• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/ایران عراق جنگ نے دنیا کو تماشا دکھا یا-دو ابھرتے ہوئے مسلمان ملک تباہ ہوئے(قسط23)۔۔۔سلمیٰ اعوان

سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/ایران عراق جنگ نے دنیا کو تماشا دکھا یا-دو ابھرتے ہوئے مسلمان ملک تباہ ہوئے(قسط23)۔۔۔سلمیٰ اعوان

جی تو چاہا تھاپُوچھوں اور پھر پُوچھ بھی لیا۔
”میاں ہم تو ابھی اِسی راستہ سے گزرے تھے۔کوئی زیادہ دیر کی بات تھوڑی ہے۔ یہی کوئی گھنٹہ بھر ہوا ہوگا۔بے شک چیزوں اور منظروں کا کھلارا بے حدو حساب سا تھامگر بات تو ابھی کی تھی۔
وہی کرخ میٹرنٹی ہوسپٹل،وہی گرین زون کے پاس بغداد کنٹری کلب۔وہی رنگا رنگ لوگوں سے بھرا پُراحلب سکوائر۔ہاں اتنا ضرور تھا پہلے حلب سکوائر سے سیدھے جس سڑک پر چڑھے تھے وہ جمہوریہ پُل سے التحریر سکوائر میں داخل ہوئی تھی۔
سچی بات ہے میں نے تو افلاق سے وہیں کہیں کھانے کا کہا تھا۔بھوک سے تو گویا جیسے جان نکلی جارہی تھی۔رات اتنی تھکاوٹ تھی کہ رُک کر ہوٹل سے دو قدم پر ے سے تربوز لانا بھی مشکل لگا۔صبح دیر تک پڑی سوتی رہی۔کہیں نو بجے ناشتہ کیا۔چائے خود بنائی۔مکھن فرج میں لاکر رکھا ہوا تھا۔کچن سے ایک سلائس مل گیاتھا۔
دس بجے گاڑی میں بیٹھی۔افلاق کو کچھ اپنے کام کرنے تھے۔دراصل باہر جانے کے چکر میں تھا۔دو تین بار جب انہی راستوں کی دہرائی ہوئی تو جی میں یہی کچھ آیا تھا جس کا پہلے اظہار ہوا ہے۔ کتنی ہی دوکانیں نظر سے گزری تھیں جہاں کچھ بھی کھے سواہ کھا کر پیٹ کے اس دوزخ کو ٹھنڈا کیا جا سکتا تھا۔ پر وہ التحریر جانا چاہتا تھا۔اُس نے گاڑی کی رفتار بڑھائی اور ونڈ سکرین سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔
”بس پانچ منٹ میں سڑک کسی نازنین کی مانگ کیطرح سیدھی التحریر کے دامن میں جااُترے گی۔وہاں کھانا اچھا ہوگااور ماحول بھی۔“
اب میرے لئے صبر کے سوا کیا چارہ تھا۔
افلاق بہت سمجھ دار لڑکا تھا۔کِسی بھی بڑے ریسٹورنٹ میں گھُس کر ون سوّنے کھانے منگواتا۔ہزاروں عراقی دینار کا بل بنوا لیا کرتا تو میں نے کیا کر لینا تھا۔میں تو کُلّی طور پر اُس کے رحم و کرم پر تھی۔ ان دنوں تو یو ں بھی پُل صراط پر چلتی تھی۔یہاں بم پھٹ رہے ہیں۔ وہاں پھٹ رہے ہیں۔اتنے لوگ مارے گئے۔اتنے زخمی ہوئے۔وہ میرے آرام کا بھی کسقدر خیال رکھتا تھا یہ بھی میں جان گئی تھی کہ ٹیکسی والے اے سی نہیں چلاتے تھے۔کھُلے شیشوں سے فراٹے بھرتی دوزخ جیسی ہوائیں سیدھی چہروں سے ٹکراتی تھیں جب کہ میرے اندر بیٹھتے ہی اے سی آن ہو جاتا تھا۔
فلافل کے بارے میں پُوچھا تھا کہ کھا کھا کر من تو نہیں بھر گیاہے۔
”ارے نہیں بہت پسند ہیں مجھے۔“میرا جواب سُن کر وہ صاف سُتھرے سفید ریپرز میں لپیٹے وہی لے آیا تھا۔کولا کے ٹن پیک ساتھ تھے۔
باہر شیڈ نیچے بچھی کرسُیوں پر بیٹھ کر اِسے کھایا گیا۔قاہرہ میں ہمارا پسندیدہ کھانایہی فلافل ہی ہوتا تھا۔ہم دیکھتے وہ ہمارے سامنے کڑاھیوں میں تلتے، پھر چپے جتنی روٹی میں سلاد کے ساتھ دھر کر ہاتھ میں تھما دیتے۔ایک سے تو ہماراحلق تالو بھی نہ گیلا ہوتا۔یہاں ہاتھ بھر چھوڑ بازو بھر لمبی روٹی تھی جو ختم ہونے میں نہ آتی تھی۔
”التحریر کی کِسی بھی مسجد میں چند لمحوں کی ٹیکی کیا ضرورت محسوس کرتی ہیں؟“
”افلاق ابھی تو میں نے کچھ نہیں دیکھا ایک طرح تازہ دم ہی ہوں۔“
”نہیں۔مجھے آپ کو اب جو چیزیں دکھانی ہیں وہ کُھلی فضاؤں میں ہیں۔شام ضروری ہے۔“
”نہیں افلاق؟یہاں اتنا کچھ ہے اور وقت محدود۔مجھے لگتا ہے کاروان ایک دو دن میں کربلا روانہ ہونے والا ہے۔میری تو اتنی چیزیں ابھی رہتی ہیں۔“
”اُس کی آپ کو چنتا کرنے کی ضرورت نہیں وہ میرا مسئلہ ہے۔“افلاق نے تو حتمی فیصلہ کردیا تھا۔میں نے بھی بحث کرنی مناسب نہیں سمجھی۔
مسجد میں آرام کیلئے گئی تو پتہ نہیں کن ریگستانوں میں کھو گئی کہ جب جاگی تو معلوم ہوا تین گھنٹے سوئی ہوں۔افلاق باہر بیٹھا تھا۔
”میں آپکوایران عراق جنگ کیmonuments اورنامعلوم سپاہی کی یادگار پر لے جا رہا ہوں۔“ بڑا دھیما سا لہجہ تھا۔
”نامعلوم سپاہی کی یادگار۔میں نے زیرِلب کہا۔وطن کے نا معلوم سپاہی ہمیشہ فرنٹ پر لڑتے ہیں۔بے چارے ہمیشہ گمنام رہتے ہیں اور صرف نامعلوم سپاہی کی یاد میں کا تمغہ پاتے ہیں۔“
لمبی سانس کھینچ کر میں نے افلاق کو دیکھا اور کِسی قدر طنزیہ لہجے میں پوچھا تھا۔
”عراق سمجھتا ہے وہ فاتح تھا۔“
”دونوں احمق یہی سمجھتے ہیں۔“اُس کا جواب سنجیدگی سے بھرا ہوا تھا۔
”پریڈ گراؤنڈ۔“
اشارہ داہیں طرف ایک وسیع و عریض قطعہ زمین کی طرف ہوا تھا۔کچھ مزید معلومات بھی اِس نوعیت کی تھیں۔ہمارے دیگر مختلف تہوار بھی یہیں منائے جاتے ہیں۔
”صدام کا کروّفر اور طمطراق دیکھنے کے قابل ہوتا تھا جب وہ یہاں آتا تھا۔“
”سارا رولا اور سیاپا اِسی کروّفر کا ہی تو ہے۔یہی چین نہیں لینے دیتا۔“نیم جیسی کڑواہٹ تھی لہجے میں۔
”اکثر قومی دِنوں پر وہ یہاں قوم سے خطاب کرتا تھا۔اُس کا شاندار محل بھی یہاں سے تھوڑی دور ہے۔“
گاڑی اسفالٹ کی وسیع و عریض سڑک پر جس کے اطراف میں اُگی جھاڑیاں اور سبزہ اِس گرم ترین شام کو قدرے بہتر ہونے کا تاثر دے رہا تھا۔ہمThe Hands of victory monumentکے نیچے سے گزر رہے تھے۔پہلی یادگار دیوہیکل سی تلواریں قوسی صورت میں اُوپر اُٹھتے اور ایک دوسرے سے ملتے ہوئے کراس بناتی تھیں۔فلڈ لائٹس سڑک کی شان میں اضافہ کررہی تھیں۔دوسری یادگار کے نیچے سے گزرتے ہوئے رُک گئے۔ان کا ایک نامThe Swords of Qadisiyahبھی ہے۔ہوا تیز تھی۔شام کی دھوپ چمکدار بھی تھی اور گرم بھی۔
یہ یادگاریں اپنی اصلی صورت کے ساتھ میرے سامنے نہیں تھیں۔افلاق نے مجھے اِن کی پرانی تصوریریں دِکھائی تھیں۔1986ء میں ایران عراق جنگ کے خاتمے سے قبل ہی ان کی ڈیزائنگ اور جرمن کمپنی سے ان کے بنانے کی بات چیت شروع ہوگئی تھی۔صدام نے خود ہی فتح کو عراق سے منسوب کرلیا تھا۔اس کی ڈیزائنگ میں بنیادی تصور بھی اُسی کی دماغی اختراع تھا۔عراق کے صف اول کے مجسمہ ساز عادل کمال نے صدام کے تخیّلی خاکے کوحقیقت کا روپ دیا تھا۔اس کی وفات کے بعد یہ کام محمد غنی حکمت نے کِیا۔
میں جو کچھ دیکھ رہی تھی وہاں ہاتھوں کی صورت بگڑی پڑی تھی۔ہزاروں ہلمٹ لڑھکے ہوئے اورجال ٹوٹے پڑے تھے جن میں یہ مقید تھے۔
میں پتھر جیسا کلیجہ لئیے افلاق کو سُنتی تھی۔
یہ ہزاروں لاکھوں ہلمٹ استعارے تھے یا حقیقی؟میں نہیں جانتی تھی۔افلاق انہیں اصلی کہتا تھا۔یہ اُن لاکھوں نوخیز ایرانی لڑکوں کے تھے جنہیں فوری بھرتی کرکے محاذ پر بھیج دیا گیا تھا اور جو اس فضول جنگ کا ایندھن بن گئے تھے۔
ماں تھی نا میں۔پُھول کی پتیوں جیسی شکل کی اِس Basement میں پڑے یہ ہلمٹ مجھے اُن کی سُرخ و سفید صورتیں اور اُن کی نامراد جوانیاں یاد دلارہے تھے اور میری آنکھیں بھربھرآتی تھیں۔اگر یہ علامتی طور پر بنائے گئے تو کتنی سفاکی کا مظاہرہ تھا۔اقتدار کتنا بے رحم ہوتا ہے؟انسان کوگوشت پوست کا تو رہنے ہی نہیں دیتا۔
دونوں جانب تلواروں کو تھامے آہنی ہاتھ جنہوں نے دستوں کو شکنجے کی طرح جکڑا ہوا تھا۔ان ہاتھوں کی نظر آتی فولادی انگلیاں جو دراصل صدام کے ہاتھ اور انگلیوں کا عکس تھے بنائے گئے تھے اور جنہیں میں نے تصویروں میں دیکھا تھا۔
ان ہاتھوں کی تو مٹی پلید ہوگئی جب نئی عراقی حکومت نے ایک کمیٹی بنائی۔حُکم دیا اُسے کہ صدام کے دور کی ہر یادگار کو ختم کردو۔ہتھوڑے چلے اور شاندار کامیابی بڑے بڑے ٹکڑوں کی صورت میں زمین بوس ہوئی۔ لوگ انہیں اُٹھانے اور بیچنے کیلئے پاگلوں کی طرح بھاگے۔
ابھی توڑپھوڑ جاری تھی جب اپوزیشن اور Preservationistکی طرف سے بلند و بالا احتجاج ہوا۔وہ زور دار آوازوں میں چِلّاتے تھے۔
”بند کرو یہ توڑ پھوڑ۔یہ تاریخ ہے۔اچھی ہے،بُری ہے،جو بھی ہے اِسے رہنے دو۔“
وزیراعظم نورالمالکی کو ایک بڑی دھمکی امریکی سفیر زلمے خلیل زاد سے ملی جس کی سخت زبان نے سارے ہتھوڑے اور چھینیاں زمین پر رکھوادیں۔
پر عراقی گورنمنٹ خیر سے ابھی اُدھار کھائے بیٹھی ہے۔حکومت میں شیعہ عناصر زیادہ ہیں۔جب بس چلا وار ہوگا۔اگر سُنی عناصر اقتدار میں آگئے تو پھر اس کی مرمت ہوجائے گی۔
واہ اقتدار کے بھی کیا کیا اور کیسے کیسے المیے ہیں؟
یادگار کا جس دن افتتاح ہورہا تھا۔صدام سفید براق گھوڑے پر سوار یہاں آیا تھا۔افلاق کا کہنا تھا کہ اُسنے خود کو نعوذ بااللہ حضرت امام حسین ؑکے روپ میں پیش کِیا تھا۔
”احمق کہیں کا۔“
میوزیم بھی ساتھ ہی ہے۔اُسے تو میں نے بس باہر سے ہی دیکھا اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔
اب ایران عراق فتح کی اور یادگاریں تھیں۔
زوارہ پارک کے ہمسائے میں یہ یادگاریں ایک پیچیدہ علامتی طرزِ تعمیر کی عکاسی کرتی تھیں۔داخلے کا مرحلہ عراقی سپاہیوں کی اجازت سے سر ہوا تھا۔گیٹ پر تین فوجی کھڑے تھے۔
اندر دفتر کے آگے مزید تین سنگینوں کے ساتھ چوکس بیٹھے تھے۔چار پانچ ٹہلتے پھر رہے تھے۔عراقی بھی بہتیرے گورے چٹے ہیں اور امریکیوں میں بھی کئی کالے کٹے ہیں۔
اب یہاں والے خالص ہیں یا آمیزہ ہیں۔افلاق بتاتا تھا کہ یہ چھوٹی موٹی ڈیوٹیاں انہوں نے سقوط بغداد کے ابتدائی دنوں میں خود دی تھیں کہ لوگ خوف سے شہر چھوڑ گئے تھے۔اب تو وہ ہیڈکوارٹر میں بیٹھے ہیں۔یہ اُنکے چیلے چانٹے”یَس یَس سر“کہتے ہیں اور سلطنت چلاتے ہیں۔چھوٹے موٹے معاملات یہ خود نپٹاتے ہیں بڑے اور اہم وہ۔یہ سب تو خیر عراقی ہیں۔
سپاہیوں کو ایک پاکستانی خاتون کا پتہ چلا تھا۔بڑی محبت کا اظہار کِیاتھا۔بڑی احترام بھری نظروں سے دیکھا تھا۔باتیں بھی کچھ کی تھیں۔افلاق نے ترجمہ کِیا کہ شکریہ ادا کررہے ہیں اور آپ سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔
خوبصورت وسیع و عریض پارک میں تھوڑی دیر کیلئے اِس ماحول کا حُسن حیرت زدہ کرتا تھا۔نامعلوم سپاہی کا مقبرہ۔شہدا کی یادگار۔ نامعلوم سپاہی کی یادگار اور مختلف شخصیات کے مجسموں اور پارکوں سے شہر کی اہم جگہیں صدام حسین نے جیسے سجائی تھیں واقعتا وہ لاجواب تھیں۔میں تو کُنگ سی کھڑی اِسے دیکھتی تھی۔میرے لئیے اس کی تفصیلات لکھنا قطعی آسان نہ تھیں۔اُسکا اوپری حصّہ تو مجھے اُڑن طشتری جیسا لگا تھاجو اچانک کہیں فضاؤں میں اُڑتی پھرتی یکا یک گِر کر یہاں رُک گئی ہے۔
کہا گیا ہے کہ یہ یادگار ایک روایتی درا ”(Diraa)“شیلڈ کی نمائندہ ہے جو میدان جنگ میں مرتے ہوئے عراقی جنگجو سپاہی کے ہاتھوں سے گر گئی ہو۔
ایک مصنوعی پہاڑی کون کی صورت جو قدرے ڈھلانی مضبوط بیموں پر بیضوی شکل میں ماربل سے ڈھنپی اور سُرخ گرینائٹ پوڈوں سے سجی بیضوی پلیٹ فارموں سے اُوپر جاتی ہے۔سچی بات ہے کہ میں دُور دُور تک بکھرے گھاس کے قطعوں، اُن میں اُگے بوٹوں،بل کھاتے راستوں،سُورج کی روشنی میں چمکتے تانبے کی چھت اور سٹیل کے فلیگ
پول جو قومی جھنڈے کے رنگوں کو نمایاں کرتے تھے کے پس منظر میں بلند و بالا عمارتوں کو دیکھتی تھی اور خود سے کہتی تھی۔
اِس کی ساخت سے متعلق کوئی بھی تفصیل میرے لئیے لکھنی بڑی مشکل ہے۔
اس کا نصف حصّہ اپنے ڈیزائن کے اعتبار سے کسی حسینہ کے گلے میں پہنے نیکلس جیسا لگتا تھا۔پھر یہ کہہ سکتی ہوں کسی ٹیلر ماسٹر کا کسی خاتون کی قمیض کے گلے کا انتہائی دیدہ ریزی سے بنائے گئے ڈیزائن کا نمونہ نظر آتا ہے۔بھئی عورت ہوں نا تو ایسی ہی مثالیں اور تشبیہیں ذہن میں آئیں گی۔
رہی اس کی اتنی پیچیدگیاں جو وہ فوجی ہمیں بتاتا تھا کوئی یاد رکھنے والی تھوڑی تھیں۔نیچے میوزیم بھی تھا اور روشنی اوپر سے نیچے جاتی تھی۔
غیر ملکی وفود یہاں پھولوں کی چادر چڑھانے آتے ہیں۔کیوبا کا فیڈل کا سترو بھی یہاں آیا تھا۔مجھے ہنسی آ گئی تھی۔
فیڈل کا سترو بھی ایک شے۔ پہلے صدام کی لن ترانیاں سُنی ہوں گی۔ بلند بانگ دعوے اور گپیں کہ وہ تو امریکہ کو جُوتی کی نوک پر رکھتا ہے۔جو کاغذ اُسے بھیجتے ہیں وہ تو پڑھے بغیر ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیتا ہے۔ پر کاہ برابر اہمیت نہیں دیتا۔ٹشو پیپر سے زیادہ کی حیثیت نہیں ہے میری نظر میں اُن کی۔بڑی بڑھکیں ماری ہوں گی کہ وہ ایسے ہی مارتا تھا۔
”ہائے“میں نے لمبی سانس کھینچی۔ تدّبر اور سیاسی فراست سے خالی کھوپڑی۔ کاش تھوڑی سی عقل کرلیتا۔اُس وفد کی ہی بات مان لیتا جوفیڈل کاسترو نے 1990میں اُسے یہ سمجھانے بھیجا تھا کہ وہ کویت سے اپنی فوجیں واپس بُلالے۔اپنی تباہی کو آواز نہ دے۔امریکہ جیسے ہاتھی کا مقابلہ کرنا آسان نہیں۔ ہائے بے چارہ ٹشو پیپر ہی کی طرح مَسل دیا گیا۔
جی چاہا تھا آہوں کا ڈھیر لگا دوں۔
ہواؤں کے زور سے لہراتے پھڑپھڑاتے عراقی جھنڈے کو دیکھتے اس کی آزادی و خوشحالی کیلئے دعائیں مانگتی باہر آگئی تھی۔
گاڑی میں بیٹھی تو یہ جانی تھی کہ اب افلاق مجھے ” یادگار شہداء”لے جا رہا ہے۔یعنی عراق ایران ڈرامے کا ایک اور ایپی سوڈ۔اب کیا کہتی جنّا تیری مرضی نچا بیلیا۔سچی بات ہے تیل کے قیمتی ذخائر سے حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک بڑا حصّہ اِن بے کار شوبازیوں پر خرچ ہوا۔چلو پارکوں کی ضرورت تھی وہ بنے۔تاریخ کی نامور شخصیات سے وہ سجے۔ اچھی بات۔مگر یہاں خود نمائیوں اور شجاعتوں کے جو اظہار تھے وہ خیر سے ملت اسلامیہ کی قیادت کے مفلس ذہن کے عکاس تھے۔
گاڑی کی رفتار بہت تیز تھی۔عام پبلک کیلئے یہ صرف دو دن کھُلتا ہے۔معلوم ہوا تھا۔
یہ بھی وہیں پاس ہی تھی۔ جمہوریہ پُل سے کوئی دو میل پر مشرقی جانب یہاں بھی فوجیوں کے پہرے تھے۔گیٹ پر بھی اور اندربھی۔
گیٹ سے اندر دا خل ہوئی تو بڑا دل خوش کُن منظر تھا۔اُس سے کہیں زیادہ خوبصورت اور حسین جو ابھی دیکھتی ہوئی آئی تھی۔قطعوں اور ٹکڑیوں میں بٹا۔داہیں باہیں بل کھاتی پ ختہ روشوں میں پھنسا، گھاس پھُولوں اور پودوں سے سجا،اُونچے اُونچے درختوں میں گھرا۔ریگستانی زمین کو فردوس جیسا بنا چھوڑا تھا۔عورتوں، بچوں اور مردوں کے دم قدم سے آباد۔
یادگار تو مجھے جھیل میں کھِلے کنول کے خوبصورت پھول جیسی لگی تھی۔یہ عظیم یادگار اتا ترک کے نام پر مصنوعی جھیل کے عین درمیان ایک بڑے گنبد کی صورت میں جو درمیان میں لمبائی کے رُخ سے دو حصّوں میں منقسم ہے ہنستی کھیلتی نظر آئی تھی۔اِسے میں پھول کی پنکھڑی بھی کہہ دوں۔یہ دل جیسا بھی ہے۔یہ انڈے کے بیرونی خول کے دو ٹکڑوں کی طرح بھی نظر آتا ہے۔ انہی دو ٹکڑوں کے درمیان نہ بُجھنے والا شعلہ جلتا ہے۔
اور تروتازہ سبز گھاس کے میدان جن کے درمیان پُختہ راستے پر چلتے ہوئے میں
نے اِس فنکار نمونے کو گہری دلچسپی سے دیکھا تھا اور افلاق کی اِس بات کو سو فیصد سچ جانا تھا کہ جب شہرہ آفاق مجسّمہ ساز کینتھ آرمیٹیج(Kenneth Armitage)1986میں اِسے دیکھنے آیا تو اُس نے بے اختیار اس کے آرٹسٹ سمر الخلیل کو سینے سے لگا لیا۔
یقیناََ لگایا ہوگا۔اُسے لگانا بھی چاہئیے تھا۔بڑا فنکار دُنیا کے کِسی بھی خطّے میں ہو سکتا ہے۔پس ماندہ مُلکوں میں بھی کہ ذہانت اورفن پر کِسی کی اجارہ داری نہیں۔
خوبصورت بچے روشوں پر بھاگتے پھر رہے تھے۔ غم امروز اور فکر فردا سے
بے نیاز۔لکڑی کے خوبصورت پُلوں سے چھلانگیں مار رہے ہیں۔ان کے والدین باتیں کرتے،کہیں چہل قدمی کرتے اور کہیں بیٹھے نظر آتے۔
افلاق کچھ لوگوں کے پاس کھڑا تھا۔شاید وہ انہیں جانتا تھا۔میں سلیب پر بیٹھی اردگرد دیکھتی تھی۔پھر میں نے اُسے ایک جوڑے کے ساتھ اپنی طرف آتے دیکھا۔ہم سب متعارف ہوئے۔ماڈرن سی خاتون جومستنصر بازار میں گارمنٹس کا کاروبار کرتی تھی۔شوہر بزنس مین تھا۔تین پیارے پیارے بچے۔سچے اور کھرے لوگ۔خاتون صاحبِ نظر تھی۔صدام کی تعلیمی پالیسیوں کی مدّاح۔پورے مُلک میں کے جی سے یونیورسٹی لیول تک تعلیم فری۔نصاب ایک۔اُس کے قائم کردہ سٹڈی سرکل جہاں ہرپڑھی لکھی خاتون کوعورتوں کو پڑھانے کیلئے جانا لازمی ہوتا۔کہہ لیجئیے تعلیم بالغاں سینٹر۔اُس نے ہر عراقی کو پڑھا لکھا بنایا۔یہ کریڈٹ اُسے دینا پڑے گا۔صحت کو اُس نے بڑی اہمیت دی۔پورے عراق میں تقریباََ دو سو پچاس فلٹریشن پلانٹ لگائے۔صنعتیں اُس کی ترجیح تھیں۔ وہ اوّل و آخر ایک عراقی تھا۔ظالم و جابر تھا۔مُلک میں امن امان تھا۔آزادی رائے پر پابندی تھی مگر لوگوں کی بہتری اور ان کی خوشحالی کا خواہاں تھا۔
”عیاش نہیں تھا۔“شوہر نے ٹکڑا لگایا۔
”ہاں البتہ احمق ضرور تھا۔“افلاق بولے بِنا نہ رہ سکا۔
باتیں شروع ہوئیں تو جیسے پردے چاک ہونے لگے۔ایران عراق جنگ پر اُس نے لمبی سانس بھری تھی مگر فریقین کو لعن طعن کی بجائے اس کے پاس نئی نسل کا دُکھ تھا کہ اُس کے دو بھانجے بھی اِس آگ کا ایندھن بنے تھے۔
”آپ سوچ بھی نہیں سکتی ہیں کہ دونوں اطراف کی نوخیز اور نوجوان نسل کیسے خزاں رسیدہ پتوں کی طرح فناکی دھول میں گُم ہوئی۔“
اُس کا شوہر ابوبکر محمد الزکریا مجھے کم گو معلوم ہوتا تھاکہ اب تک کی گفتگو میں دوسری بار شامل ہوا تھا۔
”اندازاََ کوئی پونے تین لاکھ ایرانی ڈھائی لاکھ عراقی اِس بے کار جنگ میں ختم ہوئے۔کوئی اسی ۰۸ ہزار تعداد زخمیوں اور دس لاکھ کے قریب متاثرین تھے۔باقی نقصان بھی بے شمار تھا۔ دُنیا نے تماشا دیکھا۔اور اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کیا اور خوش ہوئے کہ دو مسلمان مُلک جو بڑھتی ہوئی طاقت تھے کمزور ہوئے۔کاش صدام سمجھدار ہوتا۔کاش امام خمینی بصیرت سے کام لیتے اور دونوں مُلک تباہ ہونے سے بچ جاتے۔“
پھر انہوں نے اجازت چاہی۔دونوں میاں بیوی نے اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔وہ ال اُمل(ul’ummal) کے علاقے میں شارع خالد بن ولید پر رہتے تھے۔موبائل کا سیل نمبر انہوں نے میری کاپی پر لکھا اور گھر آنے کی پُر زور تاکید کی۔
چلو میں بھی چاہتی تھی گوافلاق کے ہوتے ہوئے یہ چِنتا تو نہ تھی مگر یہ خاتون حالات حاضرہ سے واقف اور بالغ نظر لگی تھی۔
لائبریری ضرور گئی۔پر میں نے کِسی بھی چیز کو شوق و رغبت سے نہیں دیکھا۔
یہاں اخبارات،کتابوں اور ویڈیو فلموں کی صورت پورا ریکارڈ موجود تھا۔نگران کِسی کام میں غالباََ مصروف تھا۔پاکستان کا جان کر خوش ہوا۔چہرے پر مسکراہٹ بکھیری۔اور اس سوال کے جواب میں کہ کیسا محسوس کرتے ہیں جب آپ غلام بن جائیں تو۔
اُس نے بتیسی نکالی،خوش دلی سے ہنسا اور کہا۔
”لوکیا پہلے نہیں تھے۔اپنے کے تھے۔ اُسے ہماری زبان کھولنی پسند نہ تھی۔اب دوسرے کے ہیں تو انکے منہ پر جُوتے بھی مارتے ہیں۔“
مجھے ہنسی آگئی تھی۔ بش اورمنتدرُل زیدی دونوں آنکھوں کے سامنے تھے۔
لائبریری میں میں اور افلاق ہی تھے۔ملحقہ لیکچر روم تھا۔ایک آڈیٹوریم بھی ہے یہاں۔
اورپھر میں آڈیٹوریم میں بیٹھی اُسے سنتی تھی جو ادارے کا منتظم اعلی تھا۔ سلیمانیہ کا کُرد عبدلکریم احمد بڑے گہرے اور پھیلے ہوئے وژن کا مالک۔ میں نے امریکہ کے کردار کے بارے میں جاننا چاہا تھااوروہ بولا تھا۔
”دراصل بنیادی خرابی یہیں تھی۔امریکہ سے انقلاب ایران ہضم نہیں ہو رہاتھا۔ وہ اپنے اُس پُٹھو شا ہ ایران کی دوبارہ بحالی کیلئے سرگرم تھا۔صدام حسین بھی اس جیسی خواہشات رکھنے والا اُسکا پیٹی بھائی بند تھا۔اسی لئیے امریکہ کوصدام کے علاوہ کوئی اور موزوں بندہ نظرنہیں آتا تھا۔
امام خمینی بھی اُس سیاسی بصیرت سے محروم تھے جو اُن جیسے انقلابی کیلئے ضروری
تھی۔انہیں عراق کی شیعہ آبادی پر کیے جانے والے جبر اور پابندیوں پر غُصہ تھا۔عراقی حکومت ان کے نزدیک شیطانی تھی اور وہ اپنی پوری توانائیوں سے نعرہ بازی میں مصروف تھے۔اور اس اہم نُقطے کو انہوں نے قابل توجہ نہیں سمجھاتھاکہ تب عراق کی شیعہ آبادی کی اکثریت مسلک سے کہیں زیادہ اپنے عراقی تعلق کی وفادار ہے۔اُن کیلئے اپنا مُلک،قبیلہ اور تاریخ کہیں زیادہ اہم ہے۔
فوج میں 1920سے 1958تک شیعہ عنصر نہ ہونے کے برابر تھامگر آزادی کے فوراََ بعد اسمیں بہت اضافہ ہوا۔اب ذرابڑی طاقتوں کے مفادات کو تو دیکھیں۔
امریکہ اور برطانیہ کی سپورٹ عراق کے لئے۔اسرائیل عراق کی بڑھتی طاقت سے خائف، ایران کا مددگار اور حامی۔خیر سے برّی اور فضائی جنگ میں ٹینکوں اور طیاروں کے پُرزوں کی تیز ترین فراہمی اسرائیل کے توسط سے انجام پا رہی تھی۔ جنگ طول پکڑ رہی تھی اور لاشوں کے ڈھیر لگ رہے تھے۔
صدام کو اپنی حماقتوں کا تو شاید احساس نہ ہوا ہوپر اپنا مستقبل ضرور داؤ پر لگتا نظر آیا تھا۔جھُکنے میں عافیت جانی اور یک طرفہ جنگ بندی کی ذاتی پیش کش کر دی۔
قوموں کی تاریخ میں المیے شاید جنم نہ لیں اگر کہیں فہم و فراست اور تدبرکے دئیے کوئی ایک طرف ہی جلا دے۔
اب امام خمینی نہیں مانے۔۵۷۹۱ والی بین الاقوامی سرحد کو مستقل تسلیم کرنے اور امام خمینی سے انکی پسند کے کِسی مقام پر ملنے کاصدام کی طرف سے اظہار ہوا۔ مگر وہاں ٹھوس انکار تھا۔
آٹھ سال خون مسلم کی ارزانی۔اسلحہ کے بیوپاریوں کی موجیں۔جنگ کا اختتام جب ہوا۔نتیجہ یہ تھا کہ اِس لاحاصل جنگ کا کوئی فاتح نہیں تھا۔دونوں کے حصّوں میں تباہی بربادی اور کمزوری آئی تھی۔
یہ یادگار شہدا جسے دیکھ کر دل دُکھا تھا۔اس کے بنانے کی کوئی ضرورت تھی۔ایسی ہی حماقت کا اظہار ایران نے بھی کیا ہوگا۔
میں نے افلاق سے پوچھا تھا۔
تہران میں مَیں نے ”خون کا فوارہ“دیکھا ہے۔وہ اس دعوٰے کے ساتھ ہے کہ
انہوں نے عراق کا کچومر نکال دیاہے۔
میں نے باہر آکر کھُلے آسمان کو دیکھا تھا۔
پتے ہواؤں کے زور سے لہراتے اور گرتے تھے۔راستے کشادہ اور خوبصورت تھے۔ایک طرف جھیل کا پانی سورج کی کرنوں سے چمکتا اور ہواؤں کے زور سے تھرتھراتا نظر آتا تھا۔
پھر جانے میں چلتے چلتے کیوں بیسمنٹ(Basement)میں اُتر گئی۔ جہاں گرینائٹ کے پتھروں پر وہ نام تھے جو اس جنگ کا ایندھن بنے۔ میں تو اپنا پلّو اسی سوچ سے چھڑا نہیں پارہی تھی اور بے اختیار سوچے چلی جا رہی تھی کہ اُنہوں نے کِن کو پچھاڑا؟کن کو مارا یا شہید کیا؟دونوں شہیدوں کا دعوٰے کرتے ہیں۔شہید کون ہیں؟بے چارے معصوم سے لوگ جو حکمرانوں کی حماقتوں کی بھینٹ چڑھے۔
سیڑھیوں سے اوپر علامتی یادگار کے درمیان عراق کا جھنڈا لہراتا ہے۔میرا دل وہاں بیٹھنے کو چاہ رہا تھا۔پھر جیسے مجھے خود پر شدید غُصہ آیا۔
”یہ میں کِس مسئلے میں اُلجھ گئی ہوں۔ ایران عراق تو پھر دو قومیں ہیں۔مسلمان ہیں تو کیا؟میری تو اپنی قوم نے اپنے ہی وطنوں اور ہم مذہبوں پر ظلم و ستم کے وہ پہاڑ توڑے تھے کہ خون کی ندیاں بہہ گئیں۔1971یاد آیا تھا۔پاکستان کی آرمی یاد آئی تھی۔بنگلہ دیشی یاد آئے تھے۔مکتی بانہی یاد آئی تھی۔انسانیت کہاں رہی تھی؟اور بغداد کی تاریخ کونسی کم ہے۔امویوں اور عباسیوں کے خونین معرکے۔ عباسیوں نے جو حشر امویوں کا کِیا۔بغداد کی پہلی بربادی امین اور مامون کے ہاتھوں ہی تو ہوئی۔تاریخ کی خون ریزیاں۔
بلاشبہ انسان بہت خسارے میں ہے۔میں شیشے کی طرح چمکتے فرش پر احتیاط سے چلتے ہوئے سب کو دفع دُور کر رہی تھی۔
میری کچھ پینے کی خواہش پرافلاق کولا کے ٹن پیک لے آیا۔میں کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
”ارے میرے سویٹ سے بچے۔عمر دراز ہو تمہاری۔ پوچھ تو لیتے کہ مجھے کیا چاہئیے تھا؟اب جو تھوڑی بُہت محنت ہو رہی ہے اِس موٹے سے وجود پر۔یہ اِن کولاؤں سے وہیں پھر آجائے گا اور کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔“
وہ ہنسا۔”چلیں اب خیال رکھوں گا۔“
مجھے جارج ایچ پاؤل یاد آیا تھا۔جس نے کہا تھا۔
What is the use of worrying?
It never was worth while.
So pack up your troubles in your old Kitbag.
and Smile, Smile, Smile.
میں کھڑی ہوگئی۔میں نے افلاق کی طرف دیکھا اور کہا۔
افلاقI am packing up my worries in my old Kitbag. and I am going To Smile, Smile, Smile.

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply