نئے نقاد کے نام خطوط/محمد شاہد حفیظ

ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا شمار عہد حاضر کے مستند نقادوں میں ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف اردو میں مابعد نو آبادیاتی مطالعات کے بنیاد گزار ہیں، بلکہ جدید اور مابعد جدید تنقید سے لے کر لسانیات اور تنقید، متن سیاق اور تناظر، مجید امجد: حیات شعریات اور جمالیات، مابعد نو آبادیات اردو کے تناظر میں، ثقافتی شناخت اور استعماری اجارہ داری، اردو ادب کی تشکیل جدید، اس کو ایک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں، نظم کیسے پڑھیں اور دیگر اہم کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان کی کتاب “نئے نقاد کے نام خطوط” (ڈیلیکس ایڈیشن) اگست 2023ء میں سنگِ میل لاہور سے شائع ہو کر منظر عام پر آئی۔ جس کا انتساب “نئے نقادوں کے نام ہے”۔

یہ کتاب ناصر عباس نیر نے رِلکے کی کتاب “نوجوان شاعر کے نام خطوط” (1934ء) سے متاثر ہو کر لکھی۔ رِلکے 1875 میں پراگ میں پیدا ہوا۔ وہ اپنے ہم وطن کافکا سے آٹھ برس چھوٹا تھا اور کافکا کی طرح زندگی کے معاملے کو سمجھنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔ اس کی تحریروں میں بھی معاشرتی جبر کا وہی احساس پایا جاتا ہے جو کافکا کے رد عمل میں نمایاں ہے۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران اس کی منشا کے خلاف اسے ایک ملٹری سکول میں  داخل کرا دیا گیا جہاں اس نے پانچ سال سخت اذیت میں گزارے۔ رِلکے نے اپنی زندگی میں بہت سے ملکوں کا سفر کیا۔ اس کی زندگی میں بہت سے اتار چڑھاؤ بھی آتے رہے، کبھی وہ بہت فعال ہو جاتا تھا اور کبھی تخلیقی سوتے خشک ہو جاتے تھے۔

پہلی جنگ عظیم نے شروع شروع میں اس کو جھنجھوڑا اور یکدم خیالات کی یلغار نظموں اور خطوں کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ لیکن جب اس نے بحیثیت ایک جنگی افسر کے اس جنگ کو قریب سے دیکھا، تو پھر اس میں ایک بددلی سی پیدا ہو گئی۔ وہ قلعوں اور وادیوں میں گھوم پھر کر اس فنی تحریک کو زندہ کرتا رہا۔ رِلکے کے خطوط ان نفسیاتی تبدیلیوں کی بڑی خوبصورت عکاسی کرتے ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر ان خطوط کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے، اور ان سے ایک عام شاعر کے نفسیاتی اور فنی سفر کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ رائنر ماریہ رِلکے کی کتاب میں دس خطوط شامل ہیں جب کہ ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی کتاب میں کُل 33 خطوط شامل ہیں، جس میں انھوں نے دلکش پند و نصائح کو کہانی کے پیرائے میں پیش کر کے نئے نقادوں کو تنقید کا راستہ دکھایا ہے، اور ان خطوط میں تنقید کا بنیادی کردار بھی بڑی وضاحت کے ساتھ روشن کیا ہے۔

ناصر عباس نیر ان خطوط کا پس منظر اور محرک بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:
” کسی زمانے میں نوجوان شاعر کے نام جرمن زبان کے آسٹریائی شاعر رِلکے (رائنر ماریہ رِلکے) کے خطوط پڑے تھے، وہ ہر نئے شاعر کو ضرور پڑھنے چاہیے۔ یہ خطوط لکھتے ہوئے کہیں لاشعور میں وہ خطوط ضرور موجود تھے۔ خط کی تکنیک ایسی بہت سی باتیں قدر بے تکلفی اور اپنائیت کے ساتھ کہنے کا موقع دیتی ہے جو مضمون یا مکالے میں ممکن نہیں۔ پیرو کے ممتاز ناول نگار یوسا کے “نوجوان ناول نگار کے نام خطوط” بھی پیش نظر تھے۔ محبوبوں، شاعروں، فکشن نگاروں (یہ دونوں بھی محبوب سے کم نہیں) کو تو بہت خطوط لکھے گئے، سوچا کیوں نہ راندہ درگاہ سمجھے جانے والے نقاد کو بھی خط لکھے جائیں۔”

ان خطوط کا موضوع، تنقید کا کردار ہے اور ان خطوط کا مقصد تنقید کے اس کردار کو نئے نقادوں کے لیے واضح کرنا ہے۔
پہلے خط کے ابتدائی اقتباسات ملاحظہ فرمائیں اور ایک نئی دنیا کی سیر کریں۔
پہلا خط
عزیز مکرم!
“میں عمر میں، تم سے بڑا ضرور ہوں؛ میرا علم بھی تم سے زیادہ ہو، یہ ہرگز ضروری نہیں۔ علم  کے ماخذ کی   دو اہم چیزیں  ہیں: کتاب سے کلام اور خود سے کلام۔
اسے تم دو طرح کا تفکر کرنا بھی کہہ سکتے ہو۔ دوسروں کے ساتھ مل کر تفکر کرنا اور تنہائی میں تفکر کرنا۔ کچھ 20 سال کی عمر میں، 50 برس کی عمر والوں سے زیادہ، یہ دونوں طرح کا تفکر کر لیتے ہیں اور کچھ 60، 70، 80 سال کے ایسے بزرگ بھی ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی عمر عزیز کو اور کاموں میں مشغول رکھا ہوتا ہے؛ شہرت کمائی ہوتی ہے، سینکڑوں کتابیں بھی پڑھی ہوتی ہیں لیکن کتاب کی ہمراہی اور اپنی ہمراہی میں گہرے تفکر کی زحمت نہیں اٹھائی ہوتی۔ اس لیے عمروں سے کسی کے علم اور بصیرت کا اندازہ نہیں لگانا چاہیے۔”

آگے دیکھیے! نئے او نوجوان نقاد کی کس خوبصورت انداز میں حوصلہ افزائی اور دلجوئی کر رہے ہیں ۔
“یہ پہلا خط میں تمہارے علم میں کوئی نئی بات لانے کے لیے نہیں، تمہاری دلجوئی کے لیے لکھ رہا ہوں۔ شاعروں، افسانہ نگاروں کی دل جوئی کرنے والے بہت ہیں، نقادوں کے لیے تحسین کے دو حرف بھی کوئی مشکل سے کہتا ہے اوروں سے کیا گِلہ۔ خود ہمارے ثقہ نقاد تنقید کی مذمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ان کی زبان یہ کہتے نہیں تھکتی کہ تنقید دوسرے درجے کی سرگرمی ہے اور تنقید، تخلیق کے مقابلے میں کمتر ہے۔ میں محسوس کر سکتا ہوں کہ یہ باتیں نئے نقادوں کے لیے بہت دل شکن ہیں۔ کون پسند کرے گا کہ دوسرے درجے کی سرگرمی کے لیے اپنی بہترین قوتیں صَرف کرے، جبکہ اس کے پاس وقت وسائل اور توانائی محدود ہو۔ لیکن تم ان باتوں سے گھبراؤ نہیں۔ آخر یہ ہم جیسے انسانوں ہی نے کہی ہیں۔ تم ان کے اسباب پر سوچو اور لکھو۔”

نئے اور نوجوان نقاد کو اہم مشوروں سے نوازنا، اصول و ضوابط سکھانا اور نئی دنیا کی حقیقتوں سے واقف کرانے کا خوبصورت اور منفرد مثال ملاحظہ فرمائیں:
“نقاد بننے کا فیصلہ کر کے تم نے کچھ ذمہ داریاں اپنے لیے لازم کر لی ہیں: سوچنا، سوال اٹھانا، متن سے کلام کرنا، متن کے دوسرے متون سے جاری کلام کو سننا اور پھر جرات سے لکھنا، مگر شائستگی اور دلیل کا دامن ایک پل کے لیے ہاتھ سے نہ جانے دینا۔ تم ان نقادوں کی طرف پُر شوق نگاہوں سے مت دیکھنا جن کے پاس دلیل ہے، لیکن شائستگی نہیں اور اگر شائستگی ہے تو دلیل نہیں۔
جو نقاد کسی سابق ادیب یا ہم عصر کی ذلت میں خوشی اور فخر محسوس کرے خواہ اس کے بیان میں کتنی ہی کاٹ ہو، اور اس نے دلائل گھڑنے کی کتنی ہی کوشش کی ہو، اسے دور سے سلام کرنا۔ دوسروں کی ذلت کی خواہش، جواز اور دلیل گھڑ لیتی ہے، اسے پہچاننے میں دیر اور غلطی نہ کرنا۔”

ناصر عباس نیر بنیادی طور پر نثر نگار ہیں۔ وہ تنقید کے ساتھ ساتھ بہت اچھے انشائیہ نگار اور افسانہ نگار کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ ناصر عباس نیر صاحب کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ انہوں نے تھیوریز اور ان کے جملہ مسائل پر بہت زیادہ لکھا۔ ہم جیسے نو آموز طلباء کو یہ تھیوریز سمجھنا اور استعمال کرنا جہاں مشکل لگتا ہے وہاں اپنے مطالعے کی کم مائیگی کا بے پناہ احساس بھی ہوتا ہے۔ اور ہمیشہ یہی خیال آتا ہے کہ انھیں پڑھنے اور سمجھنے کے لیے بلند سطح کا علم   ہونا ضروری ہے۔ لیکن “نئے نقاد کے نام خطوط” میں ایسا سادہ اور سلیس اسلوب نظر آتا ہے جسے کوئی بھی ادب کا  مبتدی یا طالب علم بآسانی پڑھ سکتا ہے، سمجھ سکتا ہے اور اس سے سبق بھی حاصل کر سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“نئے نقاد کے نام خطوط” اگرچہ ایک مہنگی کتاب ہے، مہنگائی کے طوفان بلاخیز میں ایسی کتاب خریدنا وہ بھی تنقید جیسے خشک موضوع پر، بلاشبہ ادبی جہاد سے کم نہیں۔ مگر اس کتاب کی چند نمایاں خوبیاں بیان کرتا چلوں کہ اس میں ہر خط سے پہلے تخلیقی ادب کے منتخب اقتباسات شامل کر کے قاری کی دلچسپی اور آسانی بڑھ جاتی ہے۔ بعض مقامات پر آرٹ کے نمونے اور مصورانہ خاکے بھی خطوط کی عکاسی کے لیے موجود ہیں۔ جو اس کتاب کی انفرادیت اور دلکشی میں اضافے کا باعث ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply