میری نظم۔۔سلیم مرزا

شادی کے تین مہینے بعد ہی بیگم کے ہاتھ وہ روزنامچے لگ گئے جنہیں ناکام شرفاء ڈائریاں کہا کرتے تھے، آج کل کی سرچ ہسٹری کی طرح جنہیں ڈیلیٹ کرنے کا آپشن تومیرے پاس تھا ،مگر دل نے ان وارداتوں کے “پرچوں “کو خارج کرنے سے صاف انکار کردیا ۔۔
ان میں سے کچھ وقوعوں پہ محکمے نے  پوری تفتیش کی تھی اور بعد میں سازباز کرکے کیس دبادیا تھا ۔
لیکن بعض ایف آئی آرز ایسی تھیں کہ جن کے بارے تفتیشی کی رائے تھی کہ کاش یہ وقوعہ ہمارے تھانے میں ہوتا ۔ ایک بات ان سب اندراجات میں مشترک تھی کہ تمام مجرمان نااہل تھانیدار کی وجہ سے صاف بچ نکلے تھے۔
میری بیگم نے پوری کوشش سے ان ڈائریوں کو پڑھا ،ضروری جگہ پہ پیلی مارکر کو ہائی لائٹ کیا ،بعض شعروں پہ لال مارکر سے نشان لگایا ۔۔اوربموقع ملتے ہی محکمانہ کارروائی کا آغاز۔۔ناراضگی سے شروع ہوا اور رونے تک پہنچ گیا ۔
وہ تو بھلا ہو گرتے ہوئے معیارِ  تعلیم اور اسٹیبلشمنٹ کے من چاہے فیصلوں کا کہ اٹھارہ سال کی ایف اے پاس کو مجھ پہ آئی جی پنجاب لگادیا ،جسے 34 سال کے خرانٹ دہ جماعت پاس تفتیشی کو گھیرنے کا تجربہ نہیں تھا ۔
چنانچہ میں صاف بچ گیا اور شوکاز نوٹس کے جواب میں صرف اتنا بتا کر نکل گیا ۔
“1990 میں جب آپ صرف دس سال کی تھیں ۔خاکسار چوبیس سال کا مشٹنڈا تھا ۔۔۔بس آپ کے ہی انتظار میں خجل خوار سودائی ۔جہاں کسی نے ہاتھ پکڑ بٹھایا ۔۔بیٹھ گیا کہ معصومیت مغل خون میں شامل تھی ”
بیچاری اسی گماں میں مان گئی کہ نوجوانی کا تنازع تھا ۔بیچارے سے 32سال تک حل نہ ہوا ۔۔
ایک ہلکی سی فرمائش کی۔۔
” کبھی ہمیں بھی شامل تفتیش فرما کر ایک نظم یا کم ازکم پانچ مصرعوں کی غزل کاٹ دیں ”
دس سال گزرے مگر وہ غزل نہ ہوئی
تین بچے ہوگئے ۔
پھر ایک دن معصوم مرزے کا بھانڈا، مرزے کی ماں نے بھرے صحن میں یہ کہہ کر پھوڑ دیا
“کڑئیے، دھیان کر ۔۔”
“بچوں کی طرف توجہ کرو گی تو بچے ہی بچیں گے ”
چنانچہ آٹھوں فائلیں دوبارہ کُھلیں ۔پرانی حرکات سے موجودہ سکنات کو ملایا گیا تو مسمات برآمد ہونا شروع ہوگئیں ۔
اب نیب نے سر سے پاؤں تک تفتیش سیکھ لی تھی ۔۔
بی بی نے رنگ بازی تو نہ سیکھی مگر چکر بازیاں پکڑتے پکڑتے سائبر کرائم سیل ، وائٹ کالر پہ کرائم ڈھونڈ نے جوگا ہوچکا تھا ۔
بچے بڑے ہوچکے تھے ۔۔ریحان ایف آئی میں تھا تو فاطمہ آئی بی میں ۔فیضان کار سیل میں ہونے کی وجہ سے گاڑی سے ٹاپس ،ہئیر پن برآمد کرنے لگا تھا ۔۔۔
اب کی بار اتنا مضبوط ہاتھ پڑا کہ وکی سے سلیم مرزا ،پانامہ سے اقامہ کی طرح برآمد کرکے چھوڑا ۔۔
کچھ دن بیگم ثاقب نثار کی پھپھو بنی رہیں ۔
پھر ریاست کی مجبوریوں کے مدنظر ای سی ایل سے نام نکالا گیا۔
ایک غزل کے اور ایک نظم کے وعدے پہ دوبارہ شوہر بنے تو سوچا اب بے ایمانی نہیں ۔اب اداروں سے بنا کر رکھنی ہے۔
دوستی کب محبت میں بدلی ۔۔پتہ ہی نہ چلا ۔
ابھی غزل کا سوچ ہی رہے تھے کہ فیس بک کا ظہور ہوگیا۔
“جیون کے دو پہلو تھے
ہریالی اور راستہ ”
اب آپ خود سوچیے، گدھا گھاس کا دوست ہوسکتا ہے؟
اس راستے پہ چل نکلے لیکن ففتھ جنریشن بڑی سیانی تھی ۔جنریشن ایکس کے فارمولے پرانے تھے ۔
توڑے داربندوق سے سیٹلائٹ وار لڑنے کی کوشش کی ۔۔۔
خوار ہورہے تھے، ایک دن بیگم کہنے لگی “مجھ پہ کچھ لکھو نہ لکھو مگرپرانے کھاتوں سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے اندر روزنامچہ لکھنے کی صلاحیت ہے ۔تم ایک بہترین محرر ہو۔
لکھو اپنے سارے کالے کرتوت کہ مجھ جیسی کسی معصوم کی آنکھیں کھلیں۔
اس نے مجھے اٹھتے، بیٹھتے، لکھنے پہ اُکسایا ،ماحول دیا ۔۔ایک مصنف کی سی عزت دی ۔
میں لکھنے لگا ۔ آپ سب نےپذیرائی دی ،وہ خوش ہوگئی ۔
آپ لوگ مسکرائے ،وہ کھلکھلا دی ۔
یہ مزاح نگار سراسر اس کی تراش ہے اب۔۔۔۔
وہ میری تحریر سب سے پہلے پڑھتی ہے،فیل یا پاس کرتی ہے ۔۔تاکہ آپ لوگ مسکراتے رہیں ۔۔بیگم کو اب گلہ نہیں کہ میں نے کبھی اس پہ شاعری نہیں کی ۔خوش ہے کہ اسن ے مجھے آپ سے ملوا دیا۔
آج آپ اس تحریر کو اس سے پہلے پڑھیں گے۔وہ اندر وارڈ میں ہے۔۔صبح اس کا آپریشن ہے ۔
اس لئے اس کی کوالٹی کیلئے معذرت۔
جب ہم گھر جائیں نگے۔۔میں اس پہ نظم لکھوں گا(انشااللہ )
دعاکیجیے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply