ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا۔۔حافظ صفوان محمد

چیز پہلے بنتی ہے یا اُس کا نام، یہ مرغی اور انڈے والی بحث ہے۔ دونوں طرف کے دلائل اور مثالیں بہت ہیں اور سبھی میں وزن اور معقولیت ہے۔ مثلًا جس چیز کو آج موبائل فون/ سیلولر فون/ سیل کہتے ہیں اس کا آغاز ٹیلیگراف سے ہوا تھا اور ہندوستان میں پہلی ٹیلیگراف لائن 1843 میں بچھائی گئی تھی۔ آج بھی کہیں کہیں پرانے بورڈ اور کاغذات مل جاتے ہیں جن پر ٹیلیگراف کا ذکر ملتا ہے۔ AT&T مخفف ہے امریکن ٹیلیگراف اینڈ ٹیلی فون کا، جس سے ہم نے پہلے P&T (پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف) بنایا اور پھر PT&T (پاکستان ٹیلیگراف اینڈ ٹیلی فون)۔ بھارت نے اِسی امریکن مخفف سے IT&T بنایا۔ ہم چونکہ پہلے عرب کالونی، پھر ترک و ایران اور پھر افغان اور آخر آخر میں برطانوی کالونی رہے ہیں اِس لیے نام چارے کو اِن سب مقامی مخففات کو اصلًا BT (برٹش ٹیلیکام) سے مستفاد کہہ لیجیے کیونکہ ہمارے ہاں اطلاعیاتی ٹیکنالوجی کی یہ برکات ایسٹ انڈیا کمپنیوں اور ازاں بعد برطانویوں سے آئیں۔ پرنالہ پھر بھی یہیں گرتا ہے۔

موبائل ٹیلی فون/ موبائل فون/ موبائل/ سیل فون/ سیلولر فون/ سیل فون/ سیل/ فون/ ہینڈ سیٹ، وغیرہ وغیرہ، ایک ہی قسم کی چیزوں کے مختلف نام ہیں جو عوام بول رہی ہے، اور اِسی لیے یہ سب الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر لکھے نظر آ رہے ہیں۔ جس چیز کو ٹیبلٹ/ ٹیب کہتے ہیں وہ بھی اب بیشتر صرف سائز کے فرق کے ساتھ مختلف پہچان رکھتی ہے ورنہ عام آنکھ اِس کی شناخت سے دھوکہ کھا جاتی ہے اور اِسے عوامی زبان میں “بڑا موبائل فون” کہتے سنا جاتا ہے۔

اوپر درج کردہ سب نام انٹرنیٹ اور ڈیٹا کی سہولیات کے استعمال کے آلات کے لیے مختص ہیں۔ اِن آلات کو آج بھی “ٹیلی فون” یا “فون” کے عرف سے پکارا جاتا ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ چیز بعد میں بنی ہے جس کا نام پہلے سے چلا آ رہا ہے۔ کہاں Siemens جرمنی کا سیاہ رنگ کا چھوٹے ہاتھی کے سائز کا بھاری بھرکم فون اور کہاں تین انگلیوں کے نیچے چھپ جانے والا چند گرام وزن کا فون، عوام کی مرضی ہے اِسے جو چاہے کہے۔ عوام ایک سہولت اور اُس سے فائدہ اٹھانے کے لیے بنائے گئے آلے/ آلات/ چیز کو ڈیڑھ صدی سے استعمال کر رہی ہے؛ آج ٹیکنالوجی کی ترقی نے اِن آلات کی جو بھی صورت بنا دی ہے، عوام اُنھیں برت رہی ہے اور اُس نے اِن آلات کے مجموعے کا جو بھی عوامی (generic) نام رکھ لیا ہے وہی چل پڑا ہے۔ روک سکو تو روک لو۔ اِسے عوامی جینئس اور عوام کی قوت کہتے ہیں۔

عوام کو اطلاعیاتی ٹیکنالوجی کی ان سہولیات تک رسائی دینے کے لیے بنائے گئے سہولت گھروں کو سرکاراً “ٹیلیگراف دفتر” کہا جاتا تھا لیکن عوام اِن کو “تار گھر” کہتی رہی۔ تار گھروں کے کاروبار کی نجیان شروع ہوئی تو اِنھیں ایکسٹرا ڈپارٹمنٹل پبلک کال آفس (EDPCO) بنا دیا گیا۔ عوام اِن کو پی سی او کہنے لگی۔

الغرض انسان کے اندر ایک نظام موجود ہے جو اُسے forward looking کے بجائے پیچھے کی طرف دیکھنے کو مجبور کرتا ہے اور وہ اپنے ماضی سے کارآمد چیزوں کو چھانٹ بُہار کر استعمال میں لاتا رہتا ہے۔ اِسے داشتہ آید بکار کہتے ہیں۔ یہ ماضی و ماضیت کا وہ شعور ہے جو عوام میں موجود ہے، اور یہ شعور اِس قدر طاقتور نقاد ہے کہ ماضی کی چیزوں میں سے فرسودہ و تازہ کی تمیز اور چھنٹائی ازخود کرتا رہتا ہے۔

یہاں تک کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ چیزیں پہلے بنتی ہیں لیکن اُن کے نام بعد میں رکھے جاتے ہیں۔ ابھی کچھ دیر پہلے یہ بات علمی طور پر بھی ثابت ہوئی۔ کیسے؟ عرض کرتا ہوں۔

پرانی چیزیں چھانٹتے ہوئے آج پنجاب یونیورسٹی لاہور کے “مجلۂ تحقیق” جلد-1 شمارہ 1-2 میں ڈاکٹر وحید قریشی کا مقالہ “خطِ بہار” پڑھتے ہوئے صفحات 111-112 پر یہ عبارت نظر پڑی:

“کوفے کی بِنا 17ھ/ 683ء میں پڑی لیکن خطِ کوفی کے نمونے قدیم تر ہیں اور اِن کی ابتدا کوفے سے مربوط معلوم نہیں ہوتی۔ آغاز میں اِس کا نام کچھ اور ہوگا۔ ابنِ ندیم (وفات اندازاً 390ھ/ 1000ء) پہلا شخص ہے جس نے اِس خط کو کوفی کے نام سے یاد کیا ہے۔ اِس سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ جب بنی امیہ (41-132ھ / 665-749ء) کے زمانے میں کوفہ مرکزی علمی رتبہ حاصل کر گیا اور بصرے اور کوفے کو شہرت ملی تو اُس زمانے میں کوفہ خطاطی کا مرکز بن جانے کے سبب اِس اعزاز کا اہل ہوا ہوگا۔” [واضح رہے کہ اِس اقتباس میں کتابت کا ایک سہو ہے۔ 683ء کو 638ء لکھا ہوا ہے۔]

چنانچہ معلوم ہوا کہ خطِ کوفی کے متعلق یہ گمان کرنا کہ اِسے کوفہ شہر سے کوئی نسبت ہے، صرف ایک علمی مغالطہ ہے۔ بہت پہلے سے چلتی آتی ایک روشِ خطاطی کو زمانی اعتبار سے کہیں بعد میں بسائے گئے ایک شہر سے نسبت کیسے ہوسکتی ہے؟

واضح رہے کہ یہ مغالطہ ایک علمی مصنف کی وجہ سے پیدا ہوا اور اِس کا اولین شکار بھی اہلِ علم ہوئے اور جن کے پیہم سوءِ فہم نے اِسے عوام میں رواج دے دیا، ورنہ عوام کا اجتماعی شعور ایسی خطا نہیں کھاتا۔ پچھلے پیرا گرافوں میں دی گئی ٹیلی گراف اور ٹیلی فون کی مثالیں ذہن میں رکھیے اور غور کیجیے کہ عوام نے آج کے جدید ترین آلاتِ اطلاعی ٹیکنالوجی کو “فون” ہی کے عوامی نام سے موسوم کیا ہے نہ کہ ٹیلیگراف یا ٹیلی گرام سے باوجودیکہ عوام سوا سو سال تک ٹیلیگرام بھی استعمال کرتی رہی ہے اور تار گھر اور تار بھیجنا/ تار آنا ہمارا عوامی روزمرہ رہا ہے۔ کئی محاورے، کہاوتیں اور لغاتِ سماعیہ (Collocations) بھی ہیں جن میں تار کا لفظ استعمال ہوتا ہے مثلًا “خط کو تار سمجھو” (مطلب خط ملتے ہیں چلے آؤ)۔ وغیرہ۔

چیزوں اور واقعات وغیرہ کے نام بعد میں رکھنے کی ہمارے ہاں بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ مثلًا 1857ء میں دہلی و اطراف میں بدامنی ہوئی جس کا حتمی نتیجہ مغل بادشاہت ختم ہونے کی صورت میں نکلا۔ اِس دلگیر گمبھیر سانحے کو بدامنی، فساد، غدر اور بغاوت وغیرہ کہا گیا۔ انگریز مصنفین نے اسے Mutiny، Sepoy Mutiny، Revolt، Rebellion of India، وغیرہ وغیرہ لکھا ہے۔ اِس بدامنی پر مسلمانوں، ہندوؤوں اور انگریزوں (ایسٹ انڈین کمپنیوں کے ملازموں اور راج کے کارندوں) سب نے بہت کچھ لکھا لیکن اِسے “جنگِ آزادی” لکھنے کی پہلی تحریری سند، میری اب تک کی تحقیق کے مطابق، روس میں سوویت یونین بننے سے پہلے اور پہلی جنگِ عظیم ختم ہونے سے پہلے کہیں نہیں ملتی۔ برطانیہ کی جنگِ عظیم اول میں درگت بننے سے پہلے کوئی ہندی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ برطانیہ ناقابلِ شکست نہیں ہے۔ انڈیا میں بھگت سنگھ وغیرہ کمیونسٹ اسی کے بعد ابھرے۔ عام فہم بات ہے کہ 1857ء کے دنوں میں کسی جنگجو یا خرابکار سے کہا جاتا کہ تم جنگِ آزادی لڑ رہے ہو تو وہ ویسے ہی منہ تکنے لگتا۔ آزادی کس سے؟ حکومت تو بہادر شاہ ظفر کی تھی۔ کیا یہ لوگ بہادر شاہ کی سلطنت سے آزادی مانگ رہے تھے؟ یا یہ لوگ انگریز سے آزادی مانگ رہے تھے؟ انگریز تو اس “جنگ” کے نتیجے ہی میں باقاعدہ اقتدار میں آیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

کہنا اس ساری داستان سے یہ چاہتا ہوں کہ جس چیز کو آج ہم جنگِ آزادی کا خوبصورت generic نام دے کر ایک مخصوص وجودی چیز سمجھتے ہیں، یہ اصل میں یوں نہ تھی۔ وہی بات کہ واقعہ اور سانحہ ہو چکا، اب اسے نام کبھی کچھ دے لیا جاتا ہے کبھی کچھ۔ نام کوئی بھی لیا جائے، حادثہ وہی دلچیر و رنجور ہے۔
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply