ٹھٹھے باز۔۔۔اسامہ اقبال خواجہ

مبارک ہو جناب چاند نظر آگیا, کل سعودیہ کے ساتھ عید ہے۔ ارے بد بخت ! کل روزہ ہے، چاند نظر نہیں آیا تیس روزے ہونے، نہیں انتیس، نہیں تیس۔جناب یہاں تو کہانی سال کے سال رمضان کے چاند، روزے انتیس تھے یا تیس، اور عید الاضحی کے چاند کے گرد اسی طرح چکر لگاتی ہے، جس طرح چاند ہماری زمین کے گرد سال بھر چکر کاٹتا ہے۔ چاند کی شرافت یہ ہے کہ وہ اپنے وقت پر نکلتا اور غروب ہوتا ہے، مگر یہ ہماری “سینس” اور جدید ٹیکنالوجی ہے کہ ہم اُس بے چارے کو بھی دوبار “ڈیوال کور” کی مانند استعمال کرتے ہیں۔ اب “ڈیوال کور” کمپیوٹر میں ہوتے اس لیے زیادہ بحث نہیں۔
لیکن پھر بھی یہ ہماری عظمت مشاہدہ ہے جو ہم آج بھی اپنی نیک آنکھوں ہی سے چاند ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ ارے کوئی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ہجری کیلنڈر کے استعمال کا مشورہ دے ہی کیوں؟ اُس گناہ گار پر تو فتوے لگنے چاہئیں، ہم سے ہمارا ثواب چھیننا چاہتا ہے، جاہل کہیں کا۔ ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ وہی گناہ گار اپنے ہمسایہ ملک کے خلائی مشن کی ناکامی پر اُسی طرح طنز کرتا ہے اور ہم مل کر بغلیں بجاتے ہیں۔ نجانے سائنس و ٹیکنالوجی کا قلمدان سنبھالے صاحب بھی یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ پڑوسیوں کے اس سائنسی تجربے کی حوصلہ شکنی کر کے وہ اپنے ہی دیس میں موجود بڑے بڑے “سینس دانوں” کو کیا پیغام دے چکے ہیں۔ لیکن خیر ہمارے سستے مہنگے تمام دانشمند آج ہم آواز اور ہم پیالہ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں، جس نے ہماری بد دعائیں سن سن کر “چندریان 2 “کو ناکامی سے دوچار کیا۔ خدایا ! ہماری بد دعائیں قبول کرنے کا شکریہ۔ اب ہماری دعاؤں کو بھی قبول فرما، ہماری آدھ گھنٹہ کھڑے رہنے کی مشقت کے بدلے کشمیر عطا فرما۔ خدایا ہم تو یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ  پانی سے چلنے والی گاڑی، سات مہینے بیٹری والا موبائل فون اور پٹرول پیے  بغیر چلنے والا موٹر سائیکل ایجاد کر کے ہم نے انسانیت کا حق ادا کر دیا ہے۔ مگر نجانے کیوں یہ مادہ پرستی کی چاہ میں گرفتار دنیا اب بھی ہماری اہمیت کو قبول کرنے سے انکاری ہے۔
ویسے ہم نے غوری اور غزنوی کے بھی کامیاب تجربات کر رکھے ہیں مگر دنیا کو شاید ابھی ہماری ترقی کا احساس نہیں۔ خیر اب ہم بھی یہ فیصلہ کر بیٹھے ہیں کہ اپنا خلائی جہاز چائنہ یا امریکہ نہیں بلکہ پشاور بی آر ٹی کے ہیڈکوارٹر سے لانچ کریں گے۔ اور اس کا سہرا یقیناً ہینڈسم خان ہی کے سر جائے گا۔ اور یہ 2022 ہی کی تو بات ہے پھر نیا پاکستان سکیم میں ہمارے بھی چاند پر پلاٹ تقسیم ہو چکے ہوں گے۔ اور ویسے آپس کی بات بتاؤں تو یہ جو پشاور میں بی آر ٹی کا تجربہ ہم نے کیا ہے اس پر کچھ نالائق صحافیوں نے کہا کہ  یہ بی آر ٹی کی طرح کام نہیں کرے گی۔ ارے نالائقو ! خود کچھ کرتے نہیں تو باقیوں کا بھانڈہ تو مت پھوڑو نا۔ یہ تو اصل میں ہم سازشیوں سے بچا کر خفیہ طریقے سے اسپیس سٹیشن بنا رہے ہیں۔ آپ خود ہی اپنے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا وجہ ہے جو ہمیشہ پشاور ہی میں چاند پہلے نظر آجاتا ہے، اس کی اکلوتی وجہ یہی ہے کہ  پشاور سے چاند گزرتے ہوئے کچھ روحانی طاقتوں کے زیر اثر ذرا ہمارے قریب ہو جاتا ہے۔ سو اب نامعلوم فرشتوں نے پشاور میں بی آر ٹی کے نام پر جو خفیہ خلائی اسٹیشن بنائے ہیں بہت جلد یہ اپنے کام کا آغاز کر دیں گے۔ اور پھر کل  اسلام کا اسپیس ماڈل بھی جلد دنیا والوں کی دوربینوں کے سامنے ہو گا۔ بس خان کو چاہیے  کہ اب وہ کسی لفافہ خور صحافی کو اس کے پاس پھٹکنے نہ  دے، ورنہ یہ راز افشا ہو گیا تو پھر سے سازشیں شروع ہو جائیں گی۔
اور ہاں آخری بات یہ جو ریلوے کے وزیر صاحب کراچی سے پشاور تک نئی ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں، اس پر مخالفین کو اتنی مرچیں کیوں لگی ہیں، جانتے ہیں کیوں؟۔ اس لیے کہ جناب گوادر اور کراچی سے لے کر ملک کے تمام شہروں سے لوگ تیز رفتار تبدیلی ٹرین سے آئیں گے پشاور اور یہاں سے بذریعہ بی آر ٹی چاند، مریخ اور بھاڑ تینوں تک کے لیے الگ الگ گاڑیاں دستیاب ہوں گیں۔ بس ماچس اور سگریٹ کا انتظام آپ نے خود کرنا ہے۔

Facebook Comments

Usama Iqbal Khawaja
صحافی بننے کی کوشش میں، بول نیوز کے ساتھ منسلک ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply