معذور بچے عذاب نہیں۔۔رمشا تبسم

ویسے تو انسان کا معذور ہونا اتنے افسوس اور خطرے کی بات نہیں ،اور نہ ہی یہ انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ کیسا پیدا ہونا چاہتا ہے؟زیادہ خطرے اور افسوس کی بات کسی انسان میں سوچ کا,احساس کا,شعور کا,اور انسانیت کا معذور ہونا ہے۔
جنس کا تعین اور ہیت کا اختیار انسان کے پاس ہوتا ہی نہیں۔قدرت کا ہی اختیار ہے کہ وہ کسی کو انسان,حیوان یا جانور پیدا کرے۔جس بھی شکل و صورت میں مکمل یا نامکمل، سب قدرت کا اختیار ہے۔انسان اپاہج ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی حل نکال لیا جاتا ہے۔جسمانی معذوری ہے تو مصنوعی اعضاء یا مشینری سے اس معذوری کا نعم البدل بنا لیا جاتا ہے۔جو کافی حد تک کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ذہنی معذوری تھوڑی تشویش ناک صورتحال ہوتی ہے کہ کوئی شخص ذہنی طور پر اتنا معذور ہو کہ اپنی بات کرنے,سمجھانے یا ارد گرد ہونے والے معاملات کو سمجھنے سے بالکل ہی قاصر ہوتا ہے۔مگر والدین یا اہل خانہ اس معذوری سے بھی کسی نہ کسی طرح مقابلہ کرنے کو تیار رہتے ہیں،اور کوئی نہ کوئی راستہ نکالتے ہیں۔خواہ اشارے کرکے بات کا راستہ نکالا جائے اور اگر نہیں تو پھر ایک ماں ویسے ہی اتنی قابل ہوتی ہے کہ بچے کے دل کا حال تک معلوم کر لیتی ہے۔یہی وجہ ہے کے بچے کے رونے پر ماں کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ بھوک کی وجہ سے ہے یا پیٹ درد سے۔

ایک عورت حاملہ ہوتی ہے تو رشتے داروں کو پہلی خواہش اولاد نرینہ کی لاحق ہوتی ہے مگر عورت ہر دم ایک صحت مند اولاد کی دعا کرتی نظر آتی ہے۔ماں سے زیادہ اس بات کی فکر کسی کو لاحق نہیں ہوتی کہ بیٹا ہو یا بیٹی بس   صحت مند ہو۔مگر اکثر باپ سے لیکر اہل خانہ تک بیٹے کی  خواہش میں پاگل ہوئے جاتے ہیں،مگر ماں صحت مند بچے کی دعا ہر وقت کرتی ہے۔

پھر ایک معذور بچہ پیدا ہو جائے تو اکثر صرف ماں اور بعض اوقات دونوں والدین کے لئے زندگی کافی مشکل ہو جاتی ہے۔ان کی زندگی گزارنے کے طریقے میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔وہ بہت محتاط ہو جاتے ہیں۔فکر میں اضافہ ہوتا ہے۔ بہت احتیاط سے اپنے بچے کو پالتے ہیں اور معاشرے میں اٹھنے بیٹھنے کے قابل بنانے کے لئے دن رات محنت کرتے ہیں۔بچہ جب معاشرے کی نفرت,تذلیل ,طعنے, سہتا ہے۔جب لوگ ٹھوکریں مارتے ہیں۔اسکی ذات کی نفی کرتے ہیں،تو بچے کے ساتھ ساتھ یہ والدین کے لئے بھی بہت اذیت کا لمحہ ہوتا ہے۔مگر وہ پھر بھی ہمت کرتے ہیں،کیونکہ اگر والدین ہمت ہار گئے تو یہ زمانہ یہ معاشرہ اس معذور بچے کو کچل دے گا۔ کیونکہ اس معاشرے کے کچھ افراد کو اب معذور بچے خدا کا عذاب لگنے لگے ہیں۔

اگر یہی سوچ ہے کہ انسان گناہ کرے اور قدرت لازممی عذاب نازل کرتی ہے تو پھر اس عذاب کی صورت کچھ بھی ہو سکتی ہے۔حالانکہ عذاب کی ایک صورت دولت کی فراوانی اور اقتدار کی طاقت بھی ہے۔کہ آپ دولت کے نشے اور اقتدار کی طاقت میں کھو کر انسانوں کو نقصان پہنچانا شروع کر دیں۔خود کو قدرت کے فیصلوں پر تجزیے کرنے والا سمجھ بیٹھیں۔۔صحیح غلط کی پہچان بھول جائیں۔گناہ میں بھٹک جائیں۔مگر دولت کی فراوانی اور اقتدار کی طاقت والا عذاب کسی کو عذاب محسوس ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ تو رحمت محسوس ہوتا ہے۔جتنا اقتدار کا نشہ چڑھتا جائے۔جتنا اقتدار حاصل ہوتا جائے طاقت ملتی جائے۔دولت ملتی جائے اتنی ہی قدرت خود پر مہربان محسوس ہوتی ہے۔اور انسان غرور میں دوسروں کو کچلتا چلا جاتا ہے۔

اور بس پھر اقتدار اور طاقت کے نشے میں دھت افراد کو معذور بچے خدا کے عذاب کی علامت محسوس ہونے لگتے ہیں ۔۔ فیاض الحسن چوہان نے معذوری اور معذور کا مذاق بنا کر بہت سے والدین کے دل مجروح کیے ہیں۔جس وقت یہ بیان چل رہا ہو گا۔کئی  معذور بچوں کے والدین اس وقت  ان  کا خیال رکھ رہے ہوں گے۔کوئی ان کو سُلا رہا ہو گا۔کوئی نہلا رہا ہو گا۔کوئی کھانا کھلا رہا ہو گا۔کوئی ان کو مضبوط بنانے کی کوشش میں ہو گا تو کوئی ان کے نا مکمل وجود پر ہنستے اور طنز کرتے لوگوں کے دیئے زخموں سے لڑنے کے لئے انکی ڈھارس بندھا رہا ہو گا۔ کوئی خود کو سنبھال رہا ہو گا کہ انہوں نے اپنی ہمت نہیں ٹوٹنے دینی ورنہ انکا بچہ جیتے جی لوگوں کے قدموں تلے آ جائے گا۔

انسان گناہ کا ارادہ کرتا ہے ۔مگر گناہ سرزد نہیں ہوتا ، تو خدا گناہ کا عذاب نہیں دیتا۔مگر انسان نیکی کی صرف نیت کر لے مگر نیکی کر نہ سکے تو خدا نیکی کا ثواب مکمل دیتا ہے۔
یہ ہے قدرت۔جو صرف ایک نیکی کی نیت پر نواز رہی ہے۔تو کیسے ممکن ہے کہ کسی کے گناہ کا عذاب کوئی اور وجود اٹھائے۔اگر ایسا ہوتا تو یہ نہ کہا جاتا کہ قیامت کے دن سب لوگوں کو اپنی اپنی فکر لاحق ہو گی۔والدین اولاد سے اور اولاد والدین سے بے فکر ہو جائیں گے۔اگر موقع آیا تو والدین کہہ دیں گے کہ ہم نے نیکی کی ہدایت کی مگر اس اولاد نے نیکی کا راستہ اختیار نہ کیا لہذا اسکو عذاب دیا جائے۔اور اولاد بلاشبہ اپنے گناہوں کا مجرم والدین کو ٹھہرانے کی کوشش میں ہو گی۔اور بیشک خدا سب جانتا ہے۔وہ کسی کے گناہ کے بدلے کسی پر عذاب نازل نہیں کرے گا۔اگر ایسا ہوتا تو پھر کچھ فرشتے اس کام پر بھی معمور ہوتے کہ  کسی کا گناہ کسی اور کے حساب میں کیسے لکھنا ہے۔اور کب لکھنا ہے۔۔شکر ہے فرشتے رشوت نہیں لیتے ورنہ واقعی   ممکن ہو جاتا کہ کسی کے گناہ کا عذاب کوئی اور وجود اٹھاتا۔مگر اب معاملہ خالصتاً خدا کے ہاتھ میں ہے۔

خدا فرماتا ہے آخری سانس تک گناہوں کی معافی کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔ابوجہل کو بھی آخری وقت معافی اور اسلام قبول کی دعوت دی گئی ۔اب گناہ تو بخشنے والی ذات اللہ پاک کی ہے۔اور شرک کے علاوہ وہ ہر گناہ بخشنے کا اعلان کرتا ہے۔
تو پھر ایسے کون سے گناہ ہیں کہ جن کا حساب کتاب بھی نہیں ہوتا۔۔محشر کے دن کا انتظار بھی نہیں کیا جاتا۔۔اور عذاب کا فیصلہ کر کے خدا دنیا میں ہی اولاد کو معذور کر کے والدین کو سزا دے دیتا ہے؟ ذرا ان سزا یافتہ والدین کی کچھ کہانیاں شیئر کرتی چلوں، جن کا گناہ معذور اولاد کی صورت میں انکے سامنے آ گیا تھا۔

وہ آٹھ سال کا ذہنی معذور بچہ حسن تھا۔جو میری دوست کی خالہ کا بیٹا تھا۔جس کے پیدا ہوتے ہی اس کے باپ نے اس کو کہیں پھینکنے کو کہا۔مگر ماں نے دل سے لگا لیا۔مگر باپ ایک معذور بچے کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں تھا لہذا اس نے بیوی کو طلاق دے دی۔
ماں نے اپنی جوانی کے سنہرے سال اس بچے کو سنبھالنے میں صرف کر دیے ۔علاج کروانے کی کوشش کی مگر علاج ممکن نہ تھا۔لہذا دن رات وہ اس بچے کے ساتھ موجود رہی تاکہ کہیں وہ خود کو نقصان نہ پہنچا لے۔حسن کو کھڑکی پسند تھی وہ اندرونِ شہر کی تیسری منزل پر موجود کھڑکی سے تنگ گلیوں اور اونچے مکانات کو دیکھتا اور آتے جاتے لوگوں کو دیکھ کر تالیاں مارتا۔بچے کے چہرے پر خوشی کے رنگ دیکھ کر ماں اس وقت تک وہاں کھڑکی کے پاس بھوکی پیاسی بچے کو لیکر بیٹھی رہتی جب تک بچے کا دل نہ بھر جاتا۔دن کو کسی بھی لمحے بچے کو اکیلا نہ چھوڑتی ۔رات کو سوتے وقت بچے کے پاؤں کو اپنے پاؤں سے دوپٹے سے باندھ لیتی کہ کہیں بچہ یہاں وہاں نہ ہو جائے۔اور رات کو بار بار جاگ کر بچے کو دیکھتی۔وہ ایک بھیانک رات تھی کہ جب وہ سو گئی  اور حسن نے پاؤں آزاد کروایا اور کھڑکی کے پاس جا پہنچا۔ ایک دم دروازہ کھٹکا حسن کی ماں نے بے چینی میں آنکھ کھولی ۔گلی میں عجیب شور تھا۔حسن کی ماں کے پاؤں کے ساتھ دوپٹہ بندھا تھا۔مگر حسن نہیں تھا۔وہ لرزتے پاؤں کے ساتھ کھڑکی سے آتے شور کی طرف بڑھ رہی تھی۔کانپتے ہاتھوں سے کھڑکی پکڑی اور بے چین دھڑکنوں سے نیچے دیکھا تو حسن کا وجود زمین پر چکنا چور ہو چکا تھا۔وہ لہو لہان تھا۔مگر زمین پر بکھرا ہوا خون صرف خون نہیں تھا بلکہ ایک ماں کی آٹھ سال کی محنت اور محبت تھا۔وہ اسکی کُل کائنات تھا۔اور وہ اب اس بے حِس  دنیا سے جا چکا تھا۔

کیا حسن کی ماں کی گناہوں سے معافی ہو گئی  تھی کہ قدرت نے سزا ختم کر دی اور حسن کو ناگہانی موت دے کر واپس بلا لیا؟اب یہ بھی کیسےمعلوم ہوگا کہ حسن کی معذوری اس کے باپ کے کسی گناہ کا عذاب تھی جس نے اس کو پیدا ہوتے ہی چھوڑ دیا تھا یا ماں کے گناہ کی کہ جس ماں کی سزا حسن کی موت سے ختم نہیں ہوئی بلکہ مزید بڑھ گئی، وہ اب کھڑکی پر بیٹھے دن رات اونچی عمارتوں کو دیکھ کر روتی ہے۔آتے جاتے لوگوں میں حسن کو تلاش کرتی ہے۔اور اونچے اونچے قہقہے لگا کر اپنا غم بھلانے کی کوشش کرتی ہے۔ڈاکٹر کا کہنا ہے حسن کی ماں کا ذہنی توازن بگڑ چکا ہے۔لہذا انکو باندھ کر رکھا جائے۔ کھڑکی تک جاتی ایک زنجیر سے اسکو باندھا گیا ہے اور وہی کھڑکی اسکی زندگی بھی ہے اور اسکی زندگی بھر کا فسوں بھی۔حسن کی ماں کو بس ایک کاش نے نہ جینے دیا نہ ہوش میں رہنے دیا کہ کاش میں اس رات سوتی نہ تو حسن زندہ ہوتا۔کوئی بھلا عذاب کو بھی ایسے یاد کرتا ہے؟عذاب کے ختم ہونے پر بھی پاگل ہوتا ہے؟عذاب کو سینے سے لگا کر رکھنا چاہتا ہے؟؟

یحییٰ  ہمارے پرانے گھر کے سامنے رہنے والا ایک نوجوان تھا۔جب ہم نے ہوش سنبھالا، تو یحییٰ نوجوان تھا۔وہ ذہنی اور جسمانی طور پر معذور تھا۔وہ نہ بات کر سکتا تھا نہ ٹھیک سے چل سکتا تھا۔ہم نے بچوں اور لڑکوں کو اکثر یحییٰ  کا مذاق اڑاتے دیکھا۔اس کو مارتے دیکھا۔اور وہ بس ہنستا رہتا تھا۔لوگ اس کو چھیڑتے تو میں سوچتی نہ جانے اسکے دل میں کیا آتا ہو گا؟اور آج بھی یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ ایسے بچے انسانوں کے جاہل رویے پر کیا سوچتے ہونگے کیا محسوس کرتے ہونگے؟

یحییٰ  اب تقریباً پچاس سال کا ہے۔اسکا والد ہمارے پیدا ہونے سے پہلے ہی وفات پا چکا تھا۔یحییٰ  کی ماں نے اسکو سینے سے لگا کر رکھا۔نوالے کھلانے سے اسکو نہلانے تک کا کام ماں کرتی تھی۔یحیی ٰ کی تکلیف وہ بتا نہیں سکتا تھا مگر ماں سمجھ جاتی تھی۔اسکو مسجد نماز ادا کرنے کا شوق ہوا تو ماں خود چھوڑ کر آتی اور نماز ختم ہونے سے ذرا پہلے بھاگ کر پہنچ جاتی اور واپس لے آتی۔ جوان اور بیوہ عورت یوں معذور بچے کے لئے کبھی مسجد جاتی تو کبھی اسکو ڈھونڈنے کو پارک پہنچ جاتی، نجانے کتنے شریف, نیک, باعزت اور گناہوں سے پاک مردوں کی نگاہیں اس گناہ گار عورت کا تعاقب کرتیں جسکا عذاب اسکا معذور بچہ تھا۔نہ جانے کتنی بار اس عذاب یافتہ عورت کو معاشرے کے نیک ,پارسا اور عذاب سے محفوط مردوں نے تنگ کیا ہو گا۔؟

ماں اب بہت بزرگ ہو گئی  ہے چلنے پھرنے سے بھی تقریباً قاصر ۔ یحییٰ  بھی اب عمر کے اس حصے میں ہے جہاں معذوری کے ساتھ ساتھ عمر کا اثر بھی ہو رہا ہے۔وہ اب مسجد نہیں جا سکتا کیونکہ اسکی ماں چھوڑنے نہیں جا سکتی اور اب بالکل بھی چل نہیں سکتا ۔اب اسکی ماں خود بھی بول نہیں سکتی۔ہاتھ کانپتے ہیں۔مگر یحیی کے کام خود ہی کرتی ہے۔چار سال پہلے ایک نیک موٹر سائیکل سوار موبائل پر یقیناٌ تلاوتِ قرآن پاک,یا کوئی اسلامی لیکچر سن رہا تھا اس نے یحیی ٰ کو ٹکر مار دی اور لہذا اب وہ بستر پر ہے۔شاید  بسترِ مرگ پر ۔

ماں کہتی ہے مجھے بس فکر ہے میں مر گئی  تو اسکا کیا ہو گا اور یہ دکھ اسکو ہر ایک شخص کے سامنے رونے پر مجبور کر دیتا ہے۔لوگ کہتے ہیں یحیی ٰ اور اسکی ماں ایک ساتھ ہی وفات پا جائیں کیونکہ اگر ایک فوت ہوا تو دوسرا زندگی گزار ہی نہیں سکے گا۔مگر ماں اپنے بیٹے کی صحت اور لمبی عمر کی دعا مانگتی ہے اور اسکے لئے دنیا میں آسانی بھی۔شاید وہ اپنے عذاب کو ایک بار ہنستا کھیلتا بات کرتا چہکتا ہوا عام انسان کی طرح دیکھنے کی آح بھی خواہش مند ہے ۔مگرزندگی کے  اس آخری حصے میں ایک ماں کو اپنے اوپر نازل کیے عذاب کی اتنی فکر کیوں ہے؟کیوں وہ اپنی تکلیف بھول کر بھی اولاد کو سنبھال رہی ہے؟کوئی اپنے عذاب کو عمر کے تمام سنہرے سال دے سکتا ہے؟؟کوئی اپنے عذاب سے جان کیوں نہیں چھڑواتا؟؟

یہ سردیوں کی صبح تھی۔جب دھند ہر طرف چھائی۔کالج جاتے ہوئے پھاٹک پر کالج وین رک گئی ۔میری نظر باہر کھڑی گاڑیوں کی قطار پر سے ہوتی ہوئی ایک موٹر سائیکل پر رک گئی ۔جس پر ایک پانچ چھ سال کا بچہ موجود تھا۔وہ ہاتھوں کی انگلیوں سے لیکر پاؤں تک ذہنی اور جسمانی معذور تھا۔وہ عجیب طرح ہنستا ہوا ارد گرد سے بے خبر قہقہے لگا رہا تھا۔سب لوگ اسکی طرف دیکھ رہے تھے۔بچے کے منہ سے گرنے والا پانی والد اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ہوا ذرا بھی کوفت محسوس نہیں کر رہا تھا بلکہ  والد اسکو دیکھ کر خوش ہو رہا تھا کیونکہ اسکا بچہ ہنس رہا تھا۔۔حیرت تھی کوئی اپنے گناہوں کے عذاب کو دیکھ کر بھی خوش ہوتا ہے؟کوئی اپنے گناہوں کے عذاب کی گندگی کو بھی ہاتھوں سے صاف کرتا ہے؟

وہ بچہ  سکول یونیفارم میں تھا۔یعنی اپنے عذاب کی تعلیم و تربیت کی بھی فکر لاحق تھی۔وہ بچہ ایک دم ہنستا ہوا تالیاں مارتا اور اسکا سر موٹر سائیکل کے ہینڈل پر گرنے لگتا تو باپ فوراً ہاتھ رکھ دیتا۔ہینڈل پر ایک موٹا تولیہ پہلے سے باندھ رکھا تھا شاید  اسی وجہ سے کہ  بچے کو چوٹ نہ لگے۔پھر بھی اس پندرہ منٹ میں اس بچے کا بیس بار ہینڈل پر سر لگنے سے باپ نے روک لیا۔اب کوئی اپنے عذاب کی اتنی حفاظت اور فکر بھی کرتا ہے یہ الگ حیرت ہے۔

میں تو اس سوچ میں ہوں کہ یہ اگر معصوم بچوں کی پیدائش عذاب ہے۔تو پھر جو یہاں تیرہ سالہ بچی کو حاملہ کرتے ہیں,پاگل لڑکی کو ہسپتال داخل ہونے پر پیرا میڈیکل سٹاف ڈاکٹر کے ساتھ مل کر ریپ کرتا ہے,ننھی ننھی فرشتے اور زینب جیسی کئی بے شمار کلیوں کو مسلتے ہیں, سجاول کی ذہنی توازن کھوئی ایک مجبور و بے کس بیٹی جس کی ذہنی معذوری کا آئے دن فائدہ اٹھاتے روٹی کے چند نوالوں کے عوض سجاول کے غیرت مند اور شریف,نیک,عذاب سے محفوظ اور گناہوں سے  پاک فرشتہ  صفت مرد اسکی عزت تار تار کرتے کرتے اسے حاملہ کرنے والے,والدین کو جائیداد کی غرض سے قتل کرنے والے,بازار حُسن کو چار چاند لگانے والے پھر کونسی نیکی کا صلہ ہیں؟کونسی نیکی والدین سے سرزد ہوتی ہے جسکے نتیجے میں عزتیں تار تار کرنے والے شریف النفس اور جنت کی حقدار مخلوق پیدا ہوتی ہے؟؟؟

میں تو اب اس سوچ میں بھی ہوں کہ اگر معذور بچے کسی گناہ کا نتیجہ ہیں تو اس گناہ کی معافی کیسے ممکن ہے؟۔اگر معذوری کو عذاب سے منسلک کر ہی دیا ہے تو میری التجا ہے کے اس عذاب کی معافی کا راستہ بھی دکھایا جائے۔اگر کوئی کہہ دے نا والدین اپنی جان دے دیں اور بچہ صحت مند ہو جائے گا تو یقین جانیں ایک ماں ایک سیکنڈ کی دیر نہ کرے اور اپنے بچے کی خاطر اپنی جان دے دے ۔تو ایسے میں پہلے سے اپنے معذور بچوں کے ساتھ زندگی کی ضربیں سہنے والے,مسلسل ایک جدو جہد کرنے والے, بچوں کے مستقبل کو لیکر اداس,پریشان رہنے والے,لمحہ بہ لمحہ بچوں کو معاشرے کے لئے قابل قبول بنانے کی جدو جہد کرنے والے والدین کو ہی انکی اولاد کی معذوری کی وجہ بتانا انتہائی شرمناک حرکت ہے جسکی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔فیاض الحسن چوہان ذرا سوچیں کہ خدا نہ کرے اگر انکے گناہوں کی سزا انکے بچوں کو ملنے لگ گئی  تو وہ تو جھوٹا قرآن اٹھا چکے ہیں پھر کیسے بچے فیاض الحسن کے گھر پیدا ہونگے؟کیسی معذوری انکی اولاد کے نصیب میں لکھی جائے گی؟؟

فیاض صاحب آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ آپ میں بھی ایک معذوری ہے۔آپ کی زبان کی معذوری۔کہ آپ کرتے ہیں تو بات سمجھ نہیں آتی۔اگر آپ کے والدین حیات ہیں تو ذرا پوچھیں ان سے کونسا گناہ سرزد ہوا تھا کہ قدرت نے اس کا عذاب آپ کی زبان کو معذور کر کے نازل کیا؟ اور اگر وفات پا گئے ہیں تو ذرا آپ خود سوچیں کہ آپ کی معذوری والدین کے کس گناہ کا نتیجہ ہے؟

بلکہ مجھے لگتا ہے آپ کے والدین اگر حیات ہیں تو وہ بھی سوچتے ہونگے کہ ان سے کون سا گناہ ہوا جس کا نتیجہ ایک ذہنی معذور بیٹے کی صورت میں انہیں ملا۔اور یقین جانیں آپ کی یہ ذہنی معذوری واقعی ہی کسی عذاب کا نتیجہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مگر خدا کسی والدین کو معصوم معذور بچوں کی ذمہ داری نہ دے کیونکہ یہ معاشرہ کہیں عنقریب ان کو عذاب جان کر کہیں نقصان نہ پہنچانا شروع کر دے۔خدا ہر معذور بچے کے والدین کو حوصلہ اور ہمت دے کہ وہ اس معاشرے میں اپنے بچے کو جینے کے قابل بنا سکے۔آمین ثم آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply