میرا گلگت و ہنزہ(سفرنامہ) میجی لن اور اسکا بیڑہ ۔ جلکوٹ اور جلکوٹیے -سلمیٰ اعوان/قسط2(ب)

ڈاڈر کا گاؤں آیا۔ میں چونکی۔ میری ایک دوست ٹی بی کی مریض بن کر یہاں آئی تھی اور اس ٹی بی کے خوبصورت ہسپتال کے ایک کمرے میں دم توڑ گئی تھی۔ ڈاڈر کا نام سالوں میرے ذہن پر تھرکتا رہا۔

 

 

اچھڑیاں’ کوٹلی’ قاضی آباد’ آہل اور بٹل کے گاؤں گزرتے گئے۔ بٹل میں پہاڑوں کی رنگت کیسری تھی۔ بائیں ہاتھ گھاٹیوں میں اندھیرا تھا۔ دائیں ہاتھ کوہستان بٹل کے گھنے جنگلات دیودار‘ چیڑ اور پلار کے بلند و بالا درختوں کی چوٹیاں جو سورج کی سونا بکھیرتی کرنوں سے لدی پھندی تھیں۔
چھترپلین کی وادی کافی اونچائی پر ہے۔ برف باری خوب ہوتی ہے۔ بٹ گرام میں دھوپ قدرے پھیکی پڑ گئی تھی۔ اس وادی کے نظارے مجھے کسی عاشق کی طرح آنکھوں سے اشارے کرتے تھے کہ کہاں جاتی ہو؟ اتر آؤ نا یہاں ہمارے پاس۔ بٹ گرام تحصیل کا صدر مقام بھی ہے اسی لیئیبیشتر دفاتر یہاں ہیں۔ پشتو اکثریت کی زبان ہے۔ ڈگری کالج بھی بن رہا ہے۔
دریائے سندھ موجیں مارتا رواں دواں تھا۔ سڑک کبھی پیچ کھاتی کسی پہاڑ کے سر پر جا پہنچتی اور کبھی بل کھاتی ہوئی نشیبی وادیوں میں آگے بڑھتی۔
بٹ گرام سے صرف گیارہ میل کے فاصلے پر تھاکوٹ کا عظیم الشان پل جو دنیا میں اپنی نوعیت کا تیسرا پل سمجھا جاتاہے اب میری آنکھوں کے سامنے تھا۔
یہاں گاڑی رُک گئی تھی۔ میں ‘عروج اور اس کا میاں زمان اس پل کو دیکھنے کے لئے یوں گاڑی سے نکل کر بھاگے جیسے گاؤں کی دلہن کے ڈولے پر پھینکے جانے والے سکوں کو لوُٹنے کے لئے بچے بھاگتے ہیں۔
فنی کاریگری کا منہ بولتا یہ پل دس ماہ کی قلیل مدت میں تیار ہوا تھا۔ دریائے سندھ کی چنگھاڑوں سے دل دہلا جاتا تھا پر پل کی جوانی اور اٹھان بھی غضب کی اثر انگیز تھی۔
ایک مقامی بوڑھا آدمی میرے پاس آکر رُک گیا۔ میری آنکھوں سے چھلکتی وارفتگی محسوس کرتے ہوئے بولا۔
‘‘وہ بڑا گرم دن تھا جس دن سڑک کا افتتاح ہوا۔ پاکستان کے صدر فوجیوں اور افسروں کے ساتھ یہاں آئے تھے۔ ڈھیر سارے چینی بھی تھے۔ اس دن میلے کا سا سماں تھا۔ میر اپوتا پیدا ہوا تھا اس دن’’۔
مجھے ہنسی آئی۔ یادداشت کی کڑیوں میں کیسی مماثلت تھی۔
شاہراہ ریشم کی تعمیر ۷ جنوری ۱۹۵۹ء میں شروع ہوئی اور بیس سال میں چوبیس ہزار پاکستانی اور چینی جوانوں کی مشترکہ کاوشوں سے تکمیل کو پہنچی۔ ۱۸ جون ۱۹۷۸ء کو صدرپاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے اس کا افتتاح تھاکوٹ پل پر کیا۔ چین کی نمائندگی نائب وزیراعظم کنگ پیاؤ نے کی۔ اس پل پر سے ۷۰ ٹن وزن گزارا جا سکتا ہے۔
میں ڈائری میں تفصیلات کو نوٹ کرنے میں جتی ہوئی تھی اور ڈرائیور ہارن پر ہارن دئیے جا رہا تھا۔
عروج چیخی۔
‘‘اللہ کی بندی بس کر اب ‘وگرنہ چھوڑ جائے گا تمہیں یہاں۔ پھر دیدار کرتی رہنا ساری رات بیٹھ کر اس کا’’۔
ہم دونوں بھاگیں۔
تھاکوٹ سے ذرا آگے دلائی اور اس سے آگے بشام۔ یہاں پہنچ کر گاڑی بھی رک گئی اور رات بھی اتر آئی۔ یہاں سے سوات نزدیک ہے۔ نو عمر لڑکے سوات جانے والی گاڑیوں پر سوات سوات کا شور مچا رہے تھے۔ سڑک کے کنارے ہوٹل تھے۔ چائے پکتی اور روٹیاں دھڑا دھڑ لگتی تھیں۔ میلے کچلے کپڑوں میں حسین صورت لڑکے مسافروں کے آگے سالن کی پلیٹیں اور روٹیاں رکھتے تھے۔ ہوٹلوں کے عقب میں دریائے سندھ کی موجوں کا شور کانوں کے پردے پھاڑ رہا تھا۔
ایک بار نہیں ‘دو بار نہیں ‘دس بار بھی نہیں ‘یقینا دس ہزار بار میں نے خدا شکر ادا کیا ہو گا کہ اس نے میری رفاقت کے لئے ایک عورت بھیج دی۔ لمبی چوڑی گاڑی میں ہم دو کے سوا تیسری کوئی آدھی عورت بھی نہ تھی۔ بشام کے جس ہوٹل میں ہم نے پڑاؤ ڈالا تھا۔ وہاں باتھ روم اللہ کی بنائی ہوئی کھلی زمین پر تھا۔ گو کہنے کو تاریکی تھی پر کہیں کہیں چمکتی سفیدیاں یہ بتاتی تھیں کہ خیر سے یہاں فراغت کے چھوٹے بڑے مرحلے طے ہو رہے ہیں۔
میں نے چادر کی دیوار بنائی۔ عروج اس کے زیر سایہ بیٹھی۔ پھر وہی کام عروج نے کیا اور میں نے فائدہ اٹھایا۔
کھانے کی چھوٹی سی میز پورم پور گندگی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ کرسیاں بوجھ اٹھاتے اٹھاتے اب خود بوجھ بنی پڑی تھیں۔ چھت کے پنکھے نے چلنے کی تہمت کا بار مفت میں اپنے کاندھے پر اٹھا رکھا تھا۔ کمرے کا ایک چھوٹا سا ٹوٹہ بھی اس کا زیر احسان نہ تھا۔
میں نے قیمہ بھرے پر اٹھے نکالے۔ عروج نے ماش کی دال اور گرم گرم تنوری روٹیاں منگوالیں۔ اللہ جانے ماش کی دال پکانے کے نسخے ان ٹال ہوٹل والوں کے پاس کہاں سے آگئے ہیں۔ گھر گر ہستن عورتیں بھی انگلیاں چاٹتی رہ جاتی ہیں۔
ابھی چائے کا کپ ہونٹوں سے لگایا ہی تھا کہ چلو چلو کا شور مچ گیا۔ کنڈیکٹر نے تین چکر لگائے اور ہارن نے یوں چیخنا چنگھاڑنا شروع کر دیا جیسے خدانخواستہ ائیرریڈ ہو گیا ہے۔
باہر گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا۔ مجھے حسرت ہوئی کہ اے کاش چاندی رات ہوتی۔ کہیں کہیں جگنو سے ٹمٹماتے تھے جو یہ بتاتے تھے کہ یہاں وادیاں ہیں اور گھروں میں بتیاں روشن ہیں۔ ابھی صرف ۲۲۰ میل کا سفر طے ہوا تھا۔
میرے سامنے والی نشست پر بیٹھا وہی نوجوان اٹھا۔ میرے پاس آیا اور بولا مجھے ذوالفقار کہتے ہیں۔ آہ میرا تخلص ہے۔ داسو میں متعین ہوں۔ آپ کیا کِسی اخبار سے ہیں؟
‘‘ارے کہاں بھائی مجھے تو آوارہ گردی کا جنون اڑائے پھرتا ہے’’۔
اُس نوجوان کی جوانی ان علاقوں میں گزر رہی تھی۔ پولیس میں ہونے کے باوجود ادب سے دلچسپی رکھتا تھا’ تاریخ اس کے گھر کی لونڈی تھی۔ یہاں کا چپہ چپہ اس کے قدموں تلے روندا ہوا تھا۔
اُس نے سگریٹ سلگایا۔ تیلی کو ایک بار پھر اسی انداز میں فضا میں لہرایا اور مجھ سے مخاطب ہوا۔
شاہراہ ریشم کا وہ حصہ جو بشام سے سازین تک ہے۔ قدرت کے حسین مناظر سے پر ہے۔ بشام سے ہربن تک دریائے سندھ کے دونوں جانب واقع علاقے کوہستانی کہلاتے ہیں۔ ہزاروں سال قبل جب سکندر اعظم نے ٹیکسلا فتح کیا تو یہ علاقہ ٹیکسلا کا ایک حصہ تھا۔ چندر گپت اشوک اور را جہ رسالو نے مدتوں اس علاقہ پر حکومت کی۔
تیمور نے ہندوستان فتح کرنے کے بعد اس علاقے کو ترکوں کے سپرد کر دیا۔ اسلامی حکومت کی بنیاد تبھی رکھی گئی۔ اس وقت یہ علاقہ ولایت پکھی کہلاتا تھا۔ ترکوں کے زوال کے بعد درانی غالب آگئے۔ بعد میں نا اتفاقیوں کی وجہ سے ہزارہ پر سکھوں کا قبضہ ہو گیا۔ لیکن کوہستان کا علاقہ ان کے قبضے سے آزاد رہا۔ انگریزی دور میں بھی اس علاقے نے اپنی آزادی برقرار رکھی۔ آزادی پاکستان کے بعد پاکستان میں شامل ہو گیا۔ یکم اکتوبر ۱۹۷۶ء کو اسے کا ضلع درجہ دیا گیا۔
یہاں کے لوگ دلیر اور جری ہیں۔ دریائے سندھ کے دونوں اطراف کے لوگوں کی اکثریت شین ذات پر مشتمل ہے۔ لیکن تعجب کی بات ہے کہ رسم و رواج عادات و اطوار اور آداب و معاشرت میں یک رنگی کے باوجود زبانیں اس قدر مختلف ہیں کہ ایک دوسرے کی زبان نہ بول سکتے ہیں اور نہ سمجھ سکتے ہیں۔ ان شنیوں کا تعلق عرب قریش سے بتایا جاتا ہے جو سقوط سندھ کے بعد ہندؤں کے ظلم و ستم سے بھاگ کر قبائلی علاقوں میں آئے اور پھر کوہستانی علاقوں میں پھیل گئے۔ پشتو دونوں طرف کے لوگوں کے رابطے کی زبان ہے۔
ایک دلچسپ بات آپ کی اطلاع کے لئے
اس نے سگریٹ کا زوردار سوٹا لگایا۔ نتھنوں سے دھواں خارج کیا اور پھر بولا۔
سندھ کے آرپار رہنے والے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ شادی بیاہ نہیں کرتے۔ مغربی جانب کے لوگ مشرقی جانب کی نسبت زیادہ تعلیم یافتہ اور دینی ہیں۔ دین کے بڑے بڑے جید علماء نے یہاں جنم لیا ہے۔ لوگ خوبصورت اور دراز قامت ہیں۔ ذہین اور معاملہ فہم ہیں۔
ہاں یاد رکھیئے جلکوٹ کبھی مت جائیں۔
جلکوٹ کے باشندے بہت سنگ دل اور سفاک ہیں۔ کسی کو قتل کرانا یا کرنا ان کے لئے معمولی بات ہے۔ جب کوئی مسافر ان کے گاؤں سے گزرے تو اسے لوٹے بغیر نہیں چھوڑتے۔ ایک معمولی ٹوپی کی خاطر بھی قتل کر دیتے ہیں۔ قتل کرنے کے بعد مینار جیسے تین منزلہ مکان میں قلعہ بند ہو جاتے ہیں۔ یہ مکان گھڑی کہلاتا ہے۔
ویسے ایک قابل ذکر بات ہے۔ اس نے غالباً خوف کی پرچھائیں میرے چہرے پر رینگتی ہوئی محسوس کر لی تھیں۔ بچوں اور عورتوں پر یہ لوگ ہاتھ نہیں اٹھاتے۔
میں نے اپنے کانوں کو چُھوا۔ چھوٹی چھوٹی چار ماشے کی مرکیاں میں اتار آئی تھی۔ ننگے بچھے ہاتھ ‘کان میرے پاس تھا کیا؟
پھر بھی مجھے جھرجھری سی آگئی۔ نوجوان بولتے بولتے ابھی تھکا نہیں تھا۔ یوں اب دریا کا مشرقی علاقہ ضلع ہزارہ اور مغربی حصہ ضلع سوات کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا ہے۔ قانون کا مکمل نفاذ عمل میں لایا گیا ہے اور علاقے میں قتل و غارت کی گرم بازاری میں بہت حد تک کمی آگئی ہے۔
پچھلی نشست پر کوئی گھٹیا برانڈ کا سگریٹ پی رہا تھا۔ دھوئیں کے مرغولے بھک بھک کرتے اس کے منہ سے نکل کر فضا میں گھٹیا اور ناگوار بو پھیلا رہے تھے۔ عروج ناک سکوڑتے ہوئے اس کی طرف یوں دیکھتی تھی جیسے اسے گردن سے پکڑ کر کھڑکی کے راستے سالم باہر پھینک دینا چاہتی ہو۔ وہ میری تاریخ دانی سے بھی عاجز نظر آرہی تھی۔
میرا اپنا دل بھی حمل کے کچے دنوں کی طرح متلانے لگا تھا۔
میں نے کھڑکی کا پورا شیشہ کھول دیا۔ بلند و بالا پہاڑوں کی صورت پر ہیبت جنوں اور دیوؤں کی سی نظر آتی تھی۔ وادیوں کا سارا حسن تاریکی نگلے بیٹھی تھی۔
نوجوان نے اپنا رخ سیدھا کر لیا تھا۔ وہ اب آنکھیں بند کئے غالباً سونے کی کوشش میں تھا۔ گاڑی کے سارے مسافروں کی گردنیں دائیں’ بائیں جھولتی تھیں۔ عروج بھی اپنے میاں کے شانے پر سر رکھے آنکھیں موندھے ہوئے تھی۔ میاں بھی اونگھ رہا تھا۔ بھری گاڑی میں غالباً میں واحد مسافر تھی جو کیل کی طرح سیٹ میں گڑی ہوئی تھی۔
میرے سارے سریر میں خوف اور دہشت یوں جذب ہو رہی تھی جیسے ریگستانی سیگار و پانی اپنے اندر جذب کرتا ہے۔
تیسرا کلمہ میری زبان پر تھا۔ ہر پندرہ منٹ بعد میں خود اللہ کے حضور کسی مظلوم کی طرح کھڑا کر دیتی۔
‘‘بھلا جیسی بھی جنونی اور احمق ہوں پر ہوں تو تیری بندی۔’’
بس اب تیز رفتاری سے پٹن کی طرف رواں دواں تھی۔ بشام سے چھبیس میل آگے پٹن اور تقریباً چورانوے میل چلاس۔ میرے سفر کی پہلی منزل۔
میں خوف اور اندیشوں کی گھمن گھریوں میں الجھی ہوئی تھی۔ کیونکہ بس کو رات کے تین یا ساڑھے تین بجے وہاں پہنچ جانا تھا۔
رات کی تاریکی ۔ انجان جگہ’ شہر سڑک سے ڈیرھ دو میل کی بلندی پر۔
‘‘پروردگار میں اوکھلی سردے بیٹھی ہوں۔ موسلوں سے بچانا اب تیرا کام ہے’’۔
پیرودہائی اڈے پر مجھے یہی بتایا گیا تھا کہ بس پوپھٹے چلاس پہنچے گی۔ لیکن ڈرائیور کی بیٹی کے ہاں گلگت میں بارہ سال بعد بچے کی ولادت ہوئی تھی اور وہ اُ سے دیکھنے کی خوشی میں ایکسیلیٹر کومعمول سے زیادہ دبائے جا رہا تھا اور مجھ جیسی پردیسن کا پٹڑا ہوا جاتا تھا۔
یقینا دعا قبول ہو گئی تھی کیونکہ جسم کا ہرمواس کے حضور تنا کھڑا تھا۔ کو میلا میں گاڑی خراب ہو گئی۔ مسافروں کو نیچے اتار دیا گیا۔
میں اور عروج بند دوکانوں کے سامنے پڑے بینچوں پر بیٹھ گئیں۔ رات نہ صرف سیاہ تھی بلکہ ڈراؤنی بھی تھی۔ ہم سے کچھ فاصلے پر پولیس کا سپاہی بیٹھا ڈنڈے سے کھیل رہا تھا۔ میں نے اس سے مزید معلومات حاصل کرنی چاہیں۔
‘‘یہاں بچے بچیوں کی تعلیمی حالت کیسی ہے؟’’
‘‘صفر’’
اس کے لہجے میں رکھائی بھی تھی اور رعونت بھی۔
گورنمنٹ یہاں ہر بچے کو ماہانہ وظیفہ دیتی ہے کہ کسی طرح یہ لوگ پڑھنے لکھنے میں دلچسپی لیں۔ انہیں بھیڑ بکریاں چرانے سے فرصت ملے تب پڑھیں گے نا۔ اور ہاں لڑکیوں کو پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟
میں نے اپنی تاریخ دانی کی کتاب کو بستے میں باندھ دیا۔ کیونکہ اس کے پھڑپھڑاتے صفحے مجھے کچھ نہ کچھ جاننے پر اکساتے تھے اور پاس بیٹھا مقامی آدمی بڑا روایتی جان پڑتا تھا۔ اس کے ہاں عورت کو سوال جواب کی اجازت نہیں تھی۔
گاڑی کی مرمت میں ڈھائی گھنٹے لگے۔ پانی باغ’ لٹر’ شتیال اور بشہ نالہ تاریکی میں ہی گزر گئے۔ دیوقامت ننگے بچھے پہاڑوں کی چوٹیاں سپید نظر آنے لگی تھیں۔ اس سپیدی کو دیکھ کر میرا دل ایسی طمانیت سے سرشار ہوا جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔
چلاس اب زیادہ دور نہیں تھا۔ تھور نالہ سے صرف اٹھارہ میل کا فاصلہ تھا اور تھور نالہ پل جھپکتے میں آیا چاہتا تھا۔ میں بار بار گھڑی کو دیکھتی تھی۔ بالاخر ڈرائیور سے کہہ بیٹھی ۔
‘‘اگر آپ جلدی کریں تو مجھے چلاس میں صبح کی نماز مل سکتی ہے’’۔
اس اللہ کے بندے نے فوراً گاڑی ایک نالے کے پاس روک دی۔ ہوائیں گرم اور تیز تھیں۔ نالے کا پانی ٹھنڈا اور شفاف تھا۔ وضو کیا اور دور جا کر ٹیلے کے پیچھے نماز ادا کی۔ حقیقتاً سرور اور سپردگی کی ایسی کیفیت نماز میں پہلے کبھی نہ آئی تھی۔
میرا پہلاپڑاؤ چلاس تھا۔ میرے چھوٹے چچا ایک طویل عرصہ یہاں ملازمت کے سلسلے میں رہے تھے اور یہاں کے مقامی لوگوں کے نام ان کے خط میر ے پاس تھے۔ چلاس کے چاندنی ہوٹل کے سامنے گاڑی رکی۔ سب مسافر بھی چائے پانی کے لئے اتر گئے۔ عروج سے میں نے ان کے گلگت میں قیام کا پتہ پوچھا۔ ہنستے ہوئے بولی۔
‘‘یار کسی سستے سے ہوٹل میں تلاش کرلینا۔’’

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply