مولانا کا اگلا قدم کیا ہوگا؟۔۔۔عبدالرؤف

کیا دھرنے میں موجود لوگ ڈی چوک کا رخ کریں گے اور کیا مولانا فضل الرحمن اپنے کارکنوں کو یہ حکم دیں گے کہ وہ ڈی چوک کی طرف بڑھیں اور کیا اپوزیشن اس موڈ میں ہے کہ مولانا کے دھرنے اور احتجاج کو مزید تقویت دی جائے ، پس پردہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی خواہش یہی ہے کہ حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے لیکن بندوق مولانا کے کندھے پر ہی استعمال ہوگی ۔

مولانا سے لاکھ اختلاف سہی لیکن مولانا کو سیاست کا استاد ماننا پڑے گا ، اس وقت تمام اپوزیشن جماعتیں مولانا کی اقتداء میں کھڑی ہیں اور مولانا کے ہاتھ پر بیعت لیے  بیٹھی ہیں ، اس وقت اپوزیشن کی جماعتیں کنٹینر پر ہشاش بشاش نظر آرہی ہے، لیکن ساتھ ساتھ حکومت اس دھرنے سے پریشان دکھائی دیتی ہے ، اس کی وجہ دھرنے میں موجود لاکھوں لوگوں کا جتھہ جو حکومت کے لیے آنے والے دنوں میں درد سر بن سکتا ہے ۔

حکومت کا اپنا خیال یہ تھا کہ مولانا صاحب اپنی بونگیاں ماررہے ہیں ، یہ دھرنے کے لیے اسلام آباد تشریف نہیں لائیں گے اور اگر مولانا صاحب کا آزادی مارچ ہوتا بھی ہے تو وہ اسلام آباد تک پہنچتے پہنچتے تتر بتر ہو جائے گا ، حکومت نے اسی زعم میں مبتلا آزادی مارچ کو سنجیدہ لیا ہی نہیں ، اگر یہ آئیں گے تو کنٹینر بھی دینگے اور کھانا بھی ، اگر یہ پندرہ ہزار لوگ بھی لے آئیں تو وزارت سے مستعفی ہوجاؤنگا ، یہ مولوی اتنے لوگ اکھٹے کر ہی نہیں سکتا اس کی سیاست ختم ہوچکی ہے۔

اس قسم کے بیانات حکومت اور اس کی کابینہ آئے روز ٹاک شوز میں دیا کرتی تھی لیکن حکمت عملی کوئی نہیں اپنائی ، اب جب وہ اسلام آباد پر چڑھ دوڑے ہیں حکومت کے بھی ہاتھ پاؤں پھول گئے ہیں یہ تو ہماری توقعات سے بھی بڑھ کر لوگ لے آئے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جو ہوا سو ہوا اب آئے ہوئے ان مہمانوں کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا جاتا لیکن حکومت نے بجائے کچھ سبق حاصل کرنے کے پھر وہی وطیرہ اپنایا پہلے تو میڈیا کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی جب وہاں مزاحمت کا سامنا ہوا ،تو اس کے بعد اک اور بھونڈی حرکت کر ڈالی ، مولانا حمداللہ جو جمیعت کے پرانے رفقاء میں سے ہے اور قومی اسمبلی کے ایم این اے اور وزیر رہ چکے ہیں ان کو افغانی قرار دے دیا ۔

اس کے ساتھ مانسہرہ میں جمعیت کے اک ساتھی مولانا کفایت اللہ کو بھی گرفتار کرلیا ، جگہ جگہ کنٹینر لگا کر راستوں کو بند کردیا گیا ، پورا اسلام آباد کنٹینر سے ڈھکا ہوا ہے جگہ جگہ خندقیں کھود دی گئی ہیں جیسے کسی دشمن سے مقابلہ ہو ، حکومت کی طرف سے یہ سب تماشے جاری ہیں لیکن مذاکرات نہیں کرنے۔
مولانا کو ضرورت کیوں پڑی آزادی مارچ کی اور مولانا اتنا بڑا قدم اٹھانے پر مجبور کیوں ہوئے اور مولانا کی پشت پر پس پردہ کون ہے کیا ڈوریاں کہیں اور سے ہل رہی ہیں ؟

ان سب سوالوں کا جواب صرف اور صرف حکومت کا وہ رویہ ہے جو مولانا اور مولانا کی جماعت پر بہت گراں گزرا ہے ، وزیراعظم عمران خان کا لب ولہجہ فضل الرحمن کے لیے کسی بھی فارم پر مناسب نہیں رہا، وزیراعظم بننے سے پہلے اور وزیراعظم بننے کے بعد ان کے انداز میں شدت ہی آئی ، نرمی نہیں ، اس سے پہلے بھی حکومتیں گزری ہیں وہ بھی مولانا سے اختلاف رکھتے رہے ہیں ، لیکن لب ولہجہ تکریم والا تھا ، اختلاف ہر جگہ اور ہر کسی سے ہوتا ہے لیکن الزام تراشی اور ذات پر کیچڑ اچھالنا نہیں ، بلکہ ثبوت کو بنیاد بنا کر مکالمہ کریں ،کیچڑ اچھالنے سے لیڈر کی توہین کرنے سے ہتک کرنے سے معاملات بنتے نہیں بگڑتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عمران خان اور اس کی کابینہ نے مولانا فضل الرحمان کو جس طرح ٹف ٹائم دینے کی کوشش کی ، یہ دھرنا اسی کا خمیازہ ہے اب اسے بھگتیں ، خان صاحب دوسرے لیڈروں کے لیے جو لب ولہجہ استعمال کرتے ہیں یہ سیاست میں اک اچھی روایت نہیں پڑی ، ٹاک شوز ہوں یا کارنر میٹنگز ہوں یا جلسے ہوں ہر جگہ پی ٹی آئی کا جو جارحانہ انداز رہا وہ سیاست میں اک اچھی روایت نہیں ، اور خان صاحب کے اسی سخت روئیے نے مولانا صاحب اور اپوزیشن کو تحریک چلانے پر مجبور کیا ، اب بھی وقت ہے حکومت میں بیٹھے لوگوں کو اپنے رویوں میں نرمی لانی چاہیے  اور بیٹھ کر اک دوسرے سے بات کریں ، اگر آپ لوگ ہی بیٹھ کر ڈائیلاگ نہیں کرو گے تو کوئی تیسری قوت متحرک ہوسکتی ہے۔

Facebook Comments

عبدالروف
گرتے پڑتے میٹرک کی ، اس کے بعد اردو سے شوق پیدا ہوا، پھر اک بلا سے واسطہ پڑا، اور اب تک لڑ رہے ہیں اس بلا سے، اور لکھتے بھی ہیں ،سعاد ت حسن منٹو کی روح اکثر چھیڑ کر چلی جاتی ہے،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply