آئی جی عثمان انور اور وسیب کی ایمل بلوچ/جاوید اقبال شاہ

رضوان ظفر گورمانی اک ایسا نام جو وسیب میں اپنی بے باک صحافت اور ملک بھر میں اپنے بے لاگ تجزیوں اور کالموں کے لیے جانے جاتے ہیں۔ان کے کالموں میں اتنا اثر بہرحال ہوتا ہے کہ وزیراعظم سے لے کر وزیر اعلیٰ تک متعدد بار ان کے کالموں پہ نوٹس لیا جا چکا ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ رضوان ظفر گورمانی اب سیاست سے زیادہ سماجی معاملات پہ لکھتے ہیں۔

2 سال کی ہادیہ ڈی جی خان کی رہائشی تھی اس نے تیزاب پیا، رضوان نے کالم لکھا اور سی ایم نے نوٹس لیا یوں لاہور سے سرجن بلا کر نشتر میں اس کا علاج ممکن ہو پایا۔ملتان کا حذیفہ شربت فروش بچہ تو آپ کو یاد ہو گا جس کو بعد میں ٹی وی شوز میں بھی بلایا گیا وہ سٹوری بھی رضوان گورمانی نے بریک کی تھی۔رضوان ظفر گورمانی مکالمہ پہ بھی لکھتے رہتے ہیں یہاں ان کی تعریفیں نہیں ان کا تعارف مقصود تھا‍۔

رضوان گورمانی میرے دوست ہیں۔پولیس کے متعلق نرم رویہ رکھتے ہیں جس بابت ان سے اکثر میرا مکالمہ رہتا ہے۔جب آئی جی پنجاب عثمان انور نے پنجاب پولیس کی کمان سنبھالی تو یہ اک روٹین کی بات لگی۔سب سے پہلے عثمان انور میں انفرادیت تب محسوس کی جب انہوں نے رکی ہوئی پروموشنز دینے کا سلسلہ شروع کیا۔یہ کتنا بڑا کام ہے آپ کسی ایسے اہلکار سے پوچھ کر دیکھیں جس کو وقت پہ پروموشن ملتی رہتی تو اس وقت وہ ایس ایچ او ہوتا مگر تاحال وہ ہیڈ کانسٹیبل ہی تھا۔ہیڈ کانسٹیبل تفتیشی بنے اور تفتیشیوں کو سب انسپکٹر کا رینک ملا۔ان پروموشنز سے پولیس کا مورال ہائی ہوا۔ورنہ عموماً افسران بالا ماتحت پولیس افسران کی نہیں سوچتے۔عثمان انور کی دوسری انفرادیت تب دیکھنے کو ملی جب شاہد کانسٹیبل کا وقوعہ ہوا۔

آئی جی پنجاب،عثمان انور

کوئی اور روایتی آئی جی ہوتا تو کانسٹیبل شاہد جٹ نشان عبرت بن چکا ہوتا۔حتیٰ کہ خود شاہد کے گھر والے بھی ڈرے ہوئے تھے لیکن آج شاہد صحت مند ہے اور سلیبرٹی بن چکا ہے۔نہ صرف اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہا ہے بلکہ مسکرا مسکرا کر سب سوالوں کے جواب بھی دیتا ہے۔تیسری بات عثمان انور کی جو ہم نے محسوس کی وہ لاہور میں سینکڑوں کلومیٹر دور بیٹھ کر بھی وسیب کے قریب ہیں۔پہلے شاز و نادر ایسا ہوا کرتا تھا کہ وسیب کے کسی کیس پہ آئی جی پنجاب بذات خود نوٹس لیا کرتا۔رضوان ظفر گورمانی نے عثمان انور کے ان انقلابی اقدامات کی توصیف کی اور اس ضمن میں ڈی پی او مظفرگڑھ حسنین حیدر سے مل کر اک انٹرویو بھی ریکارڈ کیا۔حسنین حیدر اک پروفیشنل آفیسر ہیں جو افسر میں مقید رہنے کی بجائے فیلڈ میں رہ کر تھانہ جات کے دورے کر کے نظام کو بہتر کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔

اب تحریر کے اصل مدعے کی طرف آتے ہیں آج سے چند روز قبل رضوان گورمانی کے ریکارڈنگ سٹوڈیو میں چوری کی واردات ہوتی ہے جس میں نامعلوم چور لیپ ٹاپ موبائلز مائیک اور دیگر اسیسریز چوری کر کے لے جاتے ہیں۔رضوان گورمانی نے یہ سٹوڈیو اپنی بچت میں سے اک اک چیز خرید کر بنایا تھا سو اس کی پریشانی لازم تھی۔

کانسٹیبل شاہد  جٹ کیساتھ

خیر ون فائیو کی گئی۔پولیس نے رسپانڈ کیا اور درخواست دینے کو کہا گیا۔درخواست لکھتے وقت میں نے رضوان گورمانی کو مشورہ دیا کہ قیمت بڑھا کر لکھو کہ ایف آئی آر ہوتے وقت پولیس مال مسروقہ کی قیمت کم دیتی ہے۔رضوان نے اصل قیمت لکھی اور کہا کہ اگر پولیس ایسا کرے گی تو تنقید کریں گے۔مگر حیرت کا پہلا جھٹکا تب لگا جب پولیس نے حرف بحرف درخواست کے مطابق ایف آئی آر دی۔
ایس ایچ او سٹی انظر عباس سکھیرا نے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔

پولیس کو چوری ہونے والے موبائیل فونز کے ای ایم آئی نمبرز دیے گئے جو انذر  سکھیرا نے فوری ٹریکنگ پہ لگوا دیے۔
دوسری طرف رضوان گورمانی نے جو چھوٹا موبائیل سکرپٹ کے لیے رکھا ہوا تھا وہ رضوان ظفر گورمانی کی چار سالہ بیٹی ایمل بلوچ کا تھا۔ایمل اس میں کڈز یوٹیوب اور اپنے سکرین ٹائم کے وقت کارٹون وغیرہ دیکھتی تھی۔۔ایمل بلوچ ٹک ٹاک اور انسٹا پہ چھوٹی سی سٹار ہے۔کیوٹ سی ایمل بلوچ کی اپنی فالوونگ ہے جو اس کی معصوم حرکات اور شرارتوں سے محظوظ ہوتی ہے۔

اب ایمل بلوچ کو ان معاملات کا نہیں پتا ،رضوان گورمانی نے ایمل کو بتایا کہ ایسے ایسے جب چور پکڑا جائے گا تو ریکوری کے پیسے ملیں گے تب آپ کا نیا موبائیل لیں گے۔
لیں جناب ایمل بلوچ نے معصومیت سے بھرپور اک درخواست نما ویڈیو ریکارڈ کرائی کہ پولیس والے انکل پیسے دو تا کہ بابا میرا موبائیل لے سکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ ویڈیو ڈی پی او صاحب تک پہنچی تو انہوں نے ایس ایچ او انذر سکھیرا سے بات کی تب ایس ایچ او انذر  سکھیرا اسلحہ سمگلرز والے کیس میں مصروف تھے انہوں نے بتایا کہ چوری کے اس کیس میں پیش رفت ہو چکی ہے بس چند دن کی بات ہے۔
اس دوران انہوں نے درجنوں پسٹلز اور گولیوں سمیت ملزمان گرفتار کیے۔
لیکن ایمل بلوچ کو ان سب سے کیا واسطہ سو ان کی درخواست آئی جی پنجاب عثمان انور تک پہنچی ادھر پولیس نے ملزم دھرا ہی تھا کہ اوپر سےآئی جی صاحب کا چار سالہ بچی کی درخواست پہ نوٹس آ گیا اور یوں اک سرد سی شام ایمل بلوچ نے تھانہ سٹی کوٹ ادو جا کر ایس ایچ او انذر سکھیرا سے موبائیل اور لیپ ٹاپ وصول کیا اور محرر کامران گٹ اور نائب محرر کلیم اللہ سے دیگر اسیسیریز کی قیمت وصول فرمائی۔
یہ ویسے تو اک عام سا واقعہ ہے مگر یہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کی حساسیت ڈی پی او مظفرگڑھ کی شفقت اور ایس ایچ او انظر سکھیرا کے پروفیشنلزم کو ظاہر کرتا ہے۔
ایمل بلوچ یقیناً اپنے پولیس والے انکلز کا شکریہ ادا کرے گی۔لیکن میں ڈاکٹر عثمان انور کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے پولیس کے متعلق میرے روایتی اور فرسودہ خیالات کو تبدیل کر دیا‍۔
ویل ڈن ڈاکٹر صاحب کیپ اٹ اپ۔عوام آپ کے ساتھ ہے آپ تاریخی کردار بننے کی طرف گامزن ہیں۔

Facebook Comments

جاوید اقبال شاہ
جاوید احمد شاہ وسیب سے تعلق رکھنے والے نوجوان دانشور ہیں۔سماجی سیاسی اور سرکاری معاملات پہ گہری نظر رکھتے ہیں اور قلم سے اَنی کا کام لیتے ہوئے سوئی ہوئی عوام کو نشتر چبھوتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply