسرائیلی برانڈ نہیں ہے، یہ ایک ملٹی نیشنل مشہور اور مقبول فاسٹ فیشن سٹور ہے جو سپین کی پیرنٹ کمپنی انڈی ٹیکس کی ملکیت ہے۔ انڈی ٹیکس گروپ زارا کے ساتھ ساتھ ایچ اینڈ ایم، ایسٹرا ویڈیئس، پُل اینڈ بیئر اور بیشتر کئی کمپنیوں کا مالک ہے۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ان کا بظاہر اسرائیل سے کوئی لینا دینا نہیں۔ مگر ظالمانہ اور سفاکانہ ذہنیت کے لوگ کسی نہ کسی طریقے سے اپنی اصلیت اور اپنی طرفداری ظاہر کر دیتے ہیں۔

ایک ہفتہ قبل سات دسمبر 2023 کو زارا نے اپنی ایک متنازع  کمپین جاری کی۔ جس کا نام “دی جیکٹ” تھا۔ اس اشتہار میں فوٹوگرافر ٹم واکر نے بین الاقوامی شہرت یافتہ ماڈل کرسٹن میک مینامی کا فوٹو شوٹ کیا۔ اور ان تصاویر میں سفید اور گرے پس منظر میں تباہ شدہ دیواریں، ٹوٹی ہوئی الماریاں، خالی خانوں کے مناظر کے ساتھ ساتھ ٹوٹے ہوئے سفید مجسموں    کو دکھایا ہے جس میں ان کے اعضاء غائب ہیں اور ملبے سے گِھرے ہوئے ہیں۔ ایک تصویر پر زمین پر لپٹا ہوا مجسمہ ہے جس کو ٹیپوں سے باندھا گیا ہے جو بالکل ایک طرح سے کفن میں لپٹی ہوئی لاش کی مانند محسوس ہوتا ہے۔

عوام نے زارا کی  اس اشتہاری کمپین پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے کیونکہ یہ تصویریں غزہ کی تباہی سے مماثلت رکھتی ہیں۔ زارا کو نا  صرف سوشل میڈیا پر آن لائن تنقید کا سامنا ہے بلکہ فلسطین کے حامی کارکنان نے دنیا کے مختلف ممالک جن میں جرمنی، کینیڈا، تیونس اور برطانیہ شامل ہیں، زارا کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔ سوشل میڈیا پر دکھائی دی جانے والی ویڈیوز جن میں انہوں نے فلسطین کے نا  صرف جھنڈے اٹھا رکھے ہیں بلکہ بعض جگہوں پر تو بچوں کی کفن میں لپٹی لاشیں اٹھا کر سٹور میں داخل ہوتے ہوئے غزہ کی تباہی کا منظر پیش کیا۔ گو کہ زارا نے عوام کے شدید رد عمل اور احتجاج پر اپنے اس اشتہار کو واپس لے لیا ہے مگر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے توجیہ پیش کی ہے کہ انہیں اپنی  اس اشتہاری مہم پر ہونے والی “غلط فہمی” پر افسوس ہے۔ زارا کے مطابق یہ فوٹو شوٹ چند ماہ قبل کیا گیا تھا جب ابھی حماس، اسرائیل جنگ کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ اگر یہ بات سچ مان لی جائے تو پھر جنگ کے بعد ان تصاویر کو جاری کرنے کا کیا مقصد تھا۔ ؟

غزہ میں فلسطینیوں کی کھلم کھلا نسل کشی کی جا رہی ہے جس میں تمام سپر پاور اسرائیل کے اس قبضہ پلان میں اس کا پورا پورا ساتھ دے رہی ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چند روز قبل اقوام متحدہ کے جنگ بندی کے مطالبہ کو امریکہ نے ویٹو کر دیا اور برطانیہ نے بھی جنگ بندی کی شدید مخالفت کی ، لہٰذا زارا والوں نے سوچا کہ وہ بھی اپنا حصہ ڈال دیں۔ زارا کے اس اقدام کی شدید مذمت کی جا رہی ہے ۔ 20 ہزار لوگ قتل کیے جا چکے ہیں اور زارا کے لیے ان کی اموات کو اپنی مارکیٹنگ کے لیے استعمال کرنا بڑی نارمل سی بات ہے ۔ زارہ نے اپنی اس کمپین کے ذریعے کھلم کھلا غزہ کی صورتحال کا مضحکہ اڑایا ہے۔ اب تک جن اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا گیا ہے ان کو شدید خسارہ ہو رہا ہے ۔ فلسطینیوں کے معاملے پر لوگ بہت حساس ہیں ۔ زارا خصوصاً مسلمان کمیونٹی میں بہت مقبول سٹور تھا مگر زارا کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر لوگ پیپسی اور کوک پینا چھوڑ سکتے ہیں ، کوسٹا کافی اور سٹار بکس کو خیر باد کہہ سکتے ہیں تو زارا برانڈ کی شاپنگ ترک کرنا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ لوگوں نے احتجاجاً عہد کیا ہے کہ اب زندگی میں دوبارہ زارا کی شاپنگ کبھی نہیں کریں گے لہذا اب زارا بھی خسارے کے لیے تیار ہو جاۓ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply