شرک۔۔عارف خٹک

دونوں میں بہت پیار تھا۔ دونوں چالیس کے پیٹے میں تھے۔ ان کی شادی کو پندرہ سال گزر گئے تھے۔کوئی اولاد نہ  ہونے کے باوجود آج بھی ان کے بیچ ایسی محبت تھی،کہ دیکھنے والے رشک اور حسد سے جل بُھن جاتے تھے۔ ان پندرہ سالوں میں روزینہ اپنے شوہر سے ایک رات کیلئے بھی الگ نہیں ہوئی تھی۔ حاشر سے کہتی تھی کہ “جان میں سوچتی ہوں کہ میں اگر کسی رات اکیلی الگ بستر پر سوئی۔۔۔تو؟، میری تو سوچ کر ہی سانسیں بند ہونے لگتی ہیں”۔ حاشر کا پیار بھی وقت گزرنے کیساتھ ساتھ کم نہیں بلکہ بہت بڑھ گیا تھا۔ آج بھی چالیس سال کی عمر میں دونوں نوبیاہتا جوڑوں کی طرح اٹھکھیلیاں کرتے تھے۔

روزینہ نے ہمیشہ حاشر کے اشارے سے پہلے خود کو تیار کرکے حاشر کی جسمانی ضروریات کا خیال رکھا۔ حاشر کو ان پندرہ سالوں میں کسی اور لڑکی کا خیال چُھو کر بھی نہیں گُزرا۔ کبھی کبھار وہ روزینہ کو دیکھ کر ہنس پڑتا تھا،اور کہتا۔۔”تم نے مجھے اس قابل چھوڑا ہی نہیں کہ میں نظر بھر کر کسی اور کو دیکھوں بھی “۔ روزینہ سیکس میں بالکل پاگل ہو جاتی تھی۔ایسی ایسی حرکتیں کرتی تھی،کہ حاشر کو نشے کی طرح روزینہ کی لت لگ گئی۔

حاشر مذاق ہی مذاق میں کبھی کبھار روزینہ سے چھیڑ چھاڑ کرتا،کہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ اگر کچھ دنوں کیلئے میں تم سے دُور رہوں،تو پتہ نہیں اپنی جبلت سے مجبور ہوکر تم کیسا قدم اُٹھا لو۔ پندرہ سالوں میں پہلی بار روزینہ اس رات حاشر سے دور جاکر سوئی اور پوری رات روتی رہی۔ صبح سویرے حاشر نے جاکر جب اس کے وجود کو اپنی بانہوں میں سمیٹا ،تو روزینہ سب بُھول بھال کر حاشر پر چڑھ دوڑی۔ آدھے گھنٹے بعد روزینہ نے آنکھوں میں نمی بھر کر حاشر کو شکایتی نظروں سے دیکھا “حاشر تم نے سوچا بھی کیسے کہ میں کسی اور مرد کے بارے میں سوچ سکتی ہوں۔میں تو دعا مانگتی ہوں کہ جنت میں اگر تم مجھے نہ ملے ،تو مجھے جنت نہیں چاہیے۔ میری جنسی خواہشات تجھ سے شروع ہوکر تُجھ ہی پر ختم ہوتی ہیں”۔ حاشر کو اپنی مردانگی پر فخر سا محسوس ہوا اور فرط جذبات میں روزینہ کو  سینے سے لگا لیا۔

ایک دن ایسی ہی ہیجان خیز کیفیات میں روزینہ نے حاشر کو نشیلی آنکھوں سے گُھورتے ہوئے کہا “ہم اس بار بنکاک جائیں گے تو میں کسی عورت کو پیسے دیکر تجھ سے جسمانی تعلقات  کرتے دیکھنا چاہتی ہوں”۔ حاشر پھٹی پھٹی نگاہوں سے روزینہ کو دیکھنے لگا کہ شاید روزینہ کا دماغ چل گیا ہے یا پھر وہ اس کی وفاداری کا امتحان لینا چاہ رہی ہے۔ روزینہ نے مسکراتے ہوئے حاشر کو دیکھا۔ “کیوں دیکھ رہے ہو ایسے؟وہ میری سوتن تھوڑی ہو گی؟جو میرے شوہر پر قبضہ جماکر رکھے گی۔ ہم اس کو پیمنٹ کریں گے،اس کے بعد وہ کہاں ہم کہاں”۔ روزینہ نے نرمی سے حاشر کے ہونٹوں کو اپنے نرم ہونٹوں میں جکڑ لیا۔ حاشر سوچ رہا تھا،کہ جس عورت نے آج تک ایک رات بھی اس کے بغیر نہیں گزاری۔وہ کیسے اپنے محبوب شوہر کو کسی اور کےساتھ شیئر کرسکتی ہے۔ کہیں جنسی تسکین کا نیا طریقہ تو روزینہ نے نہیں ڈھونڈا۔ کیونکہ آج کل ساری دنیا میں “پارٹنر سوئنگ” کی کہانیاں زبان زدِ عام ہیں۔ روزینہ پر آج عجیب سی دیوانگی طاری تھی۔ آج اس کی حرکتیں معمول سے بالکل الگ تھلگ محسوس ہورہی تھیں۔

اگلے دن حاشر نے روزینہ سے دوبارہ پوچھا کہ رات کو تم عجیب طرح سے بہک گئی تھیں ۔ روزینہ اس کی بانہوں میں جُھول گئی۔ “جی جانو اس بار میں نے گروپ سیکس کرنا ہے تیرے ساتھ۔ مجھے غلط مت سمجھنا مگر میں یہ بھی انجوائے کرنا چاہتی ہوں”۔ حاشر کا ہاتھ گُھوما اور روزینہ کے گالوں پر اس کی انگلیوں کے نشان ثبت ہوگئے۔پُھنکارتا ہوا بولا “اب سمجھا تم مجھے کسی عورت کے ساتھ شیئر کرکے جواباً مجھ سے بھی کسی مرد کی توقع رکھوگی۔ ان پندرہ سالوں میں یہ تیرا نارمل سیکس نہیں تھا بلکہ تیری فینٹیسیز ہیں”۔ روزینہ سکتے میں آگئی۔ آج تک تھپڑ تو دُور،حاشر نے کبھی سخت لہجے میں اس سے بات تک نہیں کی تھی۔ وہ گُم صُم ہوکر صوفے پر بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد حاشر کو اپنے کئے پر ندامت ہونے لگی۔تو آکر اُس کیساتھ صوفے پر بیٹھ گیا۔ دس منٹ تک حاشر خاموش بیٹھا یہی سوچ رہا تھا کہ بات کہاں سے شروع کرے۔ بالآخر “سوری” کرتے ہوئے اُس نے روزینہ کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔ روزینہ پُھوٹ پُھوٹ کر رو پڑی۔ ہچکیاں لیتے ہوئے کہنے لگی۔ “سوری حاشر۔۔۔۔۔۔ میں پتہ نہیں کیوں چاہتی ہوں کہ دنیا کی ساری خوشیاں تیری جھولی میں ڈال دوں۔ میں نے یہ سب تمہیں  خوش کرنے کے لئے کہا تھا۔ تم خدا کی طرح ہو میرے لئے۔۔۔۔” روزینہ بولتی جارہی تھی اور حاشر محبت سے اس کو سمیٹے جارہا تھا۔ “میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اپنے محبوب کیلئے کچھ ایسا الگ سا کیا کروں کہ میرا محبوب مسکرا اُٹھے۔ آئی ایم سوری حاشر”۔

حاشر نے گاڑی کی چابی اُٹھائی۔ روزینہ کچن میں کام کررہی تھی۔ اُس کو روزینہ پر بے اختیار پیار آیا۔ جاکر پیچھے سے اس کو بانہوں میں لیا اور بولا۔۔
“جانتی ہو روزی آج تک میں نے تیرے بغیر کسی کے بارے میں سوچا تک نہیں اگر کسی حسین و جمیل چہرے کو دیکھتا ہوں تو خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میرے پاس روزی ہے جو صرف میری ہے۔ تیرے سامنے سب کچھ ہیچ ہے”۔ حاشر نے گویا اپنا دل اس کے سامنے رکھ دیا۔ “تھپڑ اسی بات پر مارا ہے کہ تم نے میری محبت میں شرک کرنے کی گستاخی کی ہے۔ میری آخری درخواست ہے دوبارہ مذاق میں بھی ایسی بات مت کرنا۔”۔ حاشر نے اس کے بالوں کو چُوما۔ اور دروازہ کھولتے ہی رک گیا۔ مُڑ کر روزی کو پیار سے دیکھا اور کہا۔۔۔ “آج ڈنر باہر کریں گے”۔ روزی نے مسکرا کر اُس کو الوداع کہا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اچانک روزی کا موبائل بج اُٹھا۔ جلدی سے نام دیکھ کر فون اٹھایا۔ “عباس کتنی بار کہا ہے فون مت کیا کرو۔ وہ منحوس ابھی چلا گیا ہے تھوڑی دیر پہلے یہاں تھا۔ اگر اس کو معلوم ہوا کہ میرا تمھارا چکر ہے وہ میری جان لے لے گا”۔ دوسری طرف عباس کی آواز ابھری ۔۔ یہ بتا ابھی فری ہو تو گلشن والے فلیٹ پر جلدی سے پہنچو۔ فرید بھی وہیں ہے”۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply