دائرہ/علی عبداللہ

بوڑھے درویش نے اپنی لاٹھی سے زمین پر ایک دائرہ کھینچا اور مجھے کہنے لگا، جانتے ہو یہ کیا ہے؟

میں نے کہا یہ دائرہ ہے- وہ مسکرا کر بولا حسابی زبان میں یہ دائرہ ہی ہے اور تم جیسے بے شمار لوگ چونکہ حسابی ہیں، وہ اسے دائرہ ہی کہتے ہیں- مگر کیا تم اس دائرے کی اصل سے واقف ہو؟
مجھے نہیں معلوم، لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ، “کائنات کا راز جاننے کے لیے دائرے کی کشش سے آزاد ہونا شرطِ اول ہے، کیونکہ دائروں سے پرے بہت سے راز پوشیدہ ہیں۔ دائروں کی حدوں سے پرے اس بے معنویت کے اپنے معانی ہیں جنہیں سمجھنے کے لیے خود بے معنی ہونا بہت ضروری ہے۔ محبت کے دائرے سے باہر، محبوب کی کشش سے پرے، زندگی کا راز پنہاں ہے۔ زمین کے دائرے سے نکلو، کششِ ثقل کے اس پار خلاؤں کے راز پوشیدہ ہیں۔”

بوڑھا درویش پھر مسکرایا اور کہنے لگا، دائرے سے باہر کچھ نہیں ہے سوائے بے معنویت کے، لیکن اس بے معنویت کے اگر کچھ معنی ہیں تو انھیں جاننے کے لیے پھر کسی نئے دائرے میں داخل ہونا لازمی ہے- اور دائرہ ہی کائنات کی حقیقی پہچان اور خود کی ذات کے عرفان کا ذریعہ ہے- ایک دائرے سے نکل کر دوسرے دائرے میں داخل ہوئے بنا انسان کسی راز سے آشنا نہیں ہو سکتا- دراصل انسان خود ساختہ دائروں سے بہت جلد اکتا جایا کرتا ہے اور پھر ایک روز ان دائروں کو توڑ کر خود کو باور کرواتا ہے کہ وہ دائرے کی کشش سے نکل کر آزاد ہو چکا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ فقط دائرے کے اندر کسی خول کی مانند موجود اپنے ہی کھینچے گئے کسی دائرے سے نکل کر اس دائرے میں چلنے لگتا ہے جو فطرت نے اس کے گرد کھینچا تھا- بوڑھا درویش یہ کہہ کر پھر سے اس دائرے کو دیکھنے لگا-

انسان اگر ایک ہی دائرے میں ہمیشہ گھومتا رہے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ نئے رازوں سے آشنائی حاصل کر سکے، کیونکہ ہر دائرے کی اپنی کشش ہوتی ہے تو کیسے اس کشش سے آزاد ہو کر کچھ نیا سوچا جا سکتا ہے؟ میں نے اس بوڑھے سے سوال کیا-

ہر دائرے کا ایک مرکز ہوتا ہے تم جانتے ہو گے- بوڑھے درویش نے اپنی لاٹھی سے کھینچے گئے دائرے میں بیٹھتے ہوئے کہا- اس مرکز تک پہنچنے کا مطلب ہے محفوظ ہونا- جتنا مرکز سے قریب ہو گے اتنے ہی زیادہ محفوظ ہو گے- تم نے کئی کہانیوں میں پڑھا ہو گا کہ جادو اور دیگر مخفی مخلوقات سے بچنے کے لیے ایک دائرہ کھینچ لیا جاتا ہے جسے شریر مخلوقات پار نہیں کر سکتیں- تم نے یہ بھی دیکھا ہو گا کہ صوفی درویش دائروں کی صورت محو رقص ہو کر اپنے مرکز تک پہنچنے کی جستجو کرتے ہیں- تم نے کعبہ کا طواف بھی دیکھا ہو گا- دائرے کی صورت محو طواف انسان دھیرے دھیرے مرکز کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے اور ہر چکر پر خود کو کیفیات کی نئی دنیاؤں میں پاتا ہے- کائنات کے دائرے سے نکل کر اگر کسی مدار میں نہ داخل ہوا جائے تو شناخت ختم ہو جاتی ہے، راز پوشیدہ ہی رہ جاتے ہیں اور نئی دنیائیں نگاہوں سے کہیں دور چلی جایا کرتی ہیں-

اچھا تم نے کبھی دلہے اور دلہن کی انگلی میں موجود گول چھلے نما انگوٹھی کو دیکھا ہے؟ وہ گول کیوں ہوتی ہے؟ کیا فقط اس لیے کہ انگلی کی بناوٹ کے مطابق ہو جائے؟ نہیں۔۔۔ وہ دائرے کی صورت رشتے کو ایک دوسرے تک محدود کرنے کی علامت ہوا کرتی ہے اور بیرونی اثرات سے بچ کر آپس میں ایسے منسلک ہو جانے کی طرف اشارہ ہوتی ہے کہ جس کا آغاز اور اختتام گھوم پھر کر وہی عہد اور رشتہ ہوتا ہے جس کا انھوں نے اقرار کیا ہوتا ہے-

Advertisements
julia rana solicitors

یہ پوری کائنات ہی ایک دائرے کی صورت میں محو حرکت ہے۔۔۔ ہر دائرے کا اپنا مرکز ہے اور مرکز کو پہچانے بغیر دائرے سے نکلنے کا مطلب جانتے ہو کیا ہوتا ہے؟
“بے معنی ہو کر اپنی شناخت کھو بیٹھنا-”
یہ کہہ کر دائرے میں بیٹھا بوڑھا درویش آنکھیں موند کر کہیں محو ہو گیا-
میں چپ چاپ واپس لوٹنے لگا تو پیچھے سے اس نے آواز دی- ” کیا محبت کے دائرے سے باہر نکل کر زندگی کا راز جانا جا سکتا ہے؟ اور پھر خود ہی کہنے لگا، “نہیں۔۔۔کائنات کی روح اور انسان کی ساخت میں محبت گوندھی جا چکی ہے- محبت کے دائرے سے نکلنے کا مطلب زندگی کا راز پانا نہیں بلکہ کائنات کے اسرار و رموز کو نظرانداز کر کے خود کو ایک کمزور خول میں قید کر لینا ہے-”
یہ کہہ کر بوڑھا پراسرار انداز میں مسکرایا اور فضا میں اک عجیب سا سکوت چھا گیا- اندھیرا بڑھنے لگا تھا میں چپ چاپ اسے وہیں چھوڑ کر واپس چلا آیا-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply