جاگتے رہنا بھائیو۔۔۔ایم۔اے۔صبور ملک

پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی کامیاب کارروائی کے نتیجے میں گلگت بلتستان میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کاایک نیٹ ور ک پکڑا گیا ہے،اخباری اطلاعات کے مطابق اس گروہ کے 14کارندے گرفتار کئے گئے ہیں،جن سے اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کیا گیا ہے،علاقے میں موجود ایک قوم پرست تنظیم بلاورستان نیشنل سٹوڈنٹ آر گنائزیشن (بی ا ن ایس او)کے نام پر تنظیم کا کرتا دھرتا عبدالحمید نا می شخص جس کوبھارتی خفیہ ایجنسی را پچھلے 20سال سے پال رہی تھی اور جس کو اسکے اہل خانہ سمیت بھارتی دارلحکومت دہلی میں تھری سٹار رہائش اور سہولتیں دے رکھی تھیں عبدالحمید کے بچوں کی بھارت اور یورپ میں تعلیم کے اخرجات بھی را اُٹھاتی تھی،عبدالحمید کو را نے اپنے مہرے کے طو ر پر اپنے بدنام زمانہ طریقہ کار کے عین مطابق ایک خاتون افسر کے ذریعے اپنے جال میں پھنسایا جوایک ایکسپورٹ نمائش میں شرکت کیلئے بیرون ملک گیا تھا،عبدالحمیدنے اس دوران را کے ایماء پر مادر وطن سے غداری کرتے ہوئے پاکستان مخالف کئی ایسی سرگرمیوں میں نہ صرف یہ کہ خود بھی حصہ لیا بلکہ اپنی قوم پرست تنظیم کو بھی اپنے مذموم اور گھناؤنے مقاصدکے لئے استعمال کیا،جن میں مختلف یونیورسٹیز کے سٹوڈنٹس کو گلگت بلتستان میں گوریلا کارروائیوں اور دہشت گردی پر اُکسانا،گلگت بلتستان میں مختلف ڈیموں کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنا،عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو مجروح کرنا،اور اس کی ذیلی تنظیم بلاورستان ٹائمز میگزین کے ذریعے علیحدگی پسندسوچ کو ہوا دے رہی تھی۔

مملکت خداداد پاکستان کے خلاف بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے ہونے والی یہ کوئی پہلی سازش نہیں،اور نہ ہی یہ را کا کوئی پہلا نیٹ ورک پکڑا گیا ہے،اس سے پہلے ماضی قریب میں کلبوشن یادیو بھی پاکستان کے خلاف را کی جانب سے کی جانے والی خفیہ سازشوں کی ہی ایک کڑی تھی،چانکیہ کے پیروکارپہلے دن سے ہمارے ملک کے خلاف گھناونی سازشوں میں مصروف عمل ہیں،اور اسکے لئے وہ کسی بھی ہتھیار کا استعمال کرنا اپنے لئے جائز گردانتے ہیں،روایتی جنگ سے ہٹ کر بنا کسی روایتی ہتھیار کے جس میں دشمن آپکے سامنے نہیں ہوتا لیکن آس پاس ضرور ہو تا ہے،تاوقتیکہ اس کا باطن کسی دن آپ کے سامنے نہ آجائے،جیسا کہ گلگت بلتستان میں بظاہر این جی او کی آڑ میں ملکی دشمن سرگرمیاں عروج پر تھیں،یہ ایک ایسی جنگ ہے جو سرحدوں کے اندر لڑی جاتی ہے،اوردیکھا جائے تو کسی بھی روایتی جنگ سے زیادہ یہ جنگ خطرناک ثابت ہوتی ہے،کیونکہ اس جنگ کے ذریعے کوئی بھی دشمن ملک اپنے کسی حریف کے گھر میں گھس کر مذہبی،فروعی،لسانی اور صوبائیت کا ایسا زہر گھولتا ہے کہ روایتی جنگ چھڑجانے پر دشمن کی بوئی ہوئی یہ فصل پک کر جوان ہو چکی ہوتی ہے اور نتیجہ وہی نکلتا ہے جس کا خمیازہ ہم 71میں بھگت چکے ہیں۔

احساس محرومی کہاں نہیں ہوتا،آج کے سرمایہ داری نظام کے ہوتے ہو ئے یہ بات بہت مشکل ہے کہ کسی بھی ملک کی پور ی آبادی کویکساں شہری سہولتیں میسر آسکیں،تھوڑی بہت اُونچ نیچ ہر جگہ ہو تی ہے،لیکن اس بات کو جواز بنا کر کسی ریاست کے شہریوں کو ورغلانا،اُن کے جذبات کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنا،اُن کے احساس محرومی کو بڑھاوا دینا،اور اُنھیں اکثریت نیز ریاست کے خلاف بغاوت پر اُکسانے میں جتنا ماہرہندؤ بنیا ہے دنیا میں شاید ہی کوئی اور ہو،بغل میں چھری منہ میں رام رام،اور صدیوں پرانے لکھی چانکیہ کوتلیہ جو کہ جھوٹ،فریب،دھوکہ دہی،موقع پرستی کا سب سے بڑا پروفیسر تھا کی تعلیمات بھارت اور را کے لئے مقدس دستاویز کی سی حیثیت رکھتی ہے،کسی دوسرے ملک کی بہ نسبت جاسوسی کے لئے عورت کا استعمال راکے لئے ایک عام سی بات ہے،عبدالحمید نامہ شخص کو بھی اپنے جال میں پھنسنے کے لئے را نے یہی حربہ استعمال کیا،اس وقت جو ہمارے ملکی حالات جارہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خاص طور پر نوجوان نسل جس قسم کے ڈپریشن کا شکار ہو کر شیشہ کیفے،منشیات کے استعمال،خودکشی،کورٹ میرج،اور بنا محنت کئے شارٹ کٹ یا راتوں رات امیر بننے کے لئے جو حربے استعمال کررہی ہے،ایسے لوگ ہی کسی بھی غیر ملکی ایجنسی کے بہت آسان شکار ہوا کرتے ہیں،کسی بھی ایسے نوجوان کو شراب،شباب اور کبا ب کی علت ڈال کربلیک میل کرنا اور پھر اس کو ملک کے خلاف استعمال کرنا کسی ایسی خفیہ ایجنسی کے لئے چنداں مشکل نہیں جس کا اولین مقصد ہی پاکستان کو خدا نخواستہ ختم کرنا ہو،ہم اپنا مشرقی بازو گنوا کر بھی شاید یہ سمجھ بیٹھے کے دشمن سو چکا ہے،لیکن نہیں دشمن جاگ رہا ہے،وہ آج بھی اپنے روایتی ہتھیاروں کو نئی جدت دے کر ہماری نوجوان نسل کو اپنے گھناونے مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کررہا ہے،ضرورت اس مر کی ہے کہ والدین اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ اُن پر گہری نظر رکھیں،خصوصاًکالج اور یونیورسٹی کی سطح کے نوجوانوں کے طور طریقوں پر گہری نظر رکھنا ہوگی،والدین کا یہ فریضہ ہے کہ وہ یہ دیکھیں کہ ان کے بچے یا بچی کے پاس کہیں سے یکدم رقم تو نہیں آ نی شروع ہو گئی،وہ بچہ یابچی خاص طور پر جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہو،والدین یہ دیکھیں کہ یونیورسٹی کی بس یا پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے والے ان کے بچوں کو کوئی اپنی قیمتی گاڑی میں تو نہیں پک اینڈ ڈراپ دے رہا،کسی فائیو سٹار ہوٹل میں کھانے کی دعوتیں تو نہیں ہورہیں،یا پھر کسی این جی او میں شامل ہو کر اُن کا لاڈلہ یا لاڈلی راتوں کمبائنڈ سٹڈی کے نام پر کسی شراب و شباب کی محفل میں تو نہیں جارہی،معز ز قارئین یہاں میں والدین کے ساتھ اساتذہ کرام اور نوجوانوں کو بھی کہوں گا کہ وہ بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں،اور دیکھیں کہ کہیں ان کا کوئی ساتھی کوئی دوست یا کوئی شاگرد دانستہ یا نادانستہ طور پر کسی غیر ملکی ایجنسی کا آلہ کار تو نہیں بن رہا۔اگر ایساکچھ ہو رہا ہے تو فوراًاپنی آنکھیں کھولیں اس سے پہلے کے بہت دیر ہوجائے،ہر کام ریاستی اداروں یا ملکی سلامتی کے ذمہ دار خفیہ اداروں کے کرنے کا نہیں ہوتا،کچھ فرض بطور ایک ذمہ دار شہری ہم پر بھی عائد ہوتا ہے کہ ہم اپنے ملک کے خلاف ہونے والی ان سازشوں کے خلاف اپنے کان اور اپنی آنکھیں کھلی رکھیں،دشمن جاگ رہا ہے،چوکنا ہے،آپ بھی جاگیے،اور چوکنے ہو جائیں.۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply