• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ایک کھوجی کا کھتارسس/قصہ اک لائن کا جسے ڈھونڈنے میں برسوں لگ گئے۔۔اعظم معراج

ایک کھوجی کا کھتارسس/قصہ اک لائن کا جسے ڈھونڈنے میں برسوں لگ گئے۔۔اعظم معراج

تین چار سال پرانی بات ہے۔۔۔ تقریباً ہر اتوار شام کو بچوں کے ساتھ   باہر نکلنا ہوتا تو اسی وقت ریڈیو پر ایک پنجابی پروگرام چل رہا ہوتا، جس کی میزبانی لاہور کا کوئی پنجابی شاعر ساحر کر رہا ہوتا۔  چھٹی والے دن کوئی فکس ٹائم تو ہوتا نہ تھا، کبھی تھوڑا سا پروگرام کبھی آدھا اور کبھی کبھار کچھ  زیادہ بھی سن لیتا۔ایک دن میں نے گاڑی میں بیٹھ کر جیسے ہی ریڈیو آن کیا تو میزبان صاحب نے ایک لائن پڑھی۔۔ جے نانک ہٹی پا لیندا  ۔۔مجھے شاعری کی سمجھ بوجھ تو کوئی نہیں لیکن کئی لائنیں بہت ہی دل میں کھب جاتی ہیں۔۔  یہ لائن بھی مجھے بہت ہی خوبصورت لگی  اور لگا اس کی پہلی لائنوں میں انسانی فلاح کے لئے ہوس ِ زر واقتدار، اقتدار کے جذبوں سے اوپر اٹھ کر خالص مقصد کے حصول کے لئے کام کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہو گا۔(یا آج کے دور کے حساب سے اس شاعری میں پُرخلوص لوگوں کو مزید ورغلایا گیا ہو گا)۔

مجھےجستجو ہوئی کہ پہلے مصرعے کیا ہونگے۔۔؟ میں نے کئی پنجابی شاعری میں دلچسپی رکھنے والے دوستوں سے پوچھا لیکن پتہ نہیں لگا۔کبھی بھول جاتا پھر جب کبھی یہ لائن یاد آتی میں کسی سے پوچھ لیتا ایک دن شہباز چوہان سے بات ہورہی تھی ،میں نے  اس سے پوچھا ،آپ کسی پنجابی شاعر ریڈیو آر جے  ساحر کو جانتے ہیں؟۔ اس نے کہاں ہاں ،پھر اس نے ساحر کا نمبر لے دیا، اس مورکھ نے نہ فون اٹھایا نہ مسیجز کا جواب دیا۔ پھر میری دور ِ حاضر کی امرتا پریتم طاہرہ سرا صاحبہ سے واقفیت ہوئی ،جتنی بڑی شاعرہ اس سے بھی بڑی انسان ،انہوں نے زریں منور کے کہنے پر تحریک شناخت کے اغراض و مقاصد بیان کرتی نظم “سنہری ققنس” کا ترجمہ بھی خوبصورت پنجابی میں کیا اور کمال مہربانی سے اس کو اپنی آواز میں ریکارڈ بھی کیا۔ چند دن پہلے ان سے بات ہورہی تھی ،مجھے پھر یاد آگیا, میں نے پوچھا آپ نے یہ شعر سنا ہے؟۔ انھوں نے کہا نہیں ۔۔۔میں نے سوال کیا آپ ساحر کو جانتی ہیں۔؟

انھوں نے کہاں ہاں۔۔ او لاہور ہوندے نیں ، میں پُچھ  لینی آں  (وہ لاہور ہوتے ہیں میں پوچھ لیتی ہوں) اب مجھے لگا یہ ساحر بھی پنجابی ادبی حلقوں میں جانا پہچانا جاتا ہے۔ورنہ ریڈیو پر اکثر وہ دوران پروگرام فون کرنے والوں سے کئی دفعہ سطحی سے بھی کافی نیچے لیول کی گفتگو کرتا ۔۔ آجکل ٹی وی ریڈیو کو زیادہ تر ایسے ہی دستیاب ہیں۔ خیر طاہرہ  صاحبہ کو اس نے بتایا کہ مجھے یاد نہیں یہ ہے۔؟

لیکن یہ کینیڈا میں میقم اقبال ماہل صاحب کی کسی نظم کا مصرع ہے۔محترمہ طاہرہ نے مجھے بتایا اقبال ماہل میرے جاننے والے ہیں۔میں ان سے پوچھ لوں گی ،اب طاہرہ صاحبہ نے کئی دفعہ فون کئے لیکن ماہل صاحب نہیں ملے۔میں مسلسل انھیں فون کرتا رہا۔ پرسوں انکی اقبال ماہل سے بات ہوئی۔کل طاہرہ  صاحبہ نے مجھے اپنی آواز میں ریکارڈ کرکے پوری نظم بجھوا دی۔ پوری نظم صبح بچوں سے ویڈیو بنوا کر کے اپنے فیس بُکی واقف کاروں کے لئے دستیاب ہوگی۔
اب صرف وہ شعر جس کو ڈھونڈنے میں برسوں لگے
جنا سمے تو ایس پاسے لایا جے کر کم تے لا دیندا
اینے سمے چہ میرے متراں ڈالر بڑے بنا لیندا
پیسے نال پوزیشن بن دی کوئی کاروبار چلا لیندا
دھنیا دی سوچی وچ سجناں تو اپنا نا ں لکھا لیندا
گل تے تیری ٹھیک اے دوست ڈالر بڑے بنا لیندا
رکھاہ دے نل مکن چھاوا سماہ سب نو ڈھاہ لیندا
کنے دھنی ہو ہو ٹر گئےکون کسے دا ناں  لیندا
کافتا کنج بن دی گربانی جے نانک ہٹی پا لیندا!
ترجمہ
درختوں کے ساتھ ہی چھاؤں بھی ختم ہو جاتی ہے
وقت سب کو فنا کر دیتا ہے۔
بہت دولتِ مند آئے اور گئے
کون کسی کو یاد رکھتا ہے
گرو نانک کی شاعری کبھی گرنتھ کے حرف نہ بنتی
اگر گرو نانک بھی دوکان کھول لیتے

شکریہ طاہرہ سرا صاحبہ آپ کی بدولت کئی برسوں کی جستجو ختم ہوئی۔
بہت ہی خوبصورت خیال اقبال ماہل صاحب

Advertisements
julia rana solicitors london

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا  کار اور سترہ کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply