والدین سے احسان/ضیغم قدیر

ہم اکثر سنتے ہیں کہ والدین کے ساتھ عمر کے آخری حصے میں احسان کرنا چاہیے مگر ہم اس بات پر غور کرنا ہی بھول جاتے ہیں کہ آخر ان پر احسان کرنے کی ضرورت کیونکر پیش آ سکتی ہے؟ اس ضمن میں نفسیات کیا کہتی ہے؟ اور آیا والدین واقعی میں ہمارے احسان کے “طلبگار” بن جاتے ہیں؟

جب کسی کے بھی ہاں اولاد پیدا ہوتی ہے تو یہ اس کے لئے نہایت خوشی کا موقعہ ہوتا ہے۔ ہم سب اولاد کی پیدائش پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے ہیں، مٹھایاں بانٹی جاتی ہیں اور ہفتوں ہم اولاد کی خاطر راتوں کی نیندیں کاٹ کر ان کے سکون کا بندوبست کرتے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہمارے والدین راتوں کو جاگتے تھے تا کہ ہم سکون کی نیند سو سکیں۔

لیکن زیادہ تر والدین اسی چیز کو اپنا آخری فریضہ سمجھتے ہیں جوں جوں ایک بچہ بڑا ہونا شروع ہوتا ہے وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ دنیا کی ایک ایک چیز کے بارے میں معلومات رکھتا ہے اگر کمی ہے تو بس اس کے پاس الفاظ کی کمی ہے جونہی اس نے نئے الفاظ سیکھ لئے وہ سب کچھ بتانا شروع ہو جائےگا۔

مگر ایسا ہرگز نہیں ہوتا ہے۔ ایک انسانی بچہ اربوں دماغی خلئیوں کے ساتھ پیدا تو ضرور ہوتا ہے مگر یہ بالکل خالی ہوتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے آپ نیا موبائل فون خریدتے ہیں تو اس کا سٹوریج بالکل خالی ہوتا ہے۔ یہ آپ کی مرضی ہوتی ہے کہ موبائل خریدنے کے بعد آپ اس میں کیا کچھ ڈاؤنلوڈ کرتے ہیں۔ یہی حساب انسانی بچوں کا ہوتا ہے۔ پیدائش کے ابتدائی ہفتوں تک ایک بچہ محض لمس کی بنا پر اپنی ماں یا ممتا کے احساس کو پہہچان پاتا ہے کیونکہ اس کی آنکھیں ابھی دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم نومولود بچوں کو تیز روشنی خصوصا موبائل فون کے فلیش سے بچانے کا کہتے ہیں۔ پیدائش کے پہلے مہینے کے بعد بچہ اپنی ماں یا قریبی چہرے کو دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ وہیں پر ایک بچہ پیدائش کے تیسرے سے چوتھے مہینے آپ جس طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں اس انداز کوسمجھ کر دیکھ سکتا ہے۔

یہیں سے ایک بچے کے سیکھنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ پیدائش کے ابتدائی وقت سے لیکر شعور آنے تک ایک بچے کا دماغ مرر نیوران سے بھرا ہوتا ہے۔ نیوران ہمارے دماغی خلئیوں کو کہتے ہیں جو یاداشت بنانے سے لیکر ہر جسمانی حرکت کو کنٹرول کرنے جیسے افعال انجام دیتے ہیں اور جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ مرر نیوران مطلب یہ نقل کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ ان ابتدائی سالوں میں ایک بچے کے instincts یا پھر اس کی جبلتیں طے ہوتی ہیں۔

یہ بات اتنی باریک ہے کہ ہم اکثر اس کو اس زاویے سے دیکھ ہی نہیں پاتے ہیں۔ ہمارا بچہ اپنی عمر بھر کے تمام ری ایکشن ہم مطلب والدین سے سیکھتا ہے اور عموما زیادہ تر لوگوں میں یہی ری ایکشن چلتے رہتے ہیں۔ اس دورانیے میں وہ سیکھتا ہے کہ اس نے اپنے غصے کا کیسے اظہار کرنا ہے، ناراضگی کا اظہار کیسے کرنا ہے اور خوشی کیسے منانی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔

یہ سب کچھ وہ آپ کی آپ کے پارٹنر کے ساتھ کی گئی گفتگو سے سیکھتا ہے۔ ایک باپ اپنی بیوی کو کیسے ٹریٹ کرتا ہے یا ایک ماں کیسے باپ سے پیش آتی ہے وہ انہی پیرامیٹرز کی بنیاد پر اپنی باقی کے عمر کے ری ایکشنز طے کرتا ہے۔ اب والدین جب اولاد چھوٹی ہوتی ہے تو دنیا کی طاقتور ترین مخلوق ہوتی ہے اتنی طاقتور کہ اگر یہ چاہے تو اولاد کو بھوکا مار دے۔ اسی طاقت کے زعم میں کچھ والدین خود کو بہت بڑی شے سمجھتے ہوئے اپنی اولاد کے ساتھ تحمکانہ رویے سے لیکر تحقیرانہ رویے تک ہر غلط بات کرنے کو بھی درست سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ نفسیات میں اس کو ہم سینس آف پراپرٹی بھی کہتے ہیں جس میں ہم اپنی اولاد کو اپنی پراپرٹی سمجھ کر ایک پنچنگ بیگ بنا دیتے ہیں۔

وہیں پر اگر والدین ایموشنلی امیچور ہوں تو یہ اولاد کی نفسیات کو تباہ کرکے رکھ دیتے ہیں۔ بلاوجہ اولاد کو جھڑکنا، مارنا یا گالیاں دینا یا پھر اولاد کے سامنے اپنے پارٹنر سے لڑنا یا پھر اس کو برا بھلا کہنا بھی اولاد پر ایک نفسیاتی ٹارچر ہے جو کہ ان کے ری ایکشن کو برا بنا دیتا ہے۔ ایسے ری ایکشنز کا اولاد کے ذاتی تعلقات پہ کیسا اثر پڑتا ہے وہ کسی اور دن کا موضوع ہو سکتا ہے مگر ایسی اولاد جب جوان ہوتی ہے اور طاقت ہاتھ میں لیتی ہے تو والدین کو وہی واپس کرنا شروع کر دیتی ہے جو کہ اس کو والدین نے آٹھ سے نو سال کی عمر تک دیا ہوتا ہے۔

عموما واپس کرنے کی یہ عمر چودہ سال سے شروع ہوتی ہے آپ اکثر والدین کو گلہ کرتا دیکھیں گے کہ ان کی اولاد بد تمیز اور باغی ہے وہیں پر آپ ایسے والدین کا اولاد سے برتا گیا بہیوئر دیکھیں تو آپ کو حالات کی سنگینی سمجھ آجائے گی۔ ایسے میں اکثر والدین اپنی اولاد نہیں بخشتے اور بددعائیں دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تمہاری اولاد بھی نافرمان نکلے گی مگر کیا وہ بچے جو اپنے والدین کیساتھ اونچا بولتے ہیں ان کی اولاد بھی ان کی طرح نافرمان ہوتی ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ اس بات پر منحصر کرتا ہے کہ وہ خود اپنے والدین جیسے والدین بنتے ہیں یا کہ وہ فیملی میں چلنے والے ٹاکسک رویوں کو توڑتے ہیں؟ جی ہاں! یہ سوال دراصل یوں ہے کہ کیا وہ والدین جو اپنی اولاد کی پرورش ایک جابر بن کر کرتے ہیں ان کی اولاد فرمانبردار ہو سکتی ہے؟

عموما 99% کیسز میں والدین کے بچپن میں اولاد کیساتھ برتے گئے جابرانہ رویے کی وجہ سے وہ اولاد نافرمان بنتی ہے۔ اسکی وجہ کیا ہے؟ اس وجہ یہ ہے کہ بچپن میں جب وہ اپنے لاشعور اور شعور کی پروان چڑھا رہے تھے تب ان کے والدین جو کہ طاقتور تھے وہ ان کی چھوٹی سے چھوٹی معصومانہ بات پر بھی اونچا بول کر جواب دینا پسند کرتے تھے ان کے سامنے اپنے پارٹنر سے بحث یا لڑائی کرتے تھے یا پھر کسی اور کی برائیاں کرتے تھے۔ اب جبکہ یہ بچے طاقتور ہوتے ہیں اور والدین کمزور ہوجاتے ہیں تو وہی رویہ جو والدین نے اپنے بچوں کے ذہن میں اوائل عمری میں انڈیلا تھا وہ باہر نکلنا شروع ہو جاتا ہے اور وہ والدین کے ضعیف ہونے پر ان کی چھوٹی سی بات پر بھی چڑ کر جواب دیتے ہیں۔

اس کا حل معافی ہے۔ قرآن پاک میں وبالولدین احسانا کی ٹرم اسی لئے استعمال کی گئی ہے کہ ہمیں ان پر احسان کرنا چاہیے۔ قرآن و احادیث میں اس بات پر بارہا فوکس کیا گیا ہے کہ والدین پہ بڑھاپے میں احسان کرنا چاہیے۔ وسیع تناظر میں ان باتوں کا مطلب یہی ہے کہ ہمیں ان کے برتے گئے کسی بھی قسم کے برے رویے کو بھول کر ایک نئے سفر کا آغاز کرنا چاہیے جس میں ہم کو ان جیسا جابر بننے سے گریز کرنا چاہیے۔

بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس لاشعوری ری ایکشن کو پہچان کر اپنے والدین کو معاف کرتے ہیں ورنہ مجارٹی اپنے والدین کیساتھ وہی رویہ اپنانا پسند کرتی ہے جو انہوں نے کبھی اپنایا ہوا تھا۔ اور یہ عمل اتنا خودکار ہوتا ہے کہ مجارٹی کو علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ والدین کیساتھ وہی جبر کر رہی ہے جو کہ ان کے ساتھ بیس پچیس سال پہلے ہوا تھا اور اس کی وجہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی ساری زندگی پیار دیکھا ہی نہیں ہوتا اس لئے ان کو اپنی اس منفی فیلنگ کا احساس نہیں ہو پاتا۔ عموما بڑھاپے میں آکر پھر والدین پچھتاتے، گلہ کرتے یا بددعائیں دیتے نظر آتے ہیں کہ جاؤ تمہاری اولاد بھی ایسی نافرمان ہوگی، تم ایک نا فرمان اولاد ہو وغیرہ وغیرہ

دراصل یہ بد دعا بھی ان کے ٹاکسک رویے کی نشانی ہے مطلب سانپ مر گیا ہے مگر بل نہیں جا رہا، وہ جابر جو بچے کے بچپن میں طاقتور تھا اب کمزور تو ہوگیا ہے مگر اپنے بل نہیں نکال پایا اور ابھی بھی وہ سب دکھا رہا ہے مگر چونکہ طاقت نہیں اس لئے بد دعا دینے پہ ہی اکتفا ہے۔

اپنے والدین کو معاف کرنا سیکھیں۔ اگر آپ کی عمر سولہ یا سترہ سال سے اوپر ہے تو آپ کے پاس یہ بہانہ نہیں بچتا کہ بچپن میں والدین ٹاکسک تھے اس لئے آپ ویسے ہیں بلکہ اب آپ پر یہ سائیکل بریک کرنا بنتا ہے۔ ورنہ آپ بھی اپنے والدین جیسے پیرنٹ بنیں گے اور آپ کی اولاد بھی نافرمان ہی نکلے گی وہیں پیار کرکے جہاں آپ فرمانبردار اولاد پا سکتے ہیں وہیں قرآنی آیت کی تفسیر بن کر اپنے والدین پر احسان بھی کر سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

نفسیات دان بھی یہی کہتے ہیں کہ ٹاکسک رویے نسل در نسل چلتے ہیں اور ان کوکسی نا کسی شخص کے لئے توڑنا لازمی ہوتا ہے۔ عموما والدین جس بچے کو اپنے لئے زیادہ تکلیف دہ سمجھتے ہیں وہ بچہ وہی ہوتا ہے جو کہ ایسے تلخ رویوں کیخلاف بول رہا ہوتا ہے اور وہ اس سائیکل کو چلتا ہوا دیکھ نہیں سکتا سو وہ بول کر ان کو منع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سائیکل بریکر کی زندگی کافی کھٹن ہوتی ہے جس میں وہ نفرت کے بیچ میں محبت بیچنے کی کوشش کرتا ہے۔ کانٹوں سے ہاتھ زخمی کرکے پھول کو گرنے سے بچاتا ہے مگر کانٹوں کے یہ زخم جو پھول کو کھلتا ہوا دیکھتے ہیں تو بہت خوشی کا احساس دیتے ہیں۔ ایسے سائیکل توڑ کر آپ اپنی نا سہی لیکن اپنے بچوں کی زندگی ضرور آسان بنا سکتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply