چندریان اور سوفٹ وئیر کا جادو/احمد نعمان

چندریان سوئم اور بھارت کی چاند پر پہنچنے کی کامیابی کے پیچھے ڈیجیٹل ٹرانسفورمیشن اور سوفٹ وئیر کا جادو چھپا ہے۔ جو لوگ مشن کریٹیکل سسٹمز میں کام کرتے رہے ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ ان سب میں مرکزیت اب سوفٹ وئیر کی ہے چاہے ٹرین کا چلنا ہو یا ہوائی جہاز کی اڑان یا چاند گاڑی، سب سوفٹ وئیر کی مہربانیاں ہیں۔

کچھ پیچھے آئیے تو چندریان دوئم کی ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ اس میں horizontal and vertical velocity کے حساب سے لینڈر /روور کا اترنا ہارڈ وائرڈ تھا یعنی وہ ہارڈ وئیر میں پروگرامڈ تھا۔ لینڈنگ کرتے وقت vertical velocity کو کشش ثقل نے اتنا زیادہ کر دیا کہ بجائے پلانڈ سوفٹ لینڈنگ کے ایک دم اسے کریش لینڈنگ کرنا پڑی اور نقصان اٹھانا پڑا یعنی جس مخصوص سپیڈ سے اسے اترنا تھا، وہ اورئینٹیشن جسے تکینیکی زبان میں attitude کہتے ہیں ہی خراب ہو گئی، یعنی جیسے ہماری زندگی میں attitude اچھے خاصے بندے کو مروا دیتا ہے، چندریان دوئم کو بھی attitude نے مروا دیا۔

چندریان سوئم میں آئیے تو انہوں نے جہاں ہارڈ وئیر کو بہتر کیا وہیں سوفٹ وئیر نے جادو دکھایا، جس وجہ سے زمین پر بیٹھے بھارتی چاند پر اڑتے چندریان کو کنٹرول کر پا رہے تھے بالکل جیسے وڈیو گیم میں ہوتا ہے۔ چندریان سوئم میں گرائونڈ ٹو سپیس سسٹم ، کنٹرول سسٹم اور collision avoidance system جس وجہ سے وہ خلا میں اڑتی اشیا سے محفوظ رہتا ہے، تمام سوفٹ وئیر کوڈڈ تھے۔ امیج پروسسنگ الگورتھم image processing پہلے سے بہتر تھے، مگر وہ خیر دوئم میں بھی درست رہے تھے، اس بار مصنوعی ذہانت نے اصل کام دکھایا، مصنوعی ذہانت artificial intelligence کی ایک مقامی بھارتی سٹارٹ اپ کمپنی نے سوفٹ وئیر مہیا کیا جس وجہ سے کم خرچ بالانشین معاملہ رہا۔

فی زمانہ ترقی یافتہ دنیا میں ہر چیز سوفٹ وئیر پر چلتی ہے۔ ہمارے لوگوں کو البتہ یوں بتانا پڑتا ہے کہ آج کے دور میں گاڑی ایک کمپیوٹر ہے، مائکروویو اوون سے لے کرسپیس شٹل ہو یا ریفریجریٹر، سب کچھ کمپیوٹر ہیں۔ اوریہ بڑھتا جا رہا ہے یعنی یہ اندازہ کیجیے کہ پہلی سپیس شٹل جب ناسا نے بھیجی تھی تو وہ کمپیوٹر دور کا آغاز تھا اور اسی کی دین بھی۔ اس کا سوفٹ وئیر یا پروگرامنگ کوڈ تقریبا ۵۰۰،۰۰۰ لائن کا تھا، بوئنگ ۷۰۷ کی کوڈنگ جبکہ ۳ ملین لائن کی ہوئی، نئے والے کا تو پوچھیے ہی مت، وہ تو ایک اڑن کمپیوٹر ہے۔

بہت سال قبل جنرل الیکٹرک GE میں کام کرتا تھا، جی ای کو بھی آغاز میں مسئلہ رہا ان دنوں جی ای فائنانشل بک رہا تھا، اور جی ای ٹرانسپورٹیشن بکنے کے لیے تیار تھا۔ ان کے سی ای او، کا ایک فقرہ معروف ہوا جس کی انگریزی تو یاد نہیں مگر مفہوم کچھ یوں تھا کہ ہم بطور فیکٹری سوتے ہیں مگر جاگتے بطور سوفٹ وئیر ہاؤس ہیں۔ یعنی یہ ڈیجیٹل ٹرانسفورمیشن کا دور ہے۔ جن کمپنیوں نے یہ پلے باندھ لی، وہ آج بھی کامیاب ہیں، جو پرانے صنعتی انقلاب کے دور میں پھنسی رہیں، وہ بس بند ہی ہوتی گئیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان میں جب رہتا تھا اس وقت بھی رہنے والوں کو یہی کہتا تھا کہ اور کوئی انڈسٹری تو یہاں کبھی لگنی نہیں، سوفٹ وئیر ہی ہے جو گھر بیٹھے آپ سیکھ سکتے ہیں اور کہیں بھی پہنچ سکتے ہیں، اس سے پھر یاد آیا جیسا اوپر ذکر کیا کہ ان کی سٹارٹ اپ کمپنی کی مصنوعی ذہانت/آرٹیفیشل انٹیلجنس کا کمال ہے جو چندریان کی تصاویر آپ دیکھ رہے ہیں۔ پاکستانی البتہ مصنوعی ذہانت پسند ہی نہیں کرتے، ہمارا ماننا ہے کہ قدرتی حماقت کے سہارے ہی زندہ رہنا ہے۔
Artificial intelligence is a no match for natural stupidity.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply