جب اپنا ٹائم آئے گا، تب ہمیں کیا کرنا ہوگا؟۔۔۔۔صفی سرحدی

پشاور میں افغان مہاجرین کی پرانی بستی کچہ گھڑی جو اب صفحہ ہستی سے مٹ چکی  ہے۔وہاں کچھ سال پہلے پنجاب سے  آئے کچھ خانہ بدوش خاندانوں نے ڈیرا ڈال دیا تھا۔ زیادہ تر مزدور کار  گر تھے مگر ان میں ایک لڑکا کالی کے نام سے مشہور تھا، جو آئس کریم کی گاڑی لیکر اکثر ہمارے محلے میں آیا کرتا تھا، یوں اس کے ساتھ سلام دعا ہوجاتی تھی، کالی اکلوتا تھا، شادی شدہ تھا ،زیادہ روزگار پسند بھی نہیں تھا، اس کا موڈ ہوتا تھا تو  آئس کریم کی گاڑی بھر لیتا تھا ورنہ  آرام سے اپنی جھگی میں لیٹا رہتا یا پھر باقی جھگیوں کی عورتوں پر حکم چلاتا رہتا اور اکثر انہیں غلیظ گالیاں بکتا دکھائی دیتا۔

ایک  رات گیارہ بجے صدر سے واپسی ہورہی تھی ،بس تقریباً  خالی ہوچکی تھی جس میں باقی صرف میں اور ایک نرس لڑکی تھی، جو نائیٹ شفٹ ڈیوٹی کیلئے ان جھگیوں کے اُس پار ایک نجی اسپتال جارہی تھی۔ بس رکی ہم دونوں بس سے اترے، میں نے موبائل ٹارچ  آن کیا، تاکہ وہ بڑے خشک نالے سے  آسانی سے گزر کر اوپر دوسری روشن سڑک تک پہنچ سکے۔ اس نے شکریہ ادا کیا ،سٹریٹ لائٹ سے روشن سڑک پر وہ سڑک کے بائیں طرف اور میں دائیں طرف طرف چل پڑا۔

جھگی کے باہر ٹہلتے ہوئے کالی نے مجھے پہچانا، اس نے قریب آکر مجھے روک کر سڑک کے اس پار جھاڑیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ میں اس لڑکی کے ساتھ سیکس کرنا چاہتا ہوں، تم میری مدد کرنا، اسے میرے فارغ ہونے تک بس پکڑے رکھنا۔ کالی سے یہ سننے کی دیر تھی کہ میں نے پوری شدت کے ساتھ ایک زور دار تھپڑ اسے رسید کیا، جس سے میرے ہاتھ میں بھی شدید درد ہونے لگا۔ کالی گال سہلاتے ہوئے سڑک کنارے بیٹھ گیا۔ اسپتال قریب تھا میں وہیں پاس رکا رہا، جب لڑکی اسپتال کے اندر داخل ہوئی تو میں نے سکھ کا سانس لیا اور  آگے اپنے گھر کی طرف بڑھنے لگا۔ مگر ہاتھ کے درد سے اچانک مجھے احساس ہوا کہ یہ تو چلو غریب کالی تھا، جو جھگی میں رہتا ہے اس کا کوئی پوچھنے والا نہیں اور تم اس سے ڈرتے بھی نہیں ،اس لیے اسے زور دار تھپڑ رسید کیا مگر اگر یہ کوئی ایسا بندہ ہوتا جو امیر ہوتا ،گاڑی سے اُتر کر تم سے لڑکی کو ریپ کرنے میں مدد طلب کرتا یا وہ  آپ کا کوئی دوست ہوتا تو کیا تب بھی اتنی ہی شدت سے اسے تھپڑ رسید کرنے کی جرات کرتے؟

یہ خیال جیسے احساسِ  جرم سا بن گیا، میں کالی کے پاس گیا اور اس کا گال دیکھا اس پر میرے ہاتھ کے گہرے نشان پڑ چکے تھے اس نے  آبدیدہ ہوتے اپنا منہ پھیر لیا اور مجھے دفع ہوجانے کا کہا ،میں نے کالی سے کہا ۔۔۔کالی میں تمہیں مارنے پر شرمندہ نہیں ہوں، اگر تم اس لڑکی کو ہاتھ لگاتے تو بھی میں تم پر ہاتھ اٹھاتا، مگر میں صرف اس لیے واپس آیا ہوں کہ ابھی ابھی میرے دل میں یہ خیال آیا کہ اگر کوئی امیر لڑکا ہوتا تو کیا میں اسے بھی تمہاری طرح تھپڑ رسید کرپاتا۔ کالی نے جواب دیا ہاں۔۔۔ مجھے پتا ہے  آپ سیدھے چل پڑتے ،اس پر تم ہاتھ نہیں اٹھا پاتے۔ میں نے کالی سے کہا ہاں شاید میں اس پر ہاتھ نہیں اٹھا پاتا، لیکن اگر میرے سامنے لڑکی کو وہ ہاتھ لگاتا تو تب میں اس کے سامنے ضرور مزاحمت کرتا ،چاہے تب میری جان ہی کیوں نہ چلی جاتی۔ کالی مجھے نظر انداز کرتے ہوئے اٹھا اور اپنی جھگی کے اندر چلا گیا۔ میں  آگے اپنے گھر کی طرف بوجھل قدم اٹھائے چل پڑا۔

خود کو کیا پارسا ثابت کرنا ،میں بھی یہ اقرار کرتا ہوں کہ یہ ہمارا عام رویہ ہے کہ ہم کمزور پر فوری ہاتھ اٹھاتے ہیں مگر اگر کوئی بااثر اور بااختیار ہو تو اس کے سامنے ہم سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ اب اس کا کیا کریں۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ کمزور کے سامنے ہمارا بلڈ پریشر ہائی ہوجاتا ہے اور طاقتور کے سامنے بلڈ پریشر لو ہوجاتا ہے۔

کل کچھ ایسا ہی کراچی میں ریحان نامی اس بچے کے ساتھ ہوا جو محرومیوں کا مارا ہوا تھا غربت کے احساس سے جان چھڑانے کیلئے کسی لنڈے کی دکان سے گزرتے ہوئے اسے وہ شرٹ پسند  آئی ہوگی جس پر لکھا تھا  ” اپنا ٹائم  آئے گا” اور اس نے فوراً  وہ شرٹ خرید لی ہوگی اور اسے پہن کر جب اس نے معمولی چوری کی تو پکڑے جانے پر اس کی پینٹ اتروائی گئی اور اسے اتنا مارا گیا کہ اس کی جان ہی چلی گئی۔ اکثر ہم سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھتے ہیں جب کوئی ڈاکو پستول نکالتا ہے تو کوئی مزاحمت نہیں کرتا ،لُٹنے والا خود ہی اپنی  جیب خالی کرکے ان کے ہاتھ میں موبائل اور بٹوہ رکھ دیتا ہے۔ اور اگر کوئی نہتا کمزور چور لوٹنے والے کو ملتا ہے جس کے ہاتھ میں پستول بھی نہیں ہوتی تو اسے پھر زندہ جلانے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ اور اس عمل میں پورا محلہ تک شامل ہوجاتا ہے۔ اپنا ٹائم  آئے گا، والے بچے کا ٹائم خراب تھا ،اس کا ٹائم آنے سے پہلے ہی اسے دنیا سے رخصت کردیا گیا۔ شاید اس لیے کہ جب اس کا ٹائم آئے گا تو وہ شلوار اُتروانے کا بدلہ ضرور لے گا۔

فیس بک پر  آئے دن انڈیا میں ہجوم کے ہاتھوں مرنے والوں کی ویڈیوز گردش کرتی ہیں، جسے دیکھ کر پاکستان میں ہونے پر شکر تو ادا کردیتا ہوں، مگر جب اپنے ہی دیس میں ایسے خونخوار ہجومیوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے یہاں کوئی بھی محفوظ نہیں لگتا کیوں کہ طاقتور کے سامنے یا تو سب اس ہجوم کا حصہ بن جاتے ہیں یا پھر خاموشی سے اس بربریت کی ویڈیو بنانے لگ جاتے ہیں۔ اور پھر ایسی دل خراش ویڈیوز دیکھ کر وطن عزیز کے حساس طبیعت کے لوگ کئی دنوں تک ڈپریشن میں ڈوبے رہتے ہیں۔ مانا کہ پُرتشد ہجومی جلد پکڑے جاتے ہیں ،دیر سے سہی مگر انہیں سزا بھی ہوجاتی ہے لیکن ایسا ہر سانحہ ہمارے درمیان کچھ سوالات چھوڑ جاتا ہے اور ان سوالوں کو ہم حل کرنے میں ناکام کیوں ہوجاتے ہیں۔

شاید ہماری  ذہنیت ہی تشدد کی بنی ہوئی ہے اور اس تشدد کا آغاز شاید ہمارے اپنے گھروں سے ہوتا ہے، ہر دوسرے تیسرے گھر میں ماں باپ اپنے بچوں کو جانوروں کی طرح مارتے ہیں۔ ہمارے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں ،وہ بھی روز تشدد کی خبروں سے بھرے رہتے ہیں۔ اور وہ تشدد کوئی ہجومی بھی نہیں کرتا بلکہ فرد واحد کرتا ہے۔ بیٹے نے باپ کو گولی مار دی۔ شوہر نے بیوی کی زبان کاٹ دی۔ ساس نے بہو جلا دی۔ بھائی نے غیرت کے نام پر  بہن کو قتل کردیا۔ دوست نے دوست کو کاٹ ڈالا۔ بچوں کی لڑائی میں بڑے کود  پڑے، فائرنگ سے ایک ہی گھر کے چار افرد مارے گئے۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایسے واقعات تو ہوتے رہتے ہیں اور ہم ایسے واقعات کو زیادہ سیریس بھی نہیں لیتے، مگر ہجومیوں کے ہاتھوں مارے جانے والے واقعات کو کبھی  ذہن سے ڈیلیٹ نہیں کرپاتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ کالی کو تھپڑ  مار  کر میں نے ٹھیک کیا تھا یا غلط مگر ٹائم آنے پر جہاں میرے سامنے غلط ہوگا تو میری پوری کوشش ہوگی کہ میں پہلے منہ سے بول کر معاملہ حل کروں۔ اور اگر میرے سامنے کسی کی جان لی جارہی ہو تو تب میں تماشائی یا پُرتشدد ہجومی بننے کے بجائے نہتے کا بڑے سے بڑا اور چھوٹے سے چھوٹا جرم بھول کر اس کی جان بچانے کی پوری کوشش کروں گا۔ آپ بھی ٹائم آنے کے بارے میں ابھی سے ذہن سازی کرلیں کہ آپ نے کیا کرنا ہے۔
شُبھ کامنائیں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply