ذہانت (29) ۔ گاڑیوں کی دوڑ/وہاراامباکر

تیرہ مارچ 2004 کی صبح صحرائے موہاوی کے درمیں ان لوگ ایک تماشا دیکھنے کے لئے جمع تھے۔ یہ گاڑیوں کی ریس تھی۔ اس میں منفرد بات یہ تھی کہ یہ ان میں کوئی ڈرائیور نہیں تھا۔ یہ خودکار گاڑیوں کی ریس کا پہلا مقابلہ تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کا انعقاد امریکہ کے محکمہ دفاع کی ایجنسی کروا رہی تھی۔ اور اس کی خودکار گاڑیوں میں دلچسپی پرانی تھی اور اس کی اچھی وجوہات تھیں۔ فوج کے لئے ایسی گاڑیاں پرکشش تھیں۔ سڑک کنارے نصب بم یا قافلوں پر حملے فوجیوں کی موت کی بڑی وجہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے اس سال بڑا اعلان کیا تھا کہ 2015 تک امریکہ کی ملٹری کی ایک تہائی گاڑیاں ڈرائیور کے بغیر ہوں گی۔
اس وقت تک ہونے والی ترقی سست اور مہنگی رہی تھی۔ محکمہ اس پر تحقیق پر بیس سال میں پچاس کروڑ ڈالر خرچ کر چکا تھا۔ یہ تحقیق یونیورسٹیوں اور کمپنیوں کو فنڈنگ دے کر کی جا رہی تھی۔ اور اب یہ مقابلہ بنانا چاہ رہے تھے۔ پورے ملک سے لوگ اپنے ڈیزائن لے کر آئیں اور ان کی ریس ہو۔ جیتنے والے کو دس لاکھ ڈالر انعام ملنا تھا۔
اس مقابلے کے لئے 142 میل کا راستہ خاص طور پر بنایا گیا تھی۔ اور اسے آسان نہیں رکھا گیا تھا۔ چڑھائیاں، راستے میں پتھر، گڑھے، پانی، ناہموار زمین، اور کہیں پر خاردار پودے۔ ان گاڑیوں کو اس سب میں سے گزرنا تھا۔ اور مٹی کا راستہ کئی جگہوں پر بہت تنگ تھا۔
مقابلے سے پہلے ہر ٹیم کو جی پی ایس کوآرڈینیٹ ایک CD پر دئے گئے۔ اس میں دو ہزار پوائنٹس تھے جو بکھرے پڑے تھے۔ یہ راستے کا تو بتاتے تھے لیکن ان کے درمیان کی رکاوٹوں کا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس چیلنج کے لئے 106 ٹیموں نے درخواست دی تھی جن میں سے پندرہ کمپنیاں ابتدائی راؤنڈز کے بعد اس مرحلے تک پہنچی تھیں۔ اس میں ہر ڈیزائن کی گاڑیاں تھیں۔
چند ہزار تماشائیوں کی حوصلہ افزائی میں یہ مقابلہ شروع ہوا۔ یہ دس گھنٹے جاری رہنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر چیز ٹھیک نہیں رہی۔ ایک گاڑی الٹ گئی اور اسے دستبردار ہونا پڑا۔ ایک موٹر سائیکل تھا جو ٹکرا گیا اور باہر ہو گیا۔ ایک گاڑی کی کنکریٹ کی دیوار سے شروع میں ہی ٹکر ہو گئی۔ ایک خاردار باڑ میں پھنس گئی۔ ایک دو جھاڑیوں کے درمیان الجھ گئی اور آگے پیچھے ہونے لگی۔ اسے سمجھ نہیں آیا کہ یہ اشیا کیا ہیں اور اس کو ریسکیو کرنا پڑ گیا۔ پتھروں سے ٹکریں، گڑھوں میں گرنا، ٹائر پھٹنا، اور گاڑی کے پرخچے اڑنا جاری رہا۔ یہ ٹریک روبوٹس کی مقتل گاہ بن گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے آگے CMU کی گاڑی جا سکی جو سات میل کا سفر تھا۔ یہاں پر یہ ایک پہاڑی پر غلطی کھا گئی۔ پہیے گھومنے لگے۔ اسے نکالا تو آگ پکڑ چکی تھی۔
گیارہ بجے تک مقابلہ ختم ہو چکا تھا۔ منتظمین نے ریس کی فنش لائن پر کھڑے صحافیوں کے لئے اعلان کیا کہ مقابلہ ختم ہو چکا ہے اور کوئی بھی یہاں نہیں پہنچے گا۔ سب ہار گئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سب ٹیموں نے ایک سال تک محنت کی تھی جو چند منٹوں میں ہوا ہو گئی۔ لیکن اس نے نت نئے خیالات کی طرف مہمیز دی۔ اور جب اگلے سال یہ چیلنج واپس آیا تو بہت کچھ بدل چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صرف ایک گاڑی سات میل سے پہلے ریس سے باہر ہوئی۔ اور پانچ گاڑیوں نے ریس کامیابی سے مکمل کی۔
اس ریس سے محض اٹھارہ سال بعد آج یہ عام سمجھا جاتا ہے کہ مستقبل کی گاڑیاں بغیر ڈرائیور کے ہوں گی۔ 2017 میں برطانیہ کے وزیرِ خزانہ فلپ ہیمنڈ کا کہنا تھا کہ حکومت کا ٹارگٹ ہے کہ 2021 تک بغیر ڈرائیور کی گاڑیاں سڑکوں پر ہوں۔ ڈائملر نے اس کا ٹارگٹ 2020 دیا جبکہ فورڈ نے 2021۔ اس شعبے کی بہت سے ماہرین اپنی اپنی رائے دیتے رہے ہیں۔
اس بارے میں پریس میں بحث کی نوعیت بھی بدل چکی ہے۔ “کیا بغیر ڈرائیور والی گاڑیاں بنائی جا سکتی ہیں” کی جگہ “کیا مسافر کی جان بچانے کے لئے گاڑی کسی پیدل شخص کو ٹکر مارنے کا فیصلہ لے سکتی ہے؟” جیسے سوالات نے لے لی ہے (یہ سوال نیویارک ٹائمز کے مضمون کا تھا)۔ یا پھر”اگر گاڑی ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کرے تو چالان کس کا ہو گا؟”۔ اکانومی سے متعلق فائننشل ٹائمز نے خبردار کیا۔ “ٹرک صنعت کا مستقبل خودکار گاڑیوں کا ہے۔ لاکھوں ڈرائیور بے روزگار ہو جائیں گے”۔
تو پھر ہوا کیا؟ چند ہی برسوں میں اس قدر انقلابی تبدیلی اور اعتماد؟ اور کیا ایسی توقع معقول ہے کہ یہ جاری رہے گا؟
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply